خبریں

قرآن تقسیم کرنے کے حکم پر چرچہ میں آئی طالبہ جھارکھنڈ پولیس کے خلاف ہائی کورٹ پہنچی

رانچی کی ایک طالبہ ریچا بھارتی کو سوشل میڈیا پر مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے والی پوسٹ کرنے کے الزام میں گزشتہ 12 جولائی کو گرفتار کیا گیا تھا۔ مقامی عدالت نے ان کو پانچ قرآن تقسیم کرنے کی شرط پر ضمانت دی تھی۔ بعد میں عدالت نے قرآن تقسیم کرنے کا حکم واپس لے لیا تھا۔

جھارکھنڈ ہائی کورٹ(فوٹو : وکی میڈیا کامنس)

جھارکھنڈ ہائی کورٹ(فوٹو : وکی میڈیا کامنس)

نئی دہلی: سوشل میڈیا پر مبینہ طور مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے والی پوسٹ کی وجہ سے  نچلی عدالت سے قرآن تقسیم کرنے کے حکم کو لےکر چرچہ  میں آئیں 19 سالہ طالبہ ریچا بھارتی نے ان کے خلاف سازش کرنے کے لئے کئی پولیس افسران اور 17 دیگر افراد کے خلاف معاملہ درج کرنے کی ہدایت دینے کی جھارکھنڈ ہائی کورٹ  سے گزارش کی ہے۔

ریچا نے عرضی دائر کر کے ایڈیشنل پولیس سپرنٹنڈنٹ، پولیس سپرنٹنڈنٹ(دیہی ) اور پیٹھوریا تھانہ انچارج پر مقدمہ درج کرنے کے لئے ہدایت دینے کی گزارش کی ہے۔ ان کے خلاف فیس بک پر فحش پوسٹ کرنے والے 17 لوگوں پر بھی ایف آئی آر درج کرانے کی گزارش ہائی کورٹ سے کی ہے۔

عرضی میں کہا گیا ہے کہ ان کے خلاف فیس بک پر کئی لوگوں نے فحش تبصرہ کیا ہے۔ اس کی شکایت انھوں نے پیٹھوریا تھانہ انچارج، علاقے کے ایڈیشنل پولیس سپرنٹنڈنٹ اور دیہی پولیس سپرنٹنڈنٹ سے کی ہے، لیکن مہینوں گزر جانے کے بعد بھی ان کی شکایت پر ایف آئی آر درج نہیں کی جا رہی ہے۔ جن لوگوں نے فحش تبصرہ کیا ہے ان کے خلاف بھی پولیس کارروائی نہیں کر رہی ہے۔

دینک جاگرن کی رپورٹ کے مطابق، ریچا نے عرضی میں کہا ہے کہ انہوں نے صرف ایک پوسٹ شیئر کیا اور جواب دیا، جس پر پولیس افسروں نے اس کو جیل میں ڈال دیا۔ لیکن ان کے ساتھ نازیبا سلوک کرنے، عزت کو ٹھیس پہنچانے، گالی-گلوچ کرنے کی شکایت کی گئی، جس پر کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ انہوں نے عرضی میں کہا ہے کہ اعلیٰ افسروں سے شکایت کرنے کے بعد بھی کارروائی نہیں کی گئی ہے۔

عرضی میں ریچا نے کہا ہے کہ انہوں نے فیس بک پر قابل اعتراض پوسٹ نہیں کی تھی۔ لیکن پولیس نے بنا جانچ‌کے اس کے خلاف ایف آئی آر درج کر کےان کو عدالت میں پیش کیا تھا۔ اس وجہ سے لاپرواہ پولیس افسروں پر کارروائی ہونی چاہیے۔ دینک جاگرن کے مطابق، ریچا کی ماں نے بھی جھارکھنڈ ہائی کورٹ میں ایک عرضی داخل کرکے اپنا موبائل واپس کرنے کی گزارش کی ہے۔ ریچا کی ماں کا الزام ہے کہ پیٹھوریا تھانہ انچارج نے اس واقعہ کے دوران اس کا موبائل ضبط کر لیا تھا، جو اب تک واپس نہیں کیا۔

غور طلب ہے کہ اسی سال جولائی میں ریچا پر سوشل سائٹ پر قابل اعتراض باتیں لکھنے کا الزام لگا تھا۔ پولیس نے اس معاملے میں ریچا کو گرفتار کیا تھا۔ تب نچلی عدالت نے ضمانت کے لئے ان پر قرآن تقسیم کرنے کی شرط لگائی تھی۔ عدالت نے حکم دیا تھا کہ ریچا قرآن کی ایک کاپی انجمن اسلامیہ کمیٹی اور چار دیگر کاپیاں مختلف اسکولوں اور کالجوں کو عطیہ کریں۔

ریچا کے وکیل نے بتایا تھا کہ ریچا کو انتظامیہ کی موجودگی میں انجمن اسلامیہ کو قرآن کی ایک کاپی سونپنی ہوگی اور اس کی رسید لینی ہوگی اور اگلے 15 دنوں کے اندر پانچوں کی رسید کورٹ میں جمع کرنی ہوگی۔ اس کی کئی تنظیموں  نے مخالفت کی تھی۔ بعد میں عدالت نے قرآن تقسیم کرنے کی شرط واپس لے لی۔ صدر انجمن کمیٹی کے ممبر منصور خلیفہ نے اس معاملے میں شکایت کی تھی۔

خلیفہ نے 12 جولائی کو پیٹھوریا پولیس تھانے میں بھارتی کے خلاف شکایت درج کراتے ہوئے کہا تھا کہ وہ (ریچا) فیس بک اور وہاٹس ایپ پر قابل اعتراض مواد اپلوڈ کر رہی تھی۔ فیس بک پر جو مواد پوسٹ کیا گیا، وہ ایک خاص مذہب کے خلاف تھااور اس سے سماج میں سماجی ہم آہنگی بگڑ سکتی تھی۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)