خبریں

عراق میں حکومت مخالف مظاہروں کے بیچ چار رکن پارلیامان نے دیا استعفیٰ

عراق میں بدعنوانی اور بے روزگاری کی  مخالفت میں گزشتہ ایک اکتوبر سے حکومت مخالف مظاہرہ  چل رہا ہے۔ اکتوبر میں مظاہرہ کے دوران اب تک تقریباً231 لوگوں کی موت ہو چکی ہے۔

فوٹو: رائٹرس

فوٹو: رائٹرس

نئی دہلی : عراق میں حکومت مخالف مظاہروں کو روکنے میں حکومت  کے ناکام رہنے اور مظاہرین کی آواز دبانے کے لیے کیے گئے اقدام کے مخالفت میں چار رکن پارلیامان  نے اپنے عہدے  سے استعفیٰ  دے دیا ہے۔چار ایم پی  کے استعفیٰ  نے پہلے سے ہی مشکلوں میں گھرے وزیر اعظم  عدیل عبدیل مہدی پر دباؤ بڑھا دیا ہے۔اس مہینے کے شروعات میں یہاں اقتدار کے خلاف مظاہرے  شروع ہوئے تھے۔مظاہرین کو قابو میں کرنے کے لیے گولیاں چلائیں گئیں، آنسو گیس کے گولے چھوڑے گئے اورکئی طرح  کی کارروائیاں کی گئیں جن میں 200 سے زیادہ  لوگوں کی موت ہو چکی ہے۔

الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق، اکتوبر میں تقریباً 231 لوگوں کی موت مظاہرے کے دوران ہو چکی ہے۔ گزشتہ 25 اور 26 اکتوبر کو فوج  اور ملیشیا گروپ  کے ساتھ مظاہرین  کی مڈ بھیڑ میں کم سے کم 74 عراقی مارے گئے۔کمیونسٹ پارٹی کے دوایم پی رئید فہمی اور حائفہ الامین نے ایک بیان جاری کرکے کہا، ‘وہ پرامن  عوامی مہم کی حمایت  میں پارلیامنٹ چھوڑ رہے ہیں۔’فہمی نے خبررساں ایجنسی اے ایف پی  کو بتایا، ‘ہم مظاہرے  کی وجہ سے اور جس طرح  سے اس کو دبایا گیا اس کو دیکھتے ہوئے اپنے عہدے سے استعفیٰ  دے رہے ہیں۔’انہوں نے کہا، ‘27 دن میں پارلیامنٹ نے کچھ نہیں کیا۔ نہ تو وہ وزیر اعظم  کو ذمہ دار ٹھہرا سکی اور نہ ہی وزیر داخلہ  کو۔’

ان کے بیان میں سرکار کو استعفیٰ  دینے اور نئے ووٹنغ سسٹم  کے تحت وقت سے پہلے انتخاب  کرانے کی مانگ کی گئی۔ ان دو رکن پارلیامان  کے علاوہ طہٰ الدفاعی اور مجاہیم التمیمی نے بھی اتوار  کو اپنے عہدے  سے استعفیٰ  دے دیا۔غورطلب ہے کہ ایک اکتوبر سے ملک  میں مظاہرے کے بعد سے ہی 329 سیٹوں والی پارلیامنٹ  مشکلوں میں گھری ہوئی ہے اور کوئی حل نکالنے کے لیے کئی سیشن  بلائے گئے لیکن سبھی بے نتیجہ  رہے ہیں۔

واضح  ہو کہ عراق میں بدعنوانی اور بے روزگاری کے خلاف گزشتہ ایک اکتوبر سے عراقی نوجوان مظاہرہ کر رہے ہیں۔الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق، راجدھانی بغداد میں سرکارمخالف مظاہروں  میں طلبا شامل ہو گئے ہیں، کیونکہ راجدھانی کے وسط میں واقع  تحریر چوک پر ہزاروں لوگ بھوک ہڑتال کر رہے ہیں۔

تمام اسکولوں اوریونیورسٹی  کو بند کر دیا گیا ہے۔بتا دیں کہ عراق میں جاری بد امنی  نے دو سال کے استحکام کو توڑ کر رکھ دیا ہے، جس نے حال کے سالوں میں امریکہ کے حملے  اور آئی ایس آئی ایس کے ساتھ لمبی لڑائی جھیلی ہے۔الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق، پچھلے سال گرمیوں میں بصرہ شہر کے جنوبی علاقے میں اسی طرح کے مظاہروں  نے سابق وزیر اعظم  حیدرالعابدی کی  دوسری مدت کار  کے امکانات کو ختم کر دیا تھا۔ ان کی جگہ عدیل عبدیل مہدی نے حکومت سنبھالی تھی۔ اگلے مہینے وزیر اعظم  کے طور پر وہ ایک سال کی مدت کار  مکمل  کر لیں گے۔

ان مظاہروں نے اب تک کا سب سے بڑا چیلنج وزیر اعظم  عدیل عبدیل مہدی کی سرکار کو دیا ہے، جنہوں نے مظاہرین  کی شکایتوں کو دیکھتے ہوئے اپنی کابینہ  میں پھیر بدل اور اصلاھی  پیکج جاری کرنے کی  یقین دہانی کروائی  ہے۔حالانکہ وزیر اعظم  کی یہ یقین دہانی مظاہرین  کو مطمئن  کرنے میں ناکافی  ثابت ہوا۔ دراصل  عوام  نہ صرف وزیر اعظم  مہدی کی انتظامیہ ، بلکہ عراق کے سیاسی اداروں  سے بھی ناراض ہیں۔

ان کے بارے میں مظاہرین  کا کہنا ہے کہ یہ لوگ ملک کے شہریوں  کی زندگی میں اصلاح لانے میں ناکام رہے ہیں۔رپورٹ میں ورلڈ بینک کے اعداد و شمار کے مطابق بتایا گیا  ہے کہ ورلڈ کے پانچواں سب سے بڑے تیل ذخیرہ والے ملک عراق کی چار کروڑ کی آبادی کی 60 فیصد عوام  روزانہ چھ ڈالر سے کم پر گزارہ  کرتی ہے۔

(خبررساں ایجنسی  بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)