ادبستان

سڑکوں پر نام پتہ پوچھنے والا ’جئے شری رام‘ کا نعرہ اب اسکولوں میں اپنے پاؤں پسار رہا ہے

رام کو امامِ ہند کہنے والے اقبال نے کیا نہیں لکھا،لیکن اب ملک کی سیاست  زیادہ شدت سے پہچان  کی سیاست کے گرد ناچ رہی ہے۔ زبان و ادب یا کوئی بھی ایسی چیز جو ان دو ملکوں کو جوڑ سکتی ہے اس پرحملہ تیز ہو گیا ہے اتفاق سے ہندوستان میں ایسی تمام چیزیں  کسی نہ کسی طور پرمسلمانوں سے جوڑ دی گئی ہیں اس لئے مسلمان اس حملے کی زد میں ہے۔

Iqbal 2

جس ملک میں 9 ویں کلاس کے بچوں سے پوچھا جا رہا ہو، گاندھی جی نے خودکشی کرنےکے لئے کیا کیا؟ اور اس کو صحیح ٹھہرانے کے لئے ان کی آپ بیتی’تلاش حق’سےدلیل دینے کی چالاکی بھی کی جا رہی ہو، وہاں صاف صاف کہنے، سننے اور دیکھنے کی ہوشیاری کو متھ  بتاکر سیاست اپنا کام نکال لیتی ہے۔ یوں وائرل-یُگ کے ویڈیو زاور پیغامات  کے پیچھے جمہوریت بھی وائرل ہو چکی ہے۔اس لئے وزیر اعظم سے لےکر وزیر داخلہ تک اور مقامی انتظامیہ سے لےکر میڈیا تک ؛ سب’کہنے ‘ اور ‘سننے ‘ کی ہوشیاری میں سچائی  کے ساتھ لو-جہاد کر رہے ہیں۔ غلط مطلب  نہ نکالیں،یہاں لو-جہاد کامطلب ہے راشٹرواد کی پریوگ شالا۔

تھوڑا اور صاف کروں تو ؛ ملک کی تاریخ کے ساتھ پریوگ، مذہب کے ساتھ پریوگ اور پریوگوں کے ساتھ پریوگ-ہمیں ایک مکمل ‘پریوگ شالا’ میں بدلا جا رہا ہے۔ ایسے میں خوش قسمتی سے فیکٹ-چیک کا ‘ جھن جھنا ‘ ہمیں ہاتھ لگا ہے۔ یہ اوربات ہے کہ فیکٹ کے سامنے آنے تک ‘راشٹرواد ‘کا پرچم آسمان چوم چکا ہوتا ہے اورسچ کی حیثیت افواہ سے زیادہ نہیں رہ جاتی۔ کبھی کبھی لگتا ہے جمہوریت ہی افواہ ہے اور میں بھی افواہ ہوں۔ افواہ اس طرح کہ میری ایک طےشدہ پہچان ہے-میری زبان، میرا مذہب… اور اس سے الگ میری شہریت ہے، جو میری’طےشدہ پہچان’کی وجہ سے قابل اعتماد نہیں ہے۔

جی، ملک کی سیاست اب زیادہ شدت سے پہچان  کی اس سیاست کے گرد ناچ رہی ہے۔ سڑکوں پر نام-پتہ پوچھنے والا ‘جئے شری رام’کا نعرہ بھیس  بدل‌کراسکولوں میں’راشٹرواد’کی پہچان کے لئے اپنے پاؤں پسار رہا ہے۔ ہمارے یہاں نصاب کے سہارے اپنے سیاسی مفادات کو پورا کرنے کی ایک روایت پہلے سے ہے، اب بس یہ ہونے لگاہے کہ وشو ہندو پریشد جیسی ہندتووادی تنظیم اسکولوں میں بھی اپنے راشٹرواد کویقینی بنانے نکل پڑے ہیں۔ ان تنظیموں  کی اپنی پروردہ نفرت والی سیاست ہے جس کی وجہ سے  ان کوکچھ بھی لگ سکتا ہے اور لگا بھی کہ ان کے ہوتے ہوئے اترپردیش کے پیلی بھیت ضلع کے ایک اسکول میں روایتی پرارتھنا کی جگہ کیسے‘مدرسےکی پرارتھنا ‘ہو رہی ہے؟ شاید ان کو یہ بھی معلوم رہا ہو کہ یہ پرارتھنا تو پاکستان میں بھی کی جاتی ہے۔ اور یہ سب یہاں اس لئے ہو رہا ہے کہ اسکول کے ہیڈ ماسٹر ‘فرقان علی’ ہیں،جو جبراً بچوں سے ‘لب پہ آتی ہے دعا بن‌کے تمنا میری…’پڑھوا رہے ہیں۔ تومراد پوری ہوئی اور اس ہندتووادی تنظیم کو ٹھیک ٹھاک ‘دیش دروہی’ہاتھ آ گیا۔

