خبریں

لنچنگ کے اعداد و شمار جمع کر نے کے باوجود این سی آر بی نے اس کو جاری نہیں کیا

سال 2017 کی این سی آر بی رپورٹ پورے ایک سال کی تاخیرسے جاری کی گئی ہے۔ اس رپورٹ میں خواتین کے خلاف ظلم کے سب سے زیادہ معاملے اتر پردیش میں درج کئے گئے ہیں۔

 علامتی تصویر (فائل فوٹو : پی ٹی آئی)

علامتی تصویر (فائل فوٹو : پی ٹی آئی)

نئی دہلی: نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو (این سی آر بی)نے ایک سال تاخیرسے سوموار کو اپنے اعداد و شمار جاری تو کئے لیکن ان میں کچھ نئےجرائم سے متعلق اعداد و شمار کوجوڑنے کے اپنے وعدے کو نبھا پانے وہ ناکام رہا۔ ماب لنچنگ، متاثر کن لوگوں کے ذریعے قتل، کھاپ پنچایت کے ذریعے دی جانے والی قتل کی سزا اور مذہبی وجہوں سے کیے گئے قتل سے متعلق جمع کیے  گئے اعداد و شمار کو شائع نہیں کیا گیا ہے۔ افسروں نے کہا کہ ماب لنچنگ، متاثر کن لوگوں کے ذریعے قتل، کھاپ پنچایت کےذریعے دی جانے والی قتل کی سزا اور مذہبی وجہوں سے کیے گئے قتل کے نئے سب-ہیڈ کے تحت جمع کئےگئے اعداد و شمار شائع نہیں کئے گئے ہیں، جس کے نتیجے میں 2017 کی ایجنسی  کی رپورٹ میں تھوڑی دیری ہوئی ہے۔

انڈین ایکسپریس کے مطابق، نئی رپورٹ نے بڑے پیمانے پر 2016 کے ایڈیشن کےطریقے کی پیروی  کی ہے۔ حالانکہ، این سی آر بی نے ریاست کے خلاف جرائم اور سائبرکرائم  کے زمرہ میں اصلاح کو روک دیا ہے۔ ایک افسر نے کہا، ‘یہ چونکانے والا ہے کہ ماب لنچنگ وغیرہ سے جڑے اعداد وشمار کو جاری نہیں کیا گیا۔ یہ اعداد و شمار پوری طرح سے تیار تھے۔ صرف اعلیٰ افسروں کو پتہ ہوگا کہ یہ اعداد و شمار کیوں نہیں جاری کئے گئے۔ ‘این سی آر بی کے ڈائریکٹر ایشور کمار نے ملک بھر میں ماب لنچنگ اور قتل کے واقعات کی وجہ سے ان نئے ذیلی زمروں  کے تحت اعداد و شمار کی  درجہ بندی کرنے کافیصلہ کیا تھا۔ مویشیوں کی چوری یا اسمگلنگ کے مشتبہ سامان، بچے کو اٹھانے کی افواہوں، وغیرہ سمیت کئی وجہوں سے لنچنگ کے واقعات ہوئے ہیں۔ اکثر معاملوں میں خاص طورپر گئو رکشکوں نے مسلموں اور دلتوں کو اپنا شکاربنایا۔

 حال ہی میں آر ایس ایس چیف موہن بھاگوت نے کہا تھا کہ لنچنگ مغربی طریقہ ہے اور ملک کو بدنام کرنے کے لئے ہندوستان کے تناظر میں اس کااستعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔اقلیتوں کے خلاف جرائم کو ڈھکنے کی کوشش کے طور پر ان کے بیان کی کافی تنقید ہوئی۔ حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی کے کئی رہنماؤں نے لنچنگ کے معاملوں میں ملزمین کے لئے واضح حمایت کا اظہار کیا ہے، اور سرکاری ایجنسیوں کو یہ یقینی بنانےکے لئے تفتیش پر نرمی برتنے کا الزام لگایا گیا ہے کہ کسی کو بھی سزا نہیں دی گئی  ہے۔ جولائی 2018 میں مرکزی وزیر ہنس راج اہیر نے راجیہ سبھا کو بتایا تھا کہ مرکز کے پاس لنچنگ کے واقعات کا کوئی اعداد و شمار نہیں ہے، کیونکہ این سی آر بی اس کو اکٹھانہیں کرتا ہے۔

انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) نے بھی اس بات پر اعتراض کیا تھا کہ کیسے حکومت ہند اعداد و شمار کو جاری کرنے پر روک لگا رہی ہے۔ آئی ایم ایف کی 2018 کی سالانہ مشاہدہ رپورٹ میں پایا گیا ہے کہ ہندوستان اعداد و شمار کے تمام زمروں میں آئی ایم ایف کے ذریعے طےشدہ معینہ مدت کی پیروی نہیں کر سکا ہے۔

کیا کہتے ہیں این سی آر بی کے اعداد و شمار

 این سی آر بی کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق، 2017 میں ملک بھر میں معلوم جرائم کے 50 لاکھ سے زیادہ معاملے درج کئے گئے جو کہ سال 2016 کے اعداد و شمار سے 3.6 زیادہ ہیں جب 48 لاکھ ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔این سی آر بی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2017 میں قتل کے معاملوں میں 5.9 فیصدی کی گراوٹ درج کی گئی۔ 2017 میں 28653 قتل معاملے درج کیے گئے، جو کہ سال 2016 کے 30450 سے کم ہے۔ قتل کے سب سے زیادہ معاملے تنازعہ (7898 معاملے) کی وجہ سے ہوئے جس کے بعد ذاتی بدلےیا دشمنی(4660)اور منافع (2103)کے معاملے سامنے آئے۔

2017 میں اغوا کے معاملوں میں 9 فیصدی کااضافہ دیکھا گیا جب 95893 معاملے درج کئے گئے تھے جبکہ2016 میں 88008 معاملے کے درج کئے گئے۔ 2017 میں ملک بھر میں خواتین کے خلاف جرم کے 359849 معاملے درج کئے گئے، جس میں لگاتار تیسرے سال بھی اضافہ ہوا۔ 2015 میں خواتین کےخلاف جرائم کے 329243 معاملے اور 2016 میں 338954 معاملے درج کئے گئے تھے۔ خواتین کے خلاف جرم کے طور پر درجہ بند معاملوں میں قتل، ریپ ، جہیزکو لے کرقتل، خودکشی، تیزاب سے حملے، خواتین کے خلاف تشدداور اغوا وغیرہ شامل ہیں۔

 این سی آر بی کے اعداد و شمار کے مطابق، خواتین کے خلاف ظلم کے سب سےزیادہ معاملے اتر پردیش (56011) میں درج کئے گئےہیں۔ یوپی کے بعد مہاراشٹر میں 31979 معاملے درج کئے گئے۔ اعداد و شمار کے مطابق، مغربی بنگال میں 30992،مدھیہ پردیش میں 29778، راجستھان میں 25993 اور آسام میں 23082 خواتین پر ہوئے جرم کے معاملے درج کئے گئے ہیں۔ حالانکہ، دہلی میں لگاتار تیسرے سال خواتین کے خلاف جرم کے معاملوں میں کمی آئی۔ سال 2017 میں 13076 ایف آئی آر درج کئے گئے جو کہ سال 2016 میں 15310 اور 2015 میں 17222 سے کم ہیں۔

 آسام نے 2017 میں ملک میں جرم میں سب سے زیادہ شرح 143 درج کی۔ جرم شرح فی ایک لاکھ لوگوں پر جرم درج ہوتی ہے۔ جرم شرح کے معاملے میں اڑیسہ  اور تلنگانہ دوسرے مقام پر رہے جس کی جرم شرح 94 رہی، اس کے بعد ہریانہ (88) اور راجستھان (73) کا مقام رہا۔این سی آر بی کے اعداد و شمار کے مطابق تمام ریاستوں میں اروناچل پردیش،گووا، ہماچل پردیش، منی پور، میگھالیہ، میزورم، ناگالینڈ، سکم، تریپورہ میں صرف تین نمبرات میں خواتین کے خلاف جرم درج کئے گئے ہیں۔ ، یہاں تک کہ ملک بھر کےاعداد و شمار میں ان کی ایک فیصدی بھی شراکت نہیں ہے۔