فکر و نظر

جموں و کشمیر سے اردو کو ہٹانے کا کیا اثر ہوگا؟

کشمیری لسانی منظرنامے سے اردو کو ہٹانے سے اردو بولنے والوں اور دیگرزبان کے بولنے والوں میں شورِش پیدا ہونے کا خدشہ ہے ، جبکہ کشمیری پہلے ہی بہت چوٹ کے شکار بن چکےہیں۔ کیایہ  ایک مناسب وقت ہے کہ کسی زبان کی بحث کے ذریعے ان زخموں پر ابلتے ہوئے تیل کو پھینک دیا جائے،  جس کے خطرات ابھی  پوری طرح ماپے نہیں گئے ہیں؟

فوٹو: پی ٹی آئی

فوٹو: پی ٹی آئی

ایک جنگ دوسری جنگ کو چھپا سکتی ہے۔ایسا کشمیر کے ہندوستانی حصے میں ہو رہا ہے۔اس خطے میں غیرمعمولی کرفیوکےساتھ انٹرنیٹ کی سروسز مکمل بند ہوئےتقریباً تین مہینے گزر چکے ہیں۔ٹیلی فون خدمات ابھی حال ہی میں بحال ہوئے ہیں۔ اسکول ابھی بھی بند ہیں۔5 اگست،  2019 کو ہندوستانی حکومت نے آرٹیکل 370 اور 35- اے کو منسوخ کردیا اور ہندوستانی کشمیر اپنی خودمختاری کھو بیٹھا۔

حکومت کے اس فیصلے کے بعدایک بار پھرکشمیر میں اردو کےسرکاری زبان ہونے کے بارے میں سوال کیاجارہا ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی)کو اقتدارمیں آئےہوئےاب پانچ سال سے زیادہ عرصہ ہوگیاہے۔اگر اب تک مرکزی حکومت کے ذریعہ اردو کو نشانہ نہیں بنایا گیا ہے تو    اب کشمیر میں قسمت آزمائی کی   جاسکتی ہے۔حالانکہ ڈوگرہ کی ہندو ریاست کے دوران1889 سے یہ سرکاری زبان رہی ہے۔

اردوجموں و کشمیرمیں بولی جانے والی30یا اس سے زیادہ کسی بھی زبان سے مماثلت نہیں رکھتی ہے ۔لیکن صرف 0.13 فی صد(مردم شماری انڈیا 2011)مقامی افراد کے بولنے والوں کی تعدادکےساتھ اردو نے آسانی سے اپنی جگہ  بنا لی۔ درحقیقت  ،یہ’ باہری زبان’ ہونے کی وجہ سے ہی   جموں و کشمیر اور لداخ میں  اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہوئی۔ فارسی 14 ویں صدی سے اس خطے میں موجود تھی اور 1845 میں انگریزوں کی آمد تک یہ سرکاری زبان کے طور پر رہی۔اس کی موجودگی سے لداخ سمیت پورے جموں و کشمیر میں اردو کی نشوونما اور ترقی میں آسانی ہوئی۔

خود ہندوستانی ہونےکےناطے، میں نے  بچپن میں یہ بھی نہیں سمجھا تھا کہ اردو اس خطے کی سرکاری زبان کیسے بن سکتی ہے ، جہاں کشمیری  زبان  65 لاکھ افراد بولتے ہیں ، اور  اس کے بعد ڈوگری ، جس کی تعداد 25 لاکھ ہے (مردم شماری انڈیا 2011)۔اس کا جواب بہت آسان ہے اگر ان دو مقامی زبانوں کو سرکاری زبان تسلیم کیا جاتا تو ، دیگر لسانی جماعتوں کے بولنے والوں کو دھوکہ دہی اور خارج ہونے کا احساس ہوتا۔اس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ 322 ملین سے زیادہ بولنے والوں (مردم شماری انڈیا 2011) کے ساتھ ہندی کو اب تک ہندوستان میں قومی زبان کے طور پر کیوں قبول نہیں کیا گیا ہے۔

