خبریں

وہاٹس ایپ جاسوسی معاملہ: کون ہیں وہ سماجی کارکن اور وکیل، جن کے فون پر رکھی گئی تھی نظر

بھیما کورےگاؤں  معاملے میں گرفتار کئے گئے سماجی کارکنوں  کے وکیل نہال سنگھ راٹھوڑنے بتایا کہ پیگاسس سافٹ ویئر پر کام کرنے والی سٹیزن لیب کے محقق نے ان سے رابطہ  کرکے  ڈیجیٹل خطرےکو لے کروارننگ دی تھی۔ ہیومن رائٹس کارکن  بیلا بھاٹیہ اور ڈی پی چوہان نے بھی دعویٰ کیا ہے کہ ان کی جاسوسی کی گئی تھی۔

نہال سنگھ راٹھور،فوٹو دی وائر

نہال سنگھ راٹھور،فوٹو دی وائر

 نئی دہلی : دو سالوں میں ناگپور واقع  ہیومن رائٹس وکیل نہال سنگھ  راٹھوڑ کو وہاٹس ایپ پر انجان نمبروں سے فون آئے تھے۔ یہ کال انٹرنیشنل  نمبروں سے کئے گئے تھے۔ راٹھوڑ نے جیسے ہی ان کال کو اٹھایا ویسے ہی وہ کٹ گئے۔ انہیں لگا کہ یہ کال غلطی سے کئے گئے ہوں گے لیکن سکیورٹی کے مدنظرانہوں نے  تمام مشکوک  کال کی جانکاری وہاٹس ایپ کو دی۔7 اکتوبر، 2019 کو ٹورنٹو یونیورسٹی کی سٹیزن  لیب کے ایک سینئر محقق  نے ان سے رابطہ  کیا تھا اور بتایا تھا کہ وہ  خاص ڈیجیٹل خطرے کا سامنا کر رہے ہیں۔

راٹھوڑ نےدی  وائرکو بتایا، ‘سینئر محقق جان اسکاٹ رایلٹن نے مجھے بتایا کہ ان کے لیب نے میرے کام کو دیکھا اور اپنی تحقیق  کے دوران انہوں نے پایا کہ میرے اوپر نگرانی رکھی جا رہی تھی۔ اس کے بعد پچھلے دو سالوں سے مجھے آ رہے کال کی وجہ مجھے سمجھ میں آ گئی۔’

وہیں، اسکرال کی رپورٹ کے مطابق، چھتیس گڑھ  کی ہیومن رائٹس کارکن  بیلا بھاٹیہ اور ڈی پی چوہان نے بھی دعویٰ کیا ہے کہ ان کی بھی جاسوسی کی گئی تھی۔ 29 اکتوبر کو بھاٹیہ کو وہاٹس ایپ نے اس معاملے کے بارے میں مطلع کیا تھا۔ اس سے پہلے 7 اکتوبر کو بھاٹیہ کو سٹیزن  لیب نے بھی اس بارے میں جانکاری دی تھی۔

واضح ہو کہ سٹیزن لیب ان شروعاتی تنظیموں  میں سے ہے جس نے اسرائیلی نگرانی کمپنی این ایس ا و گروپ  کے پیگاسس اسپائیویئر کے بارے میں جانچ کی ہے۔

 2018 میں اس نے ایک رپورٹ شائع  کی تھی جس میں ہندوستان سمیت  45 ملکوں میں مشکوک این ایس او پیگاسس انفیکشن  ملے جو کہ36 پیگاسس آپریٹروں میں سے 33 سے جڑے تھے۔ این ایس او گروپ  اس ہفتے تب چرچہ  میں آیا جب وہاٹس ایپ نے اس کے خلاف ایک مقدمہ دائر کیا۔

 وہاٹس ایپ نے الزام لگایا کہ اسرائیلی این ایس او گروپ  نے پیگاسس سے تقریباً 1400 وہاٹس ایپ صارفین  کونشانا بنایا۔ اس کے لیے اس نے وہاٹس ایپ کے ویڈیو کالنگ فیچر میں کمی کا فائدہ اٹھایا۔

