فکر و نظر

یہ اقبال کی نظم پر نہیں بلکہ ہندو سماج کی تنگ ہوتی ذہنیت پر اظہار افسوس کا وقت ہے

وشو ہندو پریشد نے پیلی بھیت کے ایک پرائمری اسکول کے ہیڈ ماسٹر پر قومی ترانے کی جگہ اقبال کی دعا پڑھوانے کا الزام لگایا ۔ ان سے شکایت نہیں لیکن ضلع  مجسٹریٹ سے ہے ۔ انہوں نے جس دعا کے لیے ہیڈ ماسٹر کو سزا دی ، کیا اس کے بارے میں ان کو کچھ معلوم  نہیں ؟ کیا ب ہم ایسی انتظامیہ کی مہربای پر ہیں جو وشو ہندو پریشد کا حکم بجانے کے علاوہ اپنے دل اور دماغ کا استعمال بھول چکے ہیں ؟

علامتی تصویر، فوٹو: رائٹرس

علامتی تصویر، فوٹو: رائٹرس

لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری ،یہ ہے وہ دعا جو ہم اسکول میں گایا کرت تھے ۔ونود رینا نے جئے پور سے دہلی  کے راستے میں اپنےبچپن کویاد کرتے ہوئے بتایا۔

 مجھے اب تک افسوس ہے کہ اس سفر میں ہی کار کے اندر ہی میں نے کیوں نہیں ونود کو وہ دعا گاکر سنانے کی ضد کی۔ ان کے گلے کی سوز کے ان کےدوست گواہ ہیں۔ لیکن ان کی بات کہیں دل میں اٹکی رہ گئی۔ مجھے جیسے لوگ اسکول میں دعاؤں کے ناقد رہے ہیں۔1980 میں’پہل ‘نامی رسالہ کی ایک نظم کا تاثر یاد رہ گیا ہے۔ اس کے شاعر کو بچوں کا ایک نامعلوم طاقت کے سامنے ہاتھ جوڑنا سخت ناپسند ہے۔

 ہمارا بچپن نہایت ہی غیر شاعرانہ دعا کرتے گزرا۔ ‘ہے پربھو آنندداتاگیان ہم کو دیجئے، شگھر سارے درگنوں کو دور ہم سے کیجیے۔’ایک 6 سال کےبچے میں کون سی برائی ہے جن سے دور کرنے کی التجا خدا سے کی جا رہی ہے؟ وہ برائی بے شک بڑوں میں ہوں‌گے۔ دعا اکثر بچے کو کمزور بناتی ہے، یہ خیال دل میں پکا ہوگیا۔اس کے علاوہ اور کوئی دعا یاد نہیں جو اسکول میں گائی جاتی رہی ہو۔ اسکول لیکن دعا کراتے ہی ہیں۔

‘ہم کو اتنی شکتی ہمیں دینا داتا، من کاوشواس کمزور ہو نا۔’اسکولوں میں یہ دعا شمالی ہندوستان کے زیادہ تر اسکول گواتے ہیں۔ کئی اسکول صبح کی اسمبلی  میں ایک سے زیادہ دعا گواتے ہیں۔ اب ریکارڈنگ بجانے کا رواج زیادہ ہے۔ بچوں کے گلوں کے کچاپن کو تکمیلیت اور کامیابی کے پجاری اسکول کمتر مان‌کر سدھے ہوئے گلوکاروں کی ریکارڈنگ ہی سناتے ہیں۔ ہمارے وقت میں لاؤڈاسپیکر کی بیماری اسکولوں کو نہیں لگی تھی۔

 انسانی کانوں کی دوری تک گلے کی آواز جائے، جو نگاہ کے سامنے ہیں، ان تک یہ کافی تھا۔ لیکن اب اسکول اس سے مطمئن نہیں کہ وہ اپنے بچوں اور بچیوں تک ہی خود کو محدود رکھیں۔ جانے کیوں وہ صبح کی اسمبلی  کے براہ راست نشریات لاؤڈ اسپیکر سے ضرور کرتے ہیں۔ دعا سے عدم دلچسپی  کے باوجود ونود رینا کے بچپن کی اس دعا کویو ٹیوب پر تلاش کیا؛