ایسے میں ان کارکنان کو یہ جان‌کر اور خوشی ملنی چاہیے کہ اس پرارتھناکے پیچھے بھی نہرو کی سازش ہے۔ وزیر اعظم کے نقش قدم  پر چلتے ہوئے اس معاملے میں نہرو کے رول  پر بات کی جائے، اس سے پہلے بچے کی اس دعا کو لکھنےوالے اقبال کی ایک بات سن لیتے ہیں۔ انہوں نے 1902 میں’مخزن ‘نامی رسالہ میں بچوں کی تعلیم پر ایک مضمون لکھا تھا، جس میں ان کا کہنا تھا-‘ تمام قومی عروج  کی جڑ بچوں کی تعلیم ہے۔ ‘جی اقبال ایسا مانتے تھے کہ مستقبل کا ملک بچوں کی تعلیم سے بنتا ہے۔مجھے یہ بات تھوڑی بہت اس وقت سمجھ آئی  جب پیلی بھیت والے معاملے میں ہی’بچےکی دعا ‘پڑھوانے کے جرم میں ہیڈ ماسٹر کو وشو ہندو پریشد کی شکایت پر معطل کر دیاگیا اور اس سے ناراض بچوں نے انتظامیہ کو بتانے کی کوشش کی کہ ‘ ہم ملک کی حفاظت کریں‌گے اور جب تک ہمارے ٹیچر واپس نہیں آتے ہم اسکول نہیں جائیں‌گے۔ ‘ان بچوں کو یہ حوصلہ ضرور اسی طرح کی دعا سے ملا ہوگا۔

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق-یہ بچے مانتے ہیں کہ ان کے استاد کے ساتھ غلط ہوا ہے اور یہ دعا’ایکتا’کے بارے میں ہے۔ اس ملک میں آج کے وقت میں بچے’صحیح-غلط ‘اور’ایکتا’کی بات کر رہے ہیں تو صحیح معنوں میں اقبال کی یہ دعا خطرناک ہے۔ تنازعہ کے بعد  ریاست کے وزیر تعلیم بھی کہتے نظر آئے کہ معطلی کو واپس لیا جائے‌گا، ان کو اس نظم میں حُب الوطنی کا جذبہ بھی نظر آنے لگا ۔یہاں اس بات کا ذکر بہت ضروری ہے کہ اپنی-اپنی سہولت سے ہندو اور مسلمان بن جانے والا یہ ملک بس کمال کاہے کہ، ایک مسلمان استادکے لئے ہندو بچےاور ان کے ماں باپ بھی آواز اٹھا رہےہیں۔ انڈین ایکسپریس کی مانیں تو بچوں کا کہنا  تھا کہ ان کا یہ داڑھی-ٹوپی والااستاد اپنی جیب کے پیسے بھی اسکول کے لئے خرچ‌کر دیتا ہے۔ رپورٹ میں بی ای اوکے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ، علی اکثر اسکول انفراسٹرکچر کے لئے اپنے پیسے خرچ کرتے ہیں، انہوں نے اسکول میں اسمارٹ کلاس روم شروع کرنے کے لئے 65000 روپے کا پروجیکٹر تک خریدلیا۔ یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ جس کام کے لئے ان کو محکمے سے 5000 ملتے ہیں اس کے لئے وہ سات ہزار تک خرچ‌کر دیتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:یہ اقبال کی نظم پر نہیں بلکہ ہندو سماج کی تنگ ہوتی ذہنیت پر اظہار افسوس کا وقت ہے