سٹیزن لیب کے محقق اور نہال سنگھ راٹھوڑ سے بات چیت ، فوٹو: دی وائر

سٹیزن لیب کے محقق اور نہال سنگھ راٹھوڑ سے بات چیت ، فوٹو: دی وائر

سٹیزن لیب کے محقق اور نہال سنگھ راٹھوڑ سے بات چیت ، فوٹو: دی وائر

سٹیزن لیب کے محقق اور نہال سنگھ راٹھوڑ سے بات چیت ، فوٹو: دی وائر

سٹیزن  لیب سے ملی جانکاری  کے بعد راٹھوڑ نے وہاٹس ایپ کو ایک بار پھر سے لکھا اور اس بار انہیں اسی میڈیم  سے جواب آیا۔

وہاٹس ایپ سے ملے پیغام  میں لکھا گیا، ‘مئی میں ہم نے ایک حملے کو روکا جہاں ایک انتہائی جدید سائبر اسپائیویئر نے صارفین  کےآلات  پر میل ویئر قائم  کرنے کے لیے ہمارے ویڈیو کالنگ سہولیات کا فائدہ اٹھایا۔ ایسا امکان  ہے کہ یہ فون نمبر پرمؤثر ہو سکتا ہے اور ہم یہ یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ آپ جانیں کہ اپنا فون کیسےمحفوظ  رکھنا ہے۔’

اس کے بعد وہاٹس ایپ نے انہیں ان کے فون کومحفوظ  رکھنے کے لیے سکیورٹی سے متعلق  کئی قدم بتائے۔ وہاٹس ایپ پیغام  میں خاص طور پر پیگاسس یااین ایس او گروپ کا ذکر نہیں کیا گیا تھا لیکن راٹھوڑ کا کہنا ہے کہ اس کا امکان بہت زیاہ ہے۔

دی  وائر الگ سے تصدیق  کرتا ہے کہ حقیقت  میں یہ وہ پیغام ہے جو وہاٹس ایپ نے ان لوگوں کو بھیجاجن لوگوں کو پیگاسس کے ذریعے  نشانا بنایا گیا۔

نہال سنگھ راٹھوڑ کو وہاٹس ایپ سے ملا پیغام ، فوٹو: دی وائر

نہال سنگھ راٹھوڑ کو وہاٹس ایپ سے ملا پیغام ، فوٹو: دی وائر

غور طلب ہے کہ، انڈین ایکسپریس نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ فیس بک کی ملکیت والے پلیٹ پلیٹ فارم وہاٹس ایپ نے ایک چونکانے والےانکشاف میں کہا ہے کہ ہندوستان میں عام انتخابات کے دوران صحافیوں اور حقوق انسانی کے کارکنوں  پر نگرانی کے لئے اسرائیل کے اسپائیویئر پیگاسس کا استعمال کیا گیا۔ یہ انکشاف سین فرانسسکو میں ایک امریکی یونین عدالت میں منگل کو دائر ایک مقدمہ کے بعد ہوا جس میں وہاٹس ایپ نے الزام لگایا کہ اسرائلی این ایس او گروپ نے پیگاسس سے تقریباً 1400 وہاٹس ایپ صارفین کو نشانہ بنایا۔

 حالانکہ، وہاٹس ایپ نے ہندوستان میں نگرانی کے لئے نشانہ بنائے گئے لوگوں کی پہچان اور ان کی صحیح تعداد کا انکشاف کرنے سے انکار کر دیا۔ وہیں، وہاٹس ایپ کےترجمان نے بتایا کہ وہاٹس ایپ کو نشانہ بنائے گئے لوگوں کی جانکاری تھی اس نے ان میں سے ہرایک سے رابطہ کیا تھا۔ وہاٹس ایپ کے ایک ترجمان نے کہا، ‘ ہندوستانی صحافیوں اورکارکنان کی نگرانی کی گئی حالانکہ، میں ان کی پہچان اور صحیح تعداد کا انکشاف  نہیں کر سکتا۔ میں کہہ سکتا ہوں کہ یہ ایک بہت ہی چھوٹی تعداد نہیں ہے۔ ‘

یہ پتہ چلا ہے کہ وہاٹس ایپ کے ذریعے ہندوستان میں کم سے کم دو درجن ماہرین تعلیم، وکلاء، دلت کارکنان اور صحافیوں سے رابطہ کیا گیا اور ان کو باخبر کیا گیاکہ مئی 2019 تک دو ہفتے کی مدت کے لئے ان کے فون انتہائی جدید سافٹ ویئر کی نگرانی میں تھے۔