 لب پہ آتی ہے دعا بن‌کے تمنا میری

 زندگی شمّع کی صورت ہو خدایا میری

دور دنیا کا مرے دم سے اندھیر اہوجائے

ہر جگہ میرے چمکنے سے اجالا ہوجائے

 ہو میرے دم سے یوں ہی میرے وطن کی زینت

 جس طرح پھول سے ہوتی ہے چمن کی زینت

زندگی ہو مری پروانے کی صورت یا رب

علم کی شمع سے ہو مجھ کو محبت یا رب

ہو مرا کام غریبوں کی حمایت کرنا

 دردمندوں سے ضعیفوں سے محبت کرنا

 مرے اللہ! برائی سے بچانا مجھ کو

 نیک جو راہ ہو اس رہ پہ چلانا مجھ کو

 علامہ اقبال کی خاص آواز آپ کو اس دعا میں سنائی پڑتی ہے۔ وہ آواز جو اپنی خودی سے اوپر کسی کو نہیں رکھتی۔ اپنے ہی دم سے اپنے ملک کی شان سمجھتی ہے لیکن وہ کچھ اسی طرح ہے جیسے ایک پھول سے چمن کی خوبصورتی بڑھتی ہے۔اپنے رعب کا مطلب دوسروں کی روشنی کو دمدھم کرنا نہیں ہے۔ زندگی ایک پتنگے کی طرح ہو جو علم کے لوپر منڈراتا ہو۔ لیکن سب سے جذباتی مصرعہ وہ ہیں جہاں دعا کی جاتی ہے کہ اپنا کام غریبوں کی حق میں کھڑا ہونا ہو اور دردمندوں اور بوڑھوں، یعنی کمزور سے محبت کرناہو۔

اقبال خدا یا رب سے دعا ایک نیک راہ کی تلاش میں میں کر رہے ہیں۔ یہ راستہ ہمدردی کا ہے۔ دھیان دیجئے، اس پوری نظم میں خود کو کسی خدا میں تحلیل ہونے کی بات نہیں کہی جا رہی۔ شمع بھی علم کی ہے اور وہی انسانی مقام ہو سکتا ہے۔ اقبال پہلے شاعر ہی تھے۔ اور یہ ان کی پائیدار شاعری کا شاندار نمونہ ہے۔اس کی سادگی سے ہم دھوکہ کھا سکتے ہیں لیکن کہا ہی گیا ہے کہ ایک فنکار جب اپنے فن کی بلندی پر ہوتا ہے تو وہ بچے کی طرح آسان ہو جاتا ہے۔

اس نظم میں انسانیت کی سچی تعریف ہے۔ گاندھی جس ویشنو جن کی تلاش کر رہے تھے، اس کے بننے کا ایک طریقہ ان کے ہی ہم عصر اقبال اس دعا میں سجھاتے ہیں۔ غریبوں، دردمندوں اور کمزوروں کےساتھ ہونا ہی ویشنو جن ہونا ہے۔ گاندھی اپنے آشرم میں گائی جانے والی ایک دعا کا خلاصہ بتاتے ہیں، مجھےسانسارک شکتی نہیں چاہیے، نہ سورگ اور نہ ہی نروان۔ چاہیے تو بس دکھیوں کا دکھ دور کرنے کی شمتا۔’

 میں، جس کو عقیدہ کا پرساد نہیں ملا، اس دعا کو سنتے ہوئے ایک ساتھ اس کی عظمت اور نرمی سے حیران ہوا اور خوش بھی۔ آج تک اس سے بہتر دعا مجھے نہیں ملی۔ علی جاوید نے بتایا کہ ان کے اسکول میں اقبال کی دعا اکثر بچے گاتے تھے۔وہ ہندو تھے اور مسلمان بھی۔ کسی کو اپنا مذہب جانے کا ڈر نہیں تھا۔ لیکن ساتھ ہی دوسری دعا بھی ان کو یاد تھی،’وہ شکتی ہمیں دے دیاندھے، کرتویہ مارگ پر ڈٹ جاویں/پرسیوا، پر اپکار میں ہم نج جیون سپھل بنا جاویں/ہم دین دکھی نبلوںوکلوں/کے دکھ بانٹیں سنتاپ / ہریں / جس دیش دھرم میں جنم لیا / بلیدان اسی پر ہو جاویں۔ ‘

 دیانیدھے کون ہے، ہندو یا مسلمان؟ لیکن اس دعا میں بھی رحم دل، غم زدہ،کمزور، پریشان لوگوں  کے دکھ میں شامل کرنے کی دعا ہے۔ یہ اقبال کی دعا کے میل میں ہے۔ پرارتھنا یا دعا کے لئے عاجزی کی درکار ہے۔ انسان کو اپنے ہر قدم کے ٹھیک پڑنے کا تکبر نہ ہو اور اگر اس کو اپنی دعا کا جواب سنائی پڑ رہا ہو تو وہ ہو سکتاہے اس کے تکبر کی گونج ہو۔اگر غیرمعمولی  ہدایات چاہیے تو آپ کا دل بھی صاف اوربےگناہ ہونا چاہیے۔ گاندھی یہ شرطیں گناتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان کا کوئی ایسا دعویٰ نہیں۔ ان کی روح تو جوجھتی ہوئی، غلطیاں کرتی ہوئی، کوشش کرتی ہوئی نامکمل روح ہے۔