انڈین ایکسپریس کی تازہ رپورٹ کے مطابق ،علی کی معطلی کو ‘انسانی بنیاد’پرعارضی طورپر رد کرتے ہوئے ان کو دوسرے اسکول میں منتقل کر دیا گیا ہے۔ اس بات سے ناراض جہاں بچوں کے والدین کہہ رہے ہیں کہ ان کو یہاں واپس لانے کے لئےاتھارٹی کو لکھا جائے‌گا، وہیں بچوں کی ضد ہے کہ وہ بھی وہیں داخلہ  لیں‌گے جہاں ان کو ٹرانسفر کیا گیا ہے۔ خیر علی کے خاندانی پس منظر کی بات کریں تو ان کے والدسبزی بیچا کرتے تھے، اور جب وہ چوتھی کلاس میں تھے تو ان کی ماں کا انتقال  ہو گیاتھا۔ سات بھائی بہنوں کے ساتھ ان کے لئے تعلیم حاصل کرنا کتنا مشکل رہا ہوگا اس کابس اندازہ لگایا جا سکتا۔ یوں جدو جہد والی زندگی سے نکل‌کرآنے والےاس استاد کی اپنے اسکول اور بچوں سے محبت بھی سمجھ میں آتی ہے۔ اور بچے کیوں ان کے لئے کھانا تک چھوڑ بیٹھے اس کو بھی سمجھا جا سکتا ہے۔ اب ایسے استاد کو اعزاز  دینے کی کوئی بہت اچھی روایت ہمارے یہاں ہے نہیں تو کسی ہندتووادی تنظیم کی شکایت پر اس کو معطل تو کیا ہی جا سکتا ہے۔

قصہ اقبال کی نظم کا…

 اقبال کی نظم ‘لب پر آتی ہے دعا بن‌کے تمنا میری…'(بچے کی دعا)کوہم میں سے اکثر لوگوں نے اپنے نصاب میں پڑھ رکھا ہے، بہت سے لوگوں نے اپنے اسکول کے اسمبلی میں گایا ہے تو کئی لوگوں  نے اس کو بےحد خوبصورت دھن اور سریلی آواز میں سن رکھا ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اقبال کی مشہور نظموں اور شاید’سارے جہاں سےاچھا ہندوستاں ہمارا…’کے بعد یہی وہ نظم ہے جو لوگوں کی زبان پر ہے۔ خیر اقبال نے اپنی یہ’متنازعہ’نظم کب لکھی اس کی واضح جانکاری دستیاب نہیں ہے، لیکن یہ بات صاف ہے کہ ایسی نظمیں ان کی شاعری کے پہلے دور (1901 سے 1905)میں لکھی گئی ہیں۔چونکہ اس کے بعد اقبال نے بچوں کے لئے توجہ کے ساتھ لکھنا چھوڑ دیا تھا۔ اس نظم کے لئے اقبال کی تنقیدکی گئی اور ان پر’چوری’کا الزام بھی لگایا گیا ہے، لیکن یہ سچ نہیں ہے۔ الزام لگانے والوں کا کہنا ہے کہ اقبال نے Matilda Betham Edwards کی نظم AChild ‘ s Hymn

کو اردو میں ترجمہ کر دیا ہے۔ پہلے نظم دیکھیے؛

دراصل اقبال نے بچوں کے لئے ایسی کئی نظمیں دوسری زبان کی نظموں کوسامنے رکھ‌کر لکھیں، لیکن اس کو ‘ چوری’نہیں کہہ سکتے۔ کیونکہ اردو میں باقاعدہ اس کے لئے ایک اصطلاح ‘ماخوذ’مروج ہے، جس کا مطلب ہوتا ہے ‘لیا گیا۔’اقبال کی یہ نظم ان کے مجموعہ’بانگِ درا ‘میں شامل ہے اور اس کی  اکثر اشاعت  میں اس نظم کےساتھ ‘ ماخوذ ‘ لکھا ہوا ہے۔ گیان چند جین جیسے بڑے نقاد بھی اس بات کا ذکر کرچکے ہیں، اس لئے اقبال کی تنقید کے بجائے ان کو داد دینی چاہیے کہ انہوں نے اس طرح سے لکھا کہ پڑھتے ہوئے کہیں بھی گمان نہیں ہوتا کہ یہ طبع زاد نہیں ہے۔ اس طرح دیکھیں تو ادب میں دوسری تہذیبوں کا سفر اس طرح بھی جاری رہتا ہے۔لیکن ہم تنقید کے نام پر کسی کو ذلیل کرنے میں اتنا نیچے گر جاتے ہیں کہ اس کو چورتک کہہ دیتے ہیں۔

