خبریں

کشمیر: گزشتہ 3 مہینے میں 10 ہزار کروڑ روپے کے کاروبار کا نقصان

کشمیر چیمبرآف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر شیخ عاشق نے بتایا کہ ریاست میں لگی پابندیوں کی وجہ سے کل نقصان کا اندازہ لگانا مشکل ہے کیونکہ حالات ابھی تک معمول پر نہیں آپائے ہیں۔ کاروباری کمیونٹی کو سنگین جھٹکا لگا ہے اور ان کا اس سے باہر نکل پانا مشکل لگتا ہے۔

فوٹو: رائٹرس

فوٹو: رائٹرس

نئی دہلی: جموں و کشمیر کو خصوصی ریاست کا درجہ دینے والے آرٹیکل 370 کو رد کر دیے جانے کے بعد سکیورٹی وجوہات سے لگائی گئی مختلف پابندیوں کی وجہ سے گزشتہ 3 ماہ کے دوران کشمیر  وادی  میں کاروباریوں کو 10000کروڑ روپے سے زیادہ کا نقصان ہونے کا اندازہ ہے۔ کشمیر چیمبرآف کامرس اینڈ انڈسٹری نے یہ دعویٰ کیا ہے۔ اس کے صدر شیخ عاشق کا کہنا ہے کہ جب تک وادی کے حالات معمول پر نہیں آ جاتے ہیں، تب تک کتنا نقصان ہوا ہے اس کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔

مرکزی حکومت نے 5 اگست 2019 کو جموں و کشمیر میں نافذ آرٹیکل 370 کے زیادہ تر اہتماموں کو رد کر دیا تھا۔ اس کے بعد سکیورٹی وجوہات سے ریاست میں کئی طرح کی پابندیاں لگائی گئی۔ اتوار کو ان پابندیوں کو نافذ ہوئے 84 دن ہو گئے ۔ ان پابندیوں کی وجہ سے مین مارکیٹ زیادہ تر وقت بند رہے اور پبلک ٹرانسپورٹ بھی سڑکوں سے ندارد رہے۔

شیخ عاشق کے مطابق،شہر کے لال چوک علاقے میں کچھ دکانیں صبح کے وقت اور شام کو اندھیرا ہوتے وقت کھلتی ہیں لیکن مین مارکیٹ بند ہے۔انھوں نے کہا کہ کتنا نقصان ہوا ہے اس کا اندازہ ابھی لگانا مشکل ہےکیونکہ حالات ابھی تک معمول پر نہیں آ پائے ہیں۔ اس دوران کاروباری کمیونٹی کو سنگین جھٹکا لگا ہے اور اس کا اس سے باہر نکل پانا مشکل لگتا ہے۔

عاشق نے بتایا،’کشمیر میں اب تک کل کاروباری نقصان 10000کروڑ روپے کے اعداد و شمار کو پار کر چکا ہے اور سبھی شعبوں کو کافی نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔ تقریباً 3 مہینے ہونے کو ہیں اور موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے لوگ ابھی بھی کاروبار نہیں کر رہے ہیں۔ حال کے ہفتوں میں کچھ بازار کھلے اور کاروبار شروع کیا گیا لیکن ہمارے پاس دستیاب اطلاعات کے مطابق کام کاج کافی سست رہا۔’

انھوں نے کاروباری نقصان کے لیے انٹرنیٹ سروس کا بند ہونا اہم وجہ بتائی۔انھوں نے کہا،’آج کے وقت میں کسی بھی کاروبار کے لیے انٹرنیٹ سروس کا ہونا ضروری ہے اس کے بنا کام کرنامشکل ہے۔ ہم نے اس بارے میں گورنر انتظامیہ کو بتادیا ہے ۔انھیں بتا دیا گیا ہے کہ کشمیر میں کام دھندےکو نقصان ہوگا اور اکانومی کمزور پڑ جائے گی۔ آنے والے وقت میں اس کا سنگین اثر پڑ سکتا ہے۔’

عاشق نے کہا ،’اگر ہم ہینڈی کرافٹ شعبہ کی بات کریں تو اس سے جڑے لوگوں کو جولائی اگست مہینے میں آرڈر ملتے ہیں اور پھر ان کو کرسمس تہوار یعنی نئے سال کے آس پاس یہ آرڈر پورے کرنے ہوتے ہیں۔ یہ دستکار کب اپنے آرڈر پورے کر پائیں گے؟ یہ کام تبھی ہو پائے گا جب ان کو کنکٹیوٹی ملے گی۔ اس کی غیر موجودگی میں 50 ہزار کے قریب بنکر اور دستکاروں کو روزگار کا نقصان ہوا ہے۔’

کشمیر چیمبرآف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر نے کہا کہ حکومت کو اس پورے نقصان کی ذمہ داری لینی چاہیے اور کاروباریوں اور کاریگروں کے نقصان کی بھرپائی کرنے کے لیے قدم اٹھانے چاہیے۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)