کشمیر کے پورے خطے میں اردو کو ایک مشترکہ زبان  سمجھا جاتا ہے۔یہ کشمیر اور ہندوستانی انتظامیہ کے مابین بھی ایک لنک زبان کے طور پر کام کرتا ہے۔یہ نہ صرف پاکستانی انتظامیہ کے ساتھ بلکہ عسکریت پسندوں کے کیمپوں میں تربیت یافتہ نوجوانوں کے ساتھ بھی ، جن کی زبان بنیادی طور پر اردو ہے ، سرحد کے دوسری طرف ایک لنک  زبان کے طور پر کام کرتی ہے۔یہ اپنےمختلف شکلوں میں بولی جاتی ہے، نہ صرف مسلمان بلکہ اعلیٰ ذات  کے ہندوؤں کے علاوہ سکھوں ، عیسائیوں ، بودھوں اور دیگر مذہبی اور نسلی گروہوں کے ذریعہ بھی۔

کشمیر میں گوجری کے نامور اسکالر جاوید راہی نے اپنی کتاب’جموں و کشمیر کے قبائلی گروہوں اور ان کی زبانیں'(2015) میں ذکر کیا ہے کہ ‘کشمیر اور لداخ  کے بہت سارےثقافتی گروہوں ، جیسے گوجر ، بلتی ، درد ، بیدا، مون ، گارا ، اورچانگپا، اپنی زبانوں کولکھنے کے لئے اردو کا   ہی فارسی وعربی رسم الخط کا استعمال کرتےہیں۔اردو کے بہت سارے الفاظ کوان زبانوں نے مستعار لئے ہیں اور ساتھ ہی میں اپنی مقامی ثقافتوں کو محفوظ رکھتے ہیں۔

وادی کشمیر میں اردو کو مسلمانوں اور ہندوؤں کےمابین وقار کا درجہ حاصل ہے۔ مسلم والدین چاہتے ہیں کہ ان کے بچے اپنی مادری زبان کشمیری کی ترجیح میں اردو بولیں۔ 1990 کے بعد پیدا ہونے والی نسل تعلیم اور ملازمت دونوں کے لحاظ سے ہندوستان میں وابستگی کو آسان بنانے کے لئے اردو میں گفتگو کرنا پسند کرتی ہے۔

بی جے پی کے حامیوں نے حال ہی میں دعوی کیا ہے کہ اردو کو اب اس خطے کی سرکاری زبان نہیں بنانا چاہئے۔ اس کے علاوہ ، وہ چاہتے ہیں کہ کشمیری زبان  سےفارسی-عربی حرف تہجی چھین لیاجائےجس کااستعمال اردو کےلئےکیاجاتا ہے۔ وہ شاردہ رسم الخط کو دوبارہ زندہ کرنا چاہتے ہیں ،  جس کا استعمال قدیم مذہبی تحریر میں آٹھویں صدی میں ہواتھا۔

یہ بھی پڑھیں : آرٹیکل 370 کے بعد کشمیری زبان اور اس کے رسم الخط پر حملہ کیوں؟

کشمیری زبان کا قدیم نام کاشُر تھا۔ ڈبلیو آر لارنس اپنی کتاب ‘دی ویلی آف کشمیر'(1895) میں لکھتے ہیں کہ کاشُرالفاظ کثیرالجہتی ہیں۔ ‘ہر سو الفاظ کےلئے ، 25 سنسکرت ، 40 فارسی ، 15 ہندوستانی اور 10 عربی ہوں گے۔ باقی 10 تبتی ، ترکی ، ڈوگری اور پنجابی ہوں گے۔’ یہاں یہ نوٹ کرنا ضروری ہے کہ انیسویں صدی میں انگریزوں کے ذریعہ اردو کو ہندوستانی کہا جاتا تھا۔