گمان تو یہ بھی ہے کہ اقبال نے یہ نظم دیکھی ہی نہ ہو، میں ایسا اس لئےکہہ رہا ہوں کہ انہوں نے 1902 میں اپنے مضمون ‘بچوں کی تعلیم و تربیت’میں لکھا کہ ؛ ‘ان کا سب سے پہلا فرض یہ ہے کہ اس کا (بچوں کا)وجود زینت کا باعث ہواور جیسا کہ ایک یونانی شاعر کہتا ہے-‘اس کے ہرایک کام میں ایک طرح کی روشنی ہوجس کی کرنیں اوروں پر پڑ‌کر ان کو دیانت داری اور صلح کاری کے ساتھ زندگی بسرکرنے کا سبق دیویں۔’اس پورے مضمون میں’بچے کی دعا ‘ کا ایک سیاق و سباق موجود ہے اور یہ احساس ہوتا ہے کہ اقبال تک MatildaBetham کی نظم کسی یونانی شاعر کے ذریعے پہنچی ہوگی۔لیکن ہر حال میں اس نظم کی تخلیقیت اقبال کی اپنی ہے۔ یہاں ان باتوں کو درج کرنے کی ضرورت نہیں تھی لیکن اقبال کو اکثر بہانے سےدرکنار کرنے کی کوشش کی گئی ہے، اس لئے یہ باتیں مجھے ضروری لگیں کہ ان سے عدم اتفاق کے ادبی اور سیاسی تناظر بہت ہیں۔ میں خود اقبال سے کئی جگہوں پر بہت متفق نہیں ہوں لیکن میں اس بنیاد پر ان کو رد کر دینے یا ان کو چور کہہ دینے کے حق میں بھی نہیں ہوں۔ پاکستان کے بننے میں بھی اقبال کے کردار پر بھی بہت بات کی جا سکتی ہے لیکن ان کی نظموں میں موجود ہندوستانیت پر بھی تو بات ممکن ہے۔

گاندھی نہرو اور اقبال

کہتے ہیں اقبال پاکستان کے حامی تھے، اسلامی شاعر تھے اور ایسی بہت سی سچی-جھوٹی باتیں ہیں، جس کی بنیاد پر ان سے نفرت اور محبت کی جا سکتی ہے۔ شاید اس لیے گاندھی جی نے بھی ان سے محبت کی تھی۔ گاندھی جی کے خیال میں،

‘کون ایساہندوستانی دل ہے جو اقبال کا ہندوستان ہمارا سن‌کر دھڑکنے نہیں لگتا، اگر کوئی ایسا دل ہے تو میں اس کو اس کی بد نصیبی سمجھوں‌گا۔ ‘

پھر اقبال کی موت پر گاندھی جی نے اپنے ایک اردو خط میں یہ بھی لکھا کہ-

‘جب ان کی مشہور نظم ہندوستان ہمارا پڑھی تو میرا دل بھر آیا اور جیل میں تو سینکڑوں بار میں نے اس نظم کو گایا ہوگا۔ ‘