بھیما کورے گاؤں پیٹرن

راٹھوڑ بھیما کورے گاؤں  معاملے کا کیس لڑنے والے وکیلوں میں سے ایک ہیں، جس میں جون 2018 سے اب تک نوکارکنوں  اور وکیلوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ ان کے سینئر قانونی نگراں  سریندر گاڈلنگ ان گرفتار لوگوں میں شامل ہیں اور ان پر غیرقانونی سرگرمی (روک تھام) ایکٹ (یو اے پی اے) اورآئی پی سی  کی کئی  دفعات کے تحت معاملہ درج کیا گیا تھا۔

راٹھوڑ کا کہنا ہے کہ ہیومن رائٹس کارکنوں  میں وہ اکیلے نہیں ہیں جس نے اس طرح کی کال کی شکایت کی ہے۔ بھیماکورے گاؤں  معاملے کی شنوائی سے جڑے کم سے کم دو اور وکیلوں اور گاڈلنگ کی بیوی مینل گاڈلنگ کو بھی اسی طرح کے کال آئے ہیں۔ان میں  سے ایک نے کال آنے اورممکنہ  خطرے کی اطلاع  دینے کے لیے سٹیزن  لیب سے کئی پیغامات  ملنے کی تصدیق  کی ہے۔ حالانکہ، انہیں وہاٹس ایپ سے کوئی ای میل یا پیغام  نہیں آیا۔

مہاراشٹر کے ایک اور کارکن نے دعویٰ کیا ہے کہ انہیں وہاٹس ایپ اور سٹیزن لیب دونوں سے اسی طرح کے پیغام  ملے ہیں، جس سے انہیں اپنے پروفائل پر ایک میل ویئر کے خطرے کے بارے میں جانکاری دی گئی  ہے۔اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کارکن تصدیق  کی ہے کہ اس مہینے کی شروعات میں ان سے رابطہ  کیا گیا تھا اور کہا گیا تھا کہ انہیں اپنے وہاٹس ایپ کو محفوظ  کرنے کے لیے اپنے فون پر حفاظتی تدابیر  کی پیروی  کرنے کے لیے کہا گیا تھا۔

یہ کارکن  بھی جنوری 2018 سے بھیما کورے گاؤں آندولن میں فعال ہیں۔

نہال سنگھ راٹھوڑ کو ملے مشکوک وہاٹس ایپ کال کی ایک مثال(فوٹو: دی وائر)

نہال سنگھ راٹھوڑ کو ملے مشکوک وہاٹس ایپ کال کی ایک مثال(فوٹو: دی وائر)

33 سالہ  روپالی جادھو کلچرل کارکن ہیں اورذات پات کے خلاف بولڈ رہی ہیں۔ انہوں نے بھی ان پیغام  کے اسکرین شاٹ شیئر کئے ہیں، جو انہیں وہاٹس ایپ اور سٹیزن لیب کی جانب  سے دو دن پہلے ملے ہیں۔ حالانکہ روپالی نے کہا کہ انہیں کسی نامعلوم  نمبر سے وہاٹس ایپ کال نہیں آیا تھا نہ ہی انہوں نے اپنے فون میں اس ایپ پر کوئی مشتبہ سرگرمی  ہی دیکھی۔جادھو ذات پات  کے خلاف  میں کھڑی ثقافتی تنظیم  کبیر کلا منچ سے جڑی ہیں اور ریاست  کی کئی سماجی  تحریکات کے سوشل میڈیا ہینڈل چلاتی ہیں۔ انہوں نے بتایا، ‘میں کبیر کلا منچ، بھیما کورےگاؤں شوریہ دن پریرنا ابھیان، ایلگار پریشد اور سیاسی پارٹی ونچت بہوجن اگھاڑی کے وہاٹس ایپ گروپ اور فیس بک پیج کی ایڈمن ہوں۔ یہ سبھی بولڈ ہوکر اقتدار کے خلاف بول رہے ہیں اور اس سے سوال کرتے رہے ہیں۔ اس سب (جاسوسی) کا خصوصی طور پر مجھ سے نہیں بلکہ تنظیموں  سے لینا دینا ہے۔’