تاہم کشمیری زبان کو ،  کشمیری مسلمان اور کشمیری ہندو،  مختلف سمجھتے ہیں۔ میڈیا میں مسلم کشمیریوں کی غلط شبیہ دکھائی جاتی ہے اور ان کی روزمرہ کی زندگی ہندوستان میں مشکل ترین ہوتی جارہی ہے۔ مسلم کشمیریوں کے لئے مسئلہ، کشمیری زبان نہیں ہے۔ بلکہ مسئلہ ان کا مذہب ، اسلام ہے جوہندوستان کا حریف اوردشمن ملک پاکستان کا مذہب  ہے۔ نئی دہلی میں کشمیری نژاد نوجوان طالب علم کا کہنا ہے کہ’ کشمیری زبان میرےلئے ذلت آمیزبن چکی ہے۔’ راجستھان میں نوکری کی تلاش میں ایک اور نوجوان کشمیری کا کہنا ہے کہ ،’اردو کے ساتھ ، وہ ہندوستانی نظام میں ضم کی رضامندی ظاہر کرسکتے ہیں۔’ہندی میں کشمیر ی کے بھاری لہجے کی وجہ سے اسےپندرہ دنوں کے اندر ہی پہلی ملازمت سےہاتھ دھونا پڑا۔

1989 میں دہشت گردیاورمسلمان اشتعال انگیز عسکریت پسندتحریک آزادی کے دباؤ پر  ہندو کشمیری اپنے وطن چھوڑ کر چلے گئے مگردوسری طرف ، وہ نہایت فخر کے ساتھ کشمیری زبان پر دعویٰ کرسکتے ہیں۔ اور ہندوستان سے ان کی وفاداری پر شک نہیں کیا جاسکتا۔

کشمیر میں زبان کا مسئلہ حل کرنے کےلئےشاید یہ بہتر موقع ہے ۔ چار ستمبر ، 2019 کو انڈین ایکسپریس کے کے ذریعہ رپورٹ کیے جانے والے ایک اعلیٰ عہدے دار ہندوستانی افسر کے تبصرے پر غور کیاجائےتو  شاید اسی کی توقع کی جاسکتی ہے۔انہوں نے خصوصی طور پر زور دے کر کہا کہ ‘ہندی قومی زبان ہے ، لہذا یہ مرکزی حکمرانی علاقہ جموں و کشمیرمیں سرکاری زبان ہوگی۔ اردو کو بھی اس کی مناسب جگہ دی جائے گی۔’  اگرچہ ہندوستان میں کوئی قومی زبان نہیں ہے ، ہندیانڈین یونین کی سرکاری زبان ہے ، لیکن اس تبصرہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ اردو ہندی کے حق میں کشمیر میں اپنی سرکاری حیثیت کھو سکتی ہے۔

خطے کو ہلا دینے والے بڑے جغرافیائی سیاسی بحران کے مقابلہ میں زبان کا یہ تنازع  اہم نہیں ہے۔ تاہم ، ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ ہندوستان اپنی آزادی کے بعد سے ہی لسانی تنازعات کا گہوارہ رہا ہے۔ کئی ریاستیں لسانی بنیادوں پر تشکیل دی گئیں ہیں۔ زبان سے وابستہ فسادات اور اموات بار بار ہوتی رہی ہیں۔

کشمیری لسانی منظرنامے سے اردو کو ہٹانے سے اردو بولنے والوں اور دیگرزبان کے بولنے والوں میں شورِش پیدا ہونے کا خدشہ ہے ، جبکہ کشمیری پہلے ہی بہت چوٹ کے شکار بن چکےہیں۔ کیایہ  ایک مناسب وقت ہے کہ کسی زبان کی بحث کے ذریعے ان زخموں پر ابلتے ہوئے تیل کو پھینک دیا جائے،  جس کے خطرات ابھی  پوری طرح ماپے نہیں گئے ہیں؟

(مضمون نگار انالکو ،پیرس میں شعبہ  جنوبی ایشیا اور ہمالیہ ڈپارٹمنٹ کےco-director ہیں۔)