خبریں

یو اے پی اے کی ترمیم سے متعلق دستاویز قومی سلامتی کی وجہ سے نہیں دیے جاسکتے: وزارت داخلہ

خصوصی رپورٹ : آرٹیکل 370 کے زیادہ تراہتماموں کو ہٹاکر جموں و کشمیر کا خصوصی درجہ ختم کرنے سےمتعلق آر ٹی آئی کےتحت دی وائر کی طرف سے مانگی گئی جانکاری دینے سے بھی وزارت داخلہ نے منع کر دیاہے۔

وزیر داخلہ امت شاہ، فوٹو بہ شکریہ، ٹوئٹر

وزیر داخلہ امت شاہ، فوٹو بہ شکریہ، ٹوئٹر

نئی دہلی: مرکزی وزارت داخلہ نے کہا ہے کہ وہ یو اے پی اے ترمیم بل، 2019 سے متعلق دستاویز قومی سلامتی کے مفاد میں نہیں دےسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ وزارت نے آرٹیکل 370 کے زیادہ تر اہتماموں کو ختم کرکے جموں و کشمیر کا خصوصی درجہ ختم کرنے کےمتعلق بھی کوئی جانکاری دینے سے منع کر دیا ہے۔ دی وائر نے آر ٹی آئی کے تحت دو درخواست دائر کرکے یہ جانکاری مانگی تھی، حالانکہ دونوں معاملوں میں ہی حکومت نے جواب دینے سے منع کر دیا۔ وزارت داخلہ کا یہ جواب ایسے وقت پر آیا ہے جب کچھ دن پہلے ہی مرکزی وزیرداخلہ امت شاہ نے آر ٹی آئی نافذ ہونے کے 14 سال پورے ہونے پر کہا تھا کہ ان کی حکومت نے پہلے ہی کافی جانکاری عام کردی ہے، اس لئے لوگوں کو آر ٹی آئی دائر کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی ہے۔

 پارلیامنٹ نے اسی سال جولائی مہینے میں غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام سے متعلق ترمیم شدہ  بل یو اے پی اے، 2019 کو منظوری دےدی۔ اس بل کے تحت مرکز کو کسی آدمی کو دہشت گرد قرار دینے کا حق مل گیا ہے۔ بل کوغیر آئینی بتاتے ہوئے اس کو سپریم کورٹ میں چیلنج دیا گیا ہے۔ دی وائر نے آر ٹی آئی دائر کرکے اس بل پر کابینہ سے منظوری لینے کے لئےبنائے گئے کابینہ  نوٹ، بل کے متعلق میں ہوئے تمام خط وکتابت اور فائل نوٹنگس کی کاپی مانگی تھی۔یہ بھی پوچھا گیا تھا کہ بل کے لئے کسی بھی کمیٹی یا کمیشن سے کوئی مشورہ یا سفارش ملی ہو تو وہ جانکاری بھی دی جائے۔ حالانکہ مرکزی وزارت داخلہ نے قومی سلامتی کا حوالہ دیتے ہوئے ان تمام پوائنٹس پر جانکاری دینے سے منع کر دیا۔

 وزارت داخلہ نے اپنے جواب میں کہا، ‘یہ جانکاری قومی سلامتی کے مفاد میں آر ٹی آئی قانون کی دفعہ 8 (1) (اے) اور دفعہ 24 کے تحت نہیں دی جا سکتی ہے۔ ‘جبکہ آر ٹی آئی قانون کی دفعہ 8 (1) (آئی) میں لکھا ہے کہ فیصلہ لینے کے بعد، جس بنیادپر فیصلہ لیا گیا ہے اس سے متعلق تمام دستاویز،کابینہ  کے فیصلے اور ان کی وجوہات کو عام کیا جانا چاہیے۔ یو اے پی اے ترمیم بل، 2019 جولائی مہینے میں ہی منظور ہو چکا ہے اور ہندوستان کے گزٹ میں شائع بھی ہوچکا ہے۔

اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ فیصلہ لیا جا چکا ہے اور معاملہ پورا ہو چکا ہے۔اس طرح آر ٹی آئی قانون کی دفعہ 8 (1) (آئی) کی پہلی شرط کے تحت یہ جانکاری دی جانی چاہیے تھی، حالانکہ وزارت نے اس کو دینے سے منع کر دیا۔ جبکہ دی وائر نے اپنی آرٹی آئی درخواست میں ہی ان شرطوں کا حوالہ دے دیا تھا۔اس کے علاوہ یہاں پر سینٹرل انفارمیشن کمیشن (سی آئی سی) کا ایک فیصلہ کافی اہم ہے۔ جون 2012 کے ایک فیصلے میں، سی آئی سی نے ایک ہدایت جاری کی تھی کہ پارلیامنٹ میں پیش کئے جانے والے بلوں سے متعلق تمام کابینہ  نوٹس اور دستاویزوں کو اگلے سات دنوں کے اندر عام کیا جانا چاہیے۔

یہ فیصلہ دینے والے اس وقت کے اانفارمیشن کمشنر شیلیش گاندھی نے کہا، ‘اطلاع دینے سے منع کرتے وقت یہ بتانا چاہیے کہ کس بنیاد پر ان دفعات کے تحت جانکاری نہیں دی جا سکتی ہے۔ من مانے طریقے سے جانکاری دینے سے منع کرنے کا چلن بن گیا ہے۔آر ٹی آئی ایکٹ میں بالکل صاف لکھا ہے کہ جب کسی بل کو پاس کرانے کا معاملہ پوراہو چکا ہو تو یہ ساری جانکاری دی جانی چاہیے۔ ‘وزارت داخلہ نے جانکاری دینے سے منع کرنے کے لئے آر ٹی آئی قانون کی دفعہ 8 (1) (اے) اور دفعہ 24 کا حوالہ دیا ہے۔ دفعہ 8 (1) (اے) کے تحت ایسی جانکاری دینے سے چھوٹ حاصل ہے جس سے ہندوستان کی یکجہتی اور سالمیت ، ریاست کی سلامتی ، حکمت عملی ، سائنسی یا معاشی مفادات اور بیرون ملک سے تعلقات متاثر ہوتےہوں۔

وہیں آر ٹی آئی قانون کی دفعہ 24 کے تحت انٹلی جنس اور سکیورٹی اداروں جیسے آئی بی ، بی ایس ایف ، را ، ای ڈی ، سی آر پی ایف ، آئی ٹی بی پی وغیرہ سے متعلق جانکاری دینے سے چھوٹ حاصل ہے۔ حالانکہ اس میں بھی شرط ہے کہ اگر مانگی گئی اطلاع بد عنوانی کے الزام اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی سے متعلق ہے تو ایسی جانکاری دی جانی چاہیے۔

علامتی تصویر، پی ٹی آئی

علامتی تصویر، پی ٹی آئی

 وزارت داخلہ کے پبلک انفارمیشن رائٹس کے افسر پروین کمار رائے نے جواب دیتے ہوئے ایسی کوئی دلیل نہیں دی کہ آخر مانگی گئی جانکاری کس بنیاد پر ان دفعات کے تحت دینے سے منع کیا جا سکتا ہے۔گاندھی نے کہا، ‘پہلی نظر میں ایسا نہیں لگا کہ یہ جانکاری دفعہ 24 کے تحت نہیں دی جا سکتی ہے۔ پھر بھی اگر کسی دستاویز میں ایسی کوئی جانکاری ہے، جو نہیں دی جا سکتی ہے تو اتنی جانکاری کوہٹاکر باقی کی جانکاری آر ٹی آئی ایکٹ کی دفعہ 10 کے تحت دی جانی چاہیے۔ ‘

اسی سال جولائی مہینے میں آر ٹی آئی کے تحت اعلیٰ ترین اپیلیٹ ادارہ سینٹرل انفارمیشن کمیشن نے اپنے ایک انتہائی اہم فیصلے میں کہا تھا کہ اطلاع دینے سےچھوٹ حاصل دفعات کا من مانے طریقے سے ذکر کرنا بالکل غلط ہے۔ڈی او پی ٹی کو سخت پھٹکار لگاتے ہوئے کہا تھا کہ ایسا کرنا غلط رواج کو بڑھاوا دیتا ہے۔