کبیر کلا منچ سے جڑے کئی لوگوں کے خلاف یواے پی اے میں معاملے درج ہوئے ہیں اور سالوں جیل میں رہنے کے بعد انہیں ضمانت ملی۔رائےگڑھ، چھتیس گڑھ کے دلت حقوق کی کارکن  اور وکیل ڈگری پرساد چوہان نے بھی دی  وائر کو یہ بتایا کہ انہیں بھی وہاٹس ایپ پر کال آیا تھا اور وہاٹس ایپ اور سٹیزن  لیب کی طرف  سے اسپائی ویئر کے بارے میں پیغام بھی ملے ہیں۔دلت کمیونٹی  سے آنے والے 37 سالہ  چوہان اسکول میں پڑھاتے تھے اور رائےگڑھ ضلع کے حصول اراضی  معاملوں اور ذاتی کی بنیاد پرجبر واستبدادکے معاملوں کے خلاف بولتے رہے ہیں۔

دی  وائر سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ ان کے فون پر نظر رکھے جانے کو لے کر فکر مند تو ہیں پر انہیں ایسا ہونے کی حیرانی نہیں ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا، ‘ان معاملوں  کے بعد سے ہی ملک  میں دلت حقوق کو لے کر آندولن بڑھ رہا ہے۔ ہم میں سے کئی ذات پات مخالف  اورزمین کے حقوق  کی تحریکوں سے جڑے رہے ہیں اور اسے لے کر بڑے پیمانے پر سماجی  اور سیاسی تحریک  چلا رہے ہیں۔ واضح طور پر سرکار اس سے ڈری ہوئی ہے۔’انہوں نے وزیر اعظم  نریندر مودی کے حالیہ اسرائیلی دورے اور سپائی ویئر حملے کے بارے میں کہا، ‘جہاں تک میری جانکاری ہے، کسی بھی وزیر اعظم  نے اسرائیل کا ایسا دورہ نہیں کیا۔ ان حملوں کا اور گہرا لنک ہے۔ اس کی جانچ ہونی چاہیے۔’ہیومن رائٹس کارکن  بیلا بھاٹیہ نے بھی دی  وائر سے تصدیق  کی ہے کہ انہیں بھی سٹیزن  لیب سے وہی پیغام  ملا، جو ان کے محقق   نہال سنگھ  راٹھوڑ کو ملا تھا۔

انہوں نے کہا، ‘ہم نے ایک وقت میں  طے کیا تھا اور اس محقق  سے پیگاسس کے بارے میں میری لمبی بات چیت ہوئی۔ انہوں نے مجھے اسپائی ویئر کے بارے میں تفصیل  سے بتایا۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ کس طرح کچھ مہینوں پہلے وہاٹس ایپ نے سٹیزن  لیب سے رابطہ  کیا اور ان لوگوں کے ناموں کی فہرست انہیں دی، جو اس سے متاثر ہوئے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ ان لوگوں میں زیادہ ترہیومن رائٹس کارکن  اور وکیل تھے۔ جب وہ  مجھے یہ بتا رہے تھے انہوں نے واضح  طور پر کہا کہ ان کے مطالعہ  اورتجزیے سے یہ بہت صاف ہے کہ یہ ہماری اپنی سرکارکے ذریعے  ہی کروایا گیا ہے۔’

بیلا نے آگے کہا، ‘انہوں نے یہ صاف کہا تھا۔ اور جہاں تک اس جاسوسی کے طریقے کا سوال ہے، انہوں نے بتایا کہ یہ اپنی جیب میں جاسوس لےکر گھومنے جیسا ہے۔ یہاں تک کہ آپ جس کمرے میں بیٹھے ہیں، اس کے ذریعے وہ  جان سکتے ہیں کہ وہاں کیا ہو رہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اسپائی ویئر میری جانکاری کے بنا میرا کیمرا اور مائیکروفون ایکسس کر سکتا ہے۔ انہوں نے مجھے بچاؤ کے کچھ طریقے بتائے جیسے کہ فون بدلناوغیرہ ۔ وہ وقت وقت  پر مجھے کال کرتے اور ایسی ہی صلاح دیتے تھے۔ انہوں نے مجھے کہا کہ وہاٹس ایپ دو ہفتوں میں مجھ سے رابطہ  کرے گا اور اس نے کیا بھی۔ مجھے بھی وہی  کال اور پیغام  ملا جو باقیوں کو ملا ہے۔’

