خبریں

دہلی کے 14 شیلٹر ہوم  میں خواتین اور لڑکیوں کے استحصال کے معاملے سامنے آئے

ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف سوشل سائنس کی رپورٹ کے مطابق دہلی کے 14 شیلٹر ہوم  میں رہنے والی لڑکیوں کو سزا کے طور پر ان کی شرمگاہوں میں مرچی ڈالنے، جسم پر کھولتا پانی پھینکنے اور کھانا نہ دینے جیسے کئی سنگین معاملے سامنے ہیں۔

علامتی تصویر: رائٹرس

علامتی تصویر: رائٹرس

نئی دہلی: بہار کے مظفرپور بالیکا  گریہہ میں لڑکیوں کے ساتھ جنسی استحصال کا معاملہ سامنے آنے کے بعد اب دہلی کے کچھ شیلٹر ہوم میں بھی خواتین اور بچیوں کے ساتھ جنسی استحصال اور جبر واستبداد  کی بات سامنے آئی ہے۔ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف سوشل سائنس نے دہلی  میں خواتین اور بچیوں کے لئے چلنے والے شیلٹر ہوم کی آڈٹ رپورٹ تیار کی ہے۔

انڈین ایکسپریس کے مطابق، دہلی  وومین کمیشن اور حکومت کی ہدایت پر ٹس نے یہ آڈٹ 14 شیلٹر ہوم  میں کیا تھا۔ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ نے اپنے 143 پیج کی رپورٹ میں بتایا ہے کہ شیلٹر ہوم میں سزا کی آڑ میں بچیوں کا جنسی استحصال ہو رہا ہے۔ سب سے زیادہ جنسی استحصال اورزیادتی کے معاملے ان شیلٹر ہوم میں سامنے آئے ہیں جن کو کوئی فردیا این جی او چلاتے ہیں۔رپورٹ کے مطابق شیلٹر ہوم  میں رہنے والی لڑکیوں کے پرائیویٹ پارٹ میں مرچی ڈالنے، جسم میں کھولتا پانی ڈالنے، کھانا نہ دینے جیسے کئی سنگین معاملے سامنے آئے ہیں۔ ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ نے آڈٹ رپورٹ دہلی حکومت کو سونپ دیا ہے۔

دہلی  وومین  کمیشن کے ذریعے رپورٹ کرنے کے بعد منگل کو وزیراعلیٰ اروند کیجریوال کی صدارت میں ہوئی میٹنگ میں اس پر بات ہوئی۔ حکومت نے اس پر شدیدتشویش کا اظہار کیا ہے۔دہلی حکومت کے ایک افسر نے کہا کہ پولیس میں شکایتوں کو درج کرانے سمیت بد سلوکی کے سنگین معاملوں پر فوری کارروائی کی جائے‌گی۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جنوبی-مغربی دہلی کے ایک شیلٹر ہوم میں جہاں بےسہارا اور انسانی اسمگلنگ کا شکار ہوئی18 سال سے زیادہ عمر کی خواتین کو رکھا جاتا ہے، وہاں ایک متاثرہ نے بتایا کہ ایک بار کپڑے اترواکر اس کے پرائیویٹ پارٹ میں مرچی ڈالی گئی۔ وہیں، ایک دیگر متاثرہ نے بتایا کہ اس کے جسم میں کھولتا پانی ڈالا گیا۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اسٹاف نے مبینہ طور پر ڈائننگ ہال میں سبھی کے سامنے یہ سب کیا۔جنوب مغربی دہلی کے ایک شیلٹر ہوم میں رہ رہی ایک لڑکی نے بتایا کہ بیڈ پر پیشاب کرنے کی وجہ سے اس کو بھی ایسی ہی سزا دی گئی تھی۔ ساتھ ہی لڑکیوں کو سزاؤں کے بارے میں بتاکر ڈرایا جاتا ہے۔

اس کے علاوہ شیلٹر ہوم میں رہنے والی لڑکیوں کو سہولیات کے فقدان میں گروپ میں نہانے جیسے ظلم کو جھیلنا پڑتا ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شمال مشرقی دہلی میں بچوں کے لئے شیلٹر ہوم میں 60 سے زیادہ لڑکیوں کے نہانے کے لئے صرف دو بالٹیاں ہیں۔ کئی بار لڑکیوں کو کھلے میں نہانے کے لئے مجبور ہونا پڑتا ہے۔

اس کے علاوہ شیلٹر ہوم کے کمروں کی کھڑکیاں ٹوٹی ہوئی تھیں۔ زیادہ سردی  کی صورت میں کافی تعداد میں کمبل بھی نہیں ملتی، چارپائی اور گدوں کی کمی کی وجہ سے لڑکیوں کو بستر شیئر کرنا پڑتا ہے۔اس پر سوال پوچھنے پر شیلٹر ہوم کے اسٹاف کے ایک ممبر نے اس کو صحیح ٹھہرانے کی کوشش کی اور کہا کہ لڑکیوں کو ایسا ہی پسند ہے کیونکہ اس سے ان کو سردی میں گرمی ملتی ہے۔

رپورٹ کے مطابق، شمال-مغربی دہلی میں ذہنی طور پر معذور خواتین کے لئے شیلٹر ہوم میں رہ رہیں خواتین کے ساتھ بات نہ ماننے پر سزا کے طور پر مارپیٹ کرنے، ان کو کمرے میں بند رکھنے اور کھانا نہیں دینے کی بات سامنے آئی ہے۔ ساتھ ہی متاثرین کو علاج اور کاؤنسلنگ کی سہولت بھی نہیں مل رہی ہے۔واضح ہو کہ ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف سوشل سائنس کے ذریعے کئے گئے ایک سماجی آڈٹ کے بعد بہار کے مظفرپور بالیکا گریہہ میں سالوں سے چلے آ رہے جنسی استحصال کا انکشاف ہوا تھا۔

بہار کے مظفرپور شہر میں واقع ایک بالیکا گریہہ میں رہ رہیں 42 لڑکیوں میں سے 34 کے ساتھ ریپ  ہونے کی تصدیق ہوئی تھی۔ ریپ کی شکار ہوئی لڑکیوں میں سے کچھ 7 سے 13 سال کے درمیان کی ہیں۔