خبریں

آسٹریلیا کے اخباروں نے میڈیا پر پابندیوں کی مخالفت میں سر ورق خالی چھوڑا

جون مہینے میں آسٹریلیائی براڈکاسٹنگ کارپوریشن کے ہیڈکوارٹر اور نیوز کارپ کے ایک صحافی کے گھر پر چھاپےماری کے بعد آسٹریلیا کے ’ رائٹ ٹو نو کوئلیشن ‘ مہم کے تحت اخباروں نے یہ قدم اٹھایا ہے۔

(فوٹو بہ شکریہ: مائیکل ملر / ٹوئٹر)

(فوٹو بہ شکریہ: مائیکل ملر / ٹوئٹر)

نئی دہلی: آسٹریلیا کے سبھی اخباروں نے پریس پر پابندیوں کی مخالفت میں سوموار کو اپنے سر ورق کو بلینک چھاپ‌کر یکجہتی کا مظاہرہ کیا ہے۔ یہ مخالفت نیشنل سکیورٹی قوانین اور پریس کی آزادی کی پامالی کے خلاف ہے۔ این ڈی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق، دی آسٹریلین، دی سڈنی مارننگ اور آسٹریلین فنانشیل ریویو سمیت قومی اور علاقائی اخباروں نے اپنے فرنٹ پیج کو کالا چھاپا ہے۔

اس بارے میں ملک بھر کے ٹیلی ویژن نیٹ ورک پر یہ اشتہار نشر ہو رہے ہیں، جس میں ناظرین سے اس سوال پر غور کرنے کو کہا جا رہا ہے، ‘ جب حکومت آپ سے سچ دور رکھتی ہو، وہ کیا کور کریں‌گے؟ ‘ غور طلب ہے کہ جون مہینے میں آسٹریلیائی براڈکاسٹنگ کارپوریشن (اے بی سی) کے ہیڈ کوارٹر اور نیوز کارپ کے ایک صحافی کے گھر پر چھاپےماری کے بعد آسٹریلیا کے ‘ رائٹ ٹو نو کوئلیشن ‘ مہم کے تحت اخباروں نے یہ قدم اٹھایا ہے۔ یہ چھاپےماری شائع کئے گئے دو مضامین کے بعد کی گئی، جن سے حکومت کا کافی مذاق بنا تھا۔

اس بارے میں پریس کی 6 مانگیں ہیں، جن میں سے ایک صحافیوں کو سخت نیشنل سکیورٹی قوانین سے چھوٹ دینا ہے کیونکہ ان کا یہ کہنا ہے کہ یہ سخت قانون ان کو لوگوں تک جانکاریاں لا پانے سے روک رہا ہے۔ اخباروں کی مخالفت پر حکومت کا کہنا ہے کہ وہ پریس کی آزادی کی حمایت کرتے ہیں لیکن کوئی بھی قانون سے اوپر نہیں ہے۔

دی گارڈین کی رپورٹ کے مطابق، آسٹریلیائی پارلیامنٹ نے پچھلے 20 سالوں میں رازداری اور جاسوسی سے متعلق 60 سے زیادہ قانون پاس کئے ہیں۔ پچھلے دو سالوں میں 22 قانون منظور کئے گئے ہیں۔ نیوز کارپ آسٹریلیا کے ایگزیکٹو چیئر مین مائیکل ملر نے اخبار کا پہلا صفحہ خالی رکھے جانے کی تصویر ٹوئٹ کی ہے، جس میں دی آسٹریلین، دی ڈیلی ٹیلی گراف، دی ایڈورٹائزر اور آبزرور سمیت کئی اخباروں کی کاپیاں ہیں۔

انہوں نے عام لوگوں سے اپیل کی کہ وہ حکومت سے پوچھیں کہ وہ ہم سے کیا چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں؟ اے بی سی کے منیجنگ ڈائریکٹر ڈیوڈ اینڈرسن نے کہا کہ آسٹریلیا سچ چھپانے والی جمہوریت بننے کی راہ پر ہے۔

غور طلب ہے کہ اتوار کو ہی آسٹریلیائی حکومت نے کہا کہ چھاپےماری کے بعد تین صحافیوں پر مقدمہ چل سکتا ہے۔ اسی کے مدنظر میڈیا اداروں نے اپنی مخالفت کا اظہار کیا ہے۔ وزیر اعظم اسکاٹ ماریسن نے کہا کہ پریس کی آزادی آسٹریلیا کی جمہوریت کے لئے اہم ہے، لیکن قانون کو برقرار رکھنے کی ضرورت ہے۔