دی وائر تصدیق کرتا ہے کہ اس کارکن کو بھی وہاٹس ایپ سے یہی وارننگ ملی تھی۔ وہیں راٹھوڑ کا کہناہے کہ ان کو وہاٹس ایپ کے ذریعے بتائی گئی اس دو ہفتے کی مدت سے پہلے اور بعد میں یہ کال ریسیو ہوئی تھی۔ این ایس او گروپ کا دعویٰ ہے کہ پیگاسس صرف سرکاری ایجنسیوں کو بیچا گیا ہے۔ اس نے کہا،’ہم اپنے پروڈکٹ کو صرف لائسنس حاصل اور جائز سرکاری ایجنسیوں کو دیتے ہیں۔’

راٹھوڑ کا کہنا ہے کہ اپنی پروفائل پر حملے کو وہ زیادہ ہیومن رائٹس کارکن کا استحصال کرنے اور نشانہ بنانے کی سنگین کوشش کے طور پر دیکھتے ہیں۔انھوں نے کہا،’میرا وہاٹس ایپ پروفائل بے ترتیب طریقے سے نہیں بلکہ خاص طریقے سے چنا گیا تھا۔ ہیومن رائٹس کے ہم کچھ مٹھی بھر وکیل ہیں جو موجودہ دباؤ کا سامنا کر رہے ہیں اور ملک میں ہیومن رائٹس کارکنوں کو گرفتار کرنے کے لیے استعمال کی جانے والی مختلف مہموں کو اجاگر کرنے کے پروسیس میں ہیں۔’

انھوں نے دی وائر سے کہا ،’میرے پاس یہ یقین کرنے کی وجہ ہے کہ بھیما کورے گاؤں معاملہ ان خطوط پر مبنی ہے جن کو اسی طرح یا حکومت کی کسی دوسری ایجنسی کے ذریعے پلانٹ کیا گیا۔ ان خطوط کا مضحکہ خیز مواد اس تصور کو اور مضبوط کرتا ہے۔’

اس پورے معاملے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ایک بیان میں کہا،یہ نیشنل اور انٹر نیشنل دونوں قانون کے حساب سے کارکنوں کے پرائیویسی کو خفیہ رکھنے کے بنیادی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ ہیومن رائٹس تنظیموں نے این ایس او گروپ کے لائسنس کو ختم کیے جانے کی مانگ کی ہے۔

بیان میں کہا گیا ،’7 نومبر کو تل ابیب کا ضلع کورٹ ایک قانونی معاملے کی شنوائی کر نے جا رہا ہے، جس میں مانگ کی گئی ہے کہ اسرائیل کے وزارت دفاع کو این ایس او گروپ کے ایکسپورٹ لائسنس کو رد کرنا چاہیے۔کمپنی کے پیگاسس سافٹ ویئرکا استعمال دنیا بھر کے صحافیوں اور کارکنوں کو نشانہ بنانے کے لیے کیا گیا ہے-جس میں مورکو،سعودی عرب، میکسیکو اور یو اے ای شامل ہیں۔این ایس او میل ویئر کا استعمال کرتے ہوئے ایمنسٹی انٹرنیشنل اسٹاف کے ایک ممبر کو بھی نشانہ بنایا گیا۔’

دنیا بھر کے صحافیوں اور کارکنوں کے ذریعے سامنا کیے جا رہے خطرے پر جواب دیتے ہوئے ایمنسٹی کے ڈپٹی ڈائریکٹر ڈینا اگلیٹن نے کہا،’این ایس او کا کہنا ہے کہ ان کا اسپائی ویئر پوری طرح سے جرم اور دہشت گردی کو روکنے کے لیے ہیں،لیکن اس کے بجائے کمپنی کی نگرانی آلات کا استعمال حقوق انسانی کی خلاف ورزی کے لیے کیا جا رہا ہے۔ این ایس او کے اسپائی ویئر پروڈکٹ کا غلط استعمال کرنے کا منصوبہ بنا رہی حکومتوں تک ان کے پہنچنے سے روکنے کا سب سے محفوظ طریقہ یہ ہے کہ کمپنی کے ایکسپورٹ لائسنس کو ختم کر دیا جائے۔’

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے تل ابیب ضلع عدالت میں چل رہے معاملے کی شنوائی کو اپنی قانونی حمایت دینے کا اعلان کیا ہے تاکہ اسرائیلی وزارت دفاع این ایس او کے اسپائی ویئر پروڈکٹس کو روکنے کے لیے مجبور ہو جائیں۔