آرٹیکل 370 پر جانکاری نہیں دی گئی

اسی سال پانچ اگست کو حکومت ہند نے ایک غیر متوقع فیصلہ لیتے ہوئے جموں وکشمیر کا خصوصی درجہ ختم کر دیا اور ریاست کو دو ٹکڑوں میں بانٹ‌کر اس کو یونین ٹریٹری بنادیا۔جہاں ایک طرف جموں و کشمیر کے لوگ اس فیصلے سے کافی متاثر ہیں اور ان سےبات چیت کئے بغیر فیصلہ لینے کو لےکر ناراض ہیں، وہیں دوسری طرف وزارت داخلہ نے اس جانکاری کا بھی انکشاف کرنے سے منع کر دیا ہے کہ یہ فیصلہ کس بنیاد پر لیا گیا تھا۔ دی وائر نے اس فیصلے کے خلاف بھی اپیل دائر کی تھی، حالانکہ یہاں سے بھی مایوسی ہاتھ لگی اور اپیل خارج کرتے ہوئے متعلقہ  افسر نے پبلک انفارمیشن افسرکے جواب کو برقرار رکھا۔

مرکزی وزارت داخلہ سے آر ٹی آئی کے ذریعے آرٹیکل 370 کے زیادہ تر اہتماموں کو ختم کرنے سے متعلق  تیار کئے گئے کابینہ نوٹ،وزیر اعظم دفتر اور جموں و کشمیر ریاست سمیت تمام ضروری محکمہ جات کے ساتھ ہوئے خط وکتابت، فائل نوٹنگس اور ایسا فیصلہ لینے کے لئے کسی بھی کمیٹی یا کمیشن سے بھیجےگئے کوئی مشورہ یا سفارش کی کاپی مانگی تھی۔ حیرت انگیز طور پر وزارت نے آر ٹی آئی قانون کی دفعہ 8 (1) کے خصوصی اہتمام کےبجائے کئی اہتماموں کا حوالہ دیتے ہوئے جانکاری دینے سے منع کر دیا۔ وزارت نےلکھا، ‘ آپ کے ذریعے مانگی گئی جانکاری آر ٹی آئی ایکٹ 2005 کی دفعہ 8 (1) کے اہتماموں کے تحت آتی ہے اس لئے شہری کو ایسی جانکاری دینے کی کوئی مجبوری نہیں ہے۔ ‘

وزارت کے سی پی آئی او ٹی شری کانت نے کوئی وجہ نہیں بتائی کہ آخر کس بنیاد پر ان دفعات کے تحت یہ جانکاری نہیں دی جا سکتی۔ دفعہ 8(1) کے الگ الگ اہتماموں کے تحت مختلف قسم کی جانکاری دینے سے چھوٹ دی گئی ہے۔ سی پی آئی او نے جن اہتماموں کا ذکر کر کےجانکاری دینے سے منع کیا ہے اس سے متعلق میں جانکاری مانگی ہی نہیں گئی تھی۔مثلاً ایکٹ کی دفعہ 8 (1) (بی) کہتی ہے کہ ایسی کوئی جانکاری جس کو کسی کورٹ یا ٹریبونل نے شائع کرنے سے روک دیا ہے یا ایسی جانکاری جس کے انکشاف سے کورٹ کی ہتک ہوتی ہے تو یہ جانکاری نہیں دی جائے‌گی۔

آرٹیکل 370 سےمتعلق اب تک کسی کورٹ نے ایسی کسی جانکاری کے انکشاف سے روک نہیں لگائی ہے۔ سی پی آئی اونے واضح ہی نہیں کیا کہ آخر دفعہ 8(1) کے کس اہتمام کے تحت جانکاری نہیں دی جاسکتی ہے۔چونکانے والی بات یہ ہے کہ وزارت کے اپیلیٹ افسر ایڈیشنل سکریٹری گیانیش کمار نے بھی اس فیصلے کو صحیح ٹھہرایا ہے۔

کمار نے اپنے فیصلے میں لکھا، ‘سی پی آئی او نے صحیح طریقے سے جانکاری دینے سے منع کیا ہے کیونکہ مانگی گئی اطلاع آر ٹی آئی ایکٹ کی دفعہ 8 (1) کے اہتماموں کے تحت آتی ہے۔ ‘اپیل میں یہ حوالہ دیا گیا تھا کہ چونکہ یہ جانکاری وسیع مفاد عامہ سے جڑی ہوئی ہے اس لئے اس کو عام کیا جانا چاہیے۔ آر ٹی آئی کی دفعہ 8 (2) کے تحت چھوٹ حاصل دفعہ کے تحت آنے والی اطلاع اگر وسیع مفاد عامہ سے جڑی ہوئی ہے اور مفاد عامہ کاپلڑا کسی خصوصی مفاد کے مقابلے میں بھاری پڑتا ہے تو ایسی جانکاری عام کی جانی چاہیے۔