بات یہیں ختم نہیں ہوتی کہ آزادی کے صرف ایک ہفتے بعد 21 اگست 1947 کوگاندھی جی نوواکھالی(موجودہ بنگلہ دیش)میں تھے جہاں ایک گاؤں میں ہندوستان اورپاکستان کے پرچم ایک ساتھ لہرا رہے تھے۔ وہاں گاندھی جی نے اپنی پرارتھنا سبھا میں اقبال کا یہ شعر پڑھا-مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا… اس کے بعد دعا کی کہ اپنے مسائل کو حل کرنے کے لئے ہندوستان اور پاکستان کبھی تلوار نہ اٹھائیں۔ ایک وقت ایسا بھی تھا جب گاندھی جی نے اقبال کو جامعہ ملیہ اسلامیہ کی ذمہ داری سونپنے کی کوشش تھی، حالانکہ اقبال نے منع کر دیا تھا۔ ان سب باتوں کی سیاسی توجیہات بھی موجود ہے لیکن سمجھنے والی بات یہ ہے کہ اس ملک نے وہ زمانہ بھی دیکھا ہے جہاں ایک دوسرے سے متفق نہیں ہونے کے باوجود بھی انسان ،انسان ہی تھے۔ اب تو ہمارے پاس نفرت کرنے کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ اقبال، پاکستان اور اردو تین خطرناک چیزیں ایک ساتھ…

 اب وقت آ گیا ہے کہ وزیر اعظم کے نقشِ قدم  پر چلتے ہوئے نہرو کے رول  پربھی بات کر لی جائے تو میرے پاس پہلا حوالہ یہ ہے کہ ‘ڈسکوری آف انڈیا’ میں جواہرلال نہرو نے اقبال کے بارے میں اپنے خیالات  کا اظہار کیا ہے اور بتایا ہے کہ ‘اقبال آخری وقت میں سوشلزم کے بہت قریب ہو گئے تھے۔ ‘اور پاکستان کے حامی ہونےکے بعد بھی پاکستان بننے کے خطرہ سے واقف ہو گئے تھے۔ حالانکہ کچھ لوگ اس کو نہروکی بدنیتی والی رائے بھی بتاتے ہیں۔ خیر نہرو نے اقبال کی موت سے پہلے ان سے ایک لمبی ملاقات کی تھی، جہاں بہت سی باتیں ہوئی تھیں اور اسی موقع پر اقبال کا کہا یہ فقرہ بہت مشہور ہوا تھا کہ

‘جواہرلال آپ محبِ وطن ہیں اور جناح سیاست داں۔

‘ہاں، اقبال اور نہرو کے اپنے نظریاتی اختلاف تھے اس کے باوجود دونوں ایک دوسرے کا احترام  کرتے تھے۔ شاید اس لئے اقبال کی موت پر نہرو نے ہندوستان کی آزادی کی جدو جہد کے تئیں ان کے جذبہ کو یاد کیا تھا اور کہا تھا کہ ہندوستان نےایک درخشاں  ستارہ کھو دیا لیکن ان کی نظمیں آنے والی نسل کے ذہن  میں ان کی یادوں کو تازہ رکھے‌گی اور ان کو انسپائر‌کرےگی۔

عجیب بات ہے کہ آج نہرو کے کہے کو ثبوت کی ضرورت نہیں ہے لیکن آج اقبال کی دعا کو مدرسے کی دعا کہہ‌کر محدود کیا جا رہا ہے تو یہ بھی سمجھایا جا رہا ہے کہ مدرسوں میں راشٹرواد کا سبق نہیں پڑھایا جاتا، حب الوطنی  نہیں سکھائی جاتی۔ رام کو امامِ ہند کہنے والے اقبال نے کیا نہیں لکھا یہاں تک کہ رگ وید کے گائتری منتر تک سے استفادہ کیا۔ لیکن سب سے بڑی بات تو یہی ہے کہ وہ پاکستان کا حامی تھا۔ گویا بات دعا کی تھی ہی نہیں، نفرت کی تھی جانبداری کی تھی جو اقتدار کے تحفظ میں پھل پھول رہی ہے۔ جی زبان و ادب یا کوئی بھی ایسی چیز جو ان دو ملکوں کو جوڑ سکتی ہے اس پرحملہ تیز ہو گیا ہے اتفاق سے ہندوستان میں ایسی تمام چیزیں  کسی نہ کسی طور پرمسلمانوں سے جوڑ دی گئی ہیں اس لئے مسلمان اس حملے کی زد میں ہے۔ اس کے باوجودپیلی بھیت کے بچوں کو سلام کرنے کو جی چاہتا ہے، جو نہ صرف اقبال کی دعا پڑھتےہیں بلکہ ان کو اس میں ‘ایکتا’ کا سبق بھی نظر آتا ہے۔