یہ سمجھ لیکن بڑے ہونے کے ساتھ آتی ہے۔ بچپن میں جو دعا سنی، وہ اپنی موسیقی کی وجہ سے یاد رہ جاتی ہے۔ یو ٹیوب پر جب اقبال کی دعا تلاش کر رہا تھا تو کیلیفورنیاکی ایک اردواجلاس میں پہنچ گیا۔ ڈاکٹر مونا ڈاور (ہندو ہیں یا مسلمان؟ )اس کو گا رہی تھیں ڈاکٹر اسرالسلام سید کے ساتھ۔ اور جب یہ دعا ہو چکی تو ڈاکٹر سید نے دوسری دعاان کے ساتھ گائی…’ہم کو من کی شکتی دینا، من وجے کریں۔’

ڈاکٹر ا س کےتاثر کا موازنہ اقبال کی دعا کے تاثر سے کرتے ہیں۔ جس احترام سے پہلی دعا گائی جاتی ہے وہ دوسری میں بھی اتنا ہی گہرا ہے۔ کیا ایک ہندو دعا ہے اور دوسرا مسلمان؟ دعا اسکول کی اجتماعی سرگرمی ہے۔ اس کے پہلے ہندوستان کے سب سے بڑے سیاسی اور روحانی استاد گاندھی نے اس کو اجتماعی بنایا۔ سیاست ایک روحانی کارنامہ ہے اوراس میں جس اجتماعیت کی تعمیر ہونی ہے وہ تمام مذہبی احساس کو شامل کرکے ہی کی جاسکتی ہے۔

 کون ہے جو صرف اپنے ‘مذہب’سے الگ مذہب کو محسوس نہیں کرسکتا۔ گاندھی کے بارے میں مشہور ہے کہ بحران کے لمحہ ان کو جو دعا یاد آتی تھی اورجس سے ان کو طاقت ملتی تھی، وہ تھی’لیڈ کائنڈلی لائٹ۔’ گھر سے دور،اندھیری رات ‘میں راہ سجھانے کی دعا ہے،میں کوئی دور نہیں دیکھنا چاہتا،میرے لئے ایک قدم ہی کافی ہے۔’یہ جو ایک قدم تک ہی دیکھنے اور اس قدم کو یقین کے ساتھ اٹھانے کی تمناہے، وہ انسانی حد طے کرتی ہے۔ سنا ہے، ہندوستان میں مذہبیت بڑھ رہی ہے۔ کیا سچ مچ؟ کیا دعا کرتے وقت ہم خود کو بھول‌کر خود سے اوپر کی کسی حقیقت کا دھیان کر پاتے ہیں؟

 اگر ایسا ہوتا تو پھر پیلی بھیت کے بیسل پور تحصیل کے غیاث پور گاؤں کےپرائمری اسکول کے ہیڈ ماسٹر صاحب فرقان علی کو ضلع انتظامیہ معطل نہ کرتا۔ ان پروشو ہندو پریشد نے الزام لگایا کہ وہ قومی ترانہ کی جگہ اقبال کی یہ دعا گوا رہےتھے۔ مجھے وشو ہندو پریشد سے کوئی شکایت نہیں۔ مجھے ضلع جج سے شکایت ہے۔ شایدانہوں نے وہ امتحان پاس کیا ہوگا جس کو سول سروس اگزام کہتے ہیں۔ شاید اس سے نکلےلوگوں کو ہندوستان میں سب سے تیز دماغ مانا جاتا ہے۔

 پھر انہوں نے جس نظم یا دعا یاپرارتھنا کے لئے فرقان صاحب کو سزا دی گئی، کیا اس کے بارے میں ان کو کچھ معلوم نہیں؟ کیا اب ہم ایسی انتظامیہ  کی مہربانی پر ہیں جو وشو ہندو پریشدکا حکم بجالانےکے علاوہ اپنے دل اور دماغ کا استعمال بھول چکے ہیں؟ دعا پر بات کرنے کا یہ وقت نہیں۔ یہ ہندو سماج کے دل اور دماغ کے سکڑجانے کا غم منانے کا وقت ہے۔ وہ روحانیت سے خالی ہوتا جا رہا ہے۔ اس میں مسلمان اور عیسائیوں کے لئے تشدد بھرا جا رہا ہے۔ یہ سب کچھ سوچتے ہوئے میں فیض احمد فیض کی نظم یاد کر رہا تھا،

 آئیے ہاتھ اٹھائیں ہم بھی

 ہم جنہیں رسم دعا یاد نہیں

ہم جنہیں سوز محبت کے سوا

کوئی بت کوئی خدا یاد نہیں

 اور اس دعا کا آخری حصہ،

 جن کے سر منتظر تیغ جفا ہے ان کو

 دست قاتل کو جھٹک دینے کی توفیق ملے

 عشق کا سرنہاں جاں-تپاں ہے جس سے

 آج اقرار کریں اور تپش مٹ جائے

 حرف حق دل میں کھٹکتا ہے جو کانٹے کی طرح

 آج اظہار کریں اور خلش مٹ جائے

 قاتل کے ہاتھ کو جھٹک دینے کی طاقت لیکن اس کے ساتھ حق کی بات جو دل میں کانٹے کی طرح چبھی ہے، وہ ظاہر ہو۔

(مضمون نگار دہلی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔)