خبریں

یونین ٹریٹری جموں و کشمیر بننے کے دوسرے دن بھی وادی بند، سرینگر کے کچھ حصوں میں پابندیاں

جموں و کشمیر سے خصوصی ریاست کا درجہ ہٹانے کے 89 ویں دن بھی بند جاری۔نیشنل کانفرنس نے جموں و کشمیر کو یونین ٹریٹری بنانے کے مرکزی حکومت کے قدم کو غیر آئینی قرار دیا۔ وادی میں کچھ لوگوں نے حکومت پر ان کا خصوصی درجہ اور پہچان چھیننے کا الزام لگایا۔

سرینگر میں تعینات سکیورٹی اہلکار (فوٹو : پی ٹی آئی)

سرینگر میں تعینات سکیورٹی اہلکار (فوٹو : پی ٹی آئی)

نئی دہلی: جموں و کشمیر ریاست کی تقسیم کے بعد گزشتہ جمعرات دو یونین ٹریٹری  وجود میں آ گئی۔ اس بیچ، کشمیر میں آج بند رہا اور وادی کے کچھ لوگوں نے حکومت پر ان کا خصوصی درجہ اور شناخت چھیننے کا الزام لگایا۔ نیشنل کانفرنس نے اس قدم کو غیر آئینی قرار دیا جبکہ بی جے پی نے فیصلے کا استقبال کرتے ہوئے کہا کہ اس سے جموں و کشمیر اور لداخ میں امن قائم ہوگا اور ترقی ہوگی۔

جمعہ کو سرینگر میں جمعہ کی نماز کے بعد پر تشدد مظاہروں کے خدشے کی وجہ سے اور لاء اینڈ آرڈر کو قائم رکھنے کے لیے جمعہ کو کچھ حصوں میں احتیاط کے طور پر پابندیاں لگا دی گئیں۔آئین کے آرٹیکل 370 کے زیادہ تر اہتماموں کو ختم کرنے کے بعد لگاتار 89 ویں دن بھی کشمیر میں عام زندگی متاثر رہی۔ پولیس کے ایک افسر نے بتایا،’لاء اینڈ آرڈر قائم رکھنے کے لیے پرانے شہر میں 5 پولیس تھانہ حلقوں اور سورا پولیس تھانہ حلقے کے کچھ حصوں میں پابندیاں لگائی گئیں۔’

افسر نے کہا کہ جموں و کشمیر کو دو یونین ٹریٹری میں تقسیم کرنے کے خلاف پر تشدد مظاہروں کا خدشہ تھاجس کی وجہ سے وادی میں حساس مقامات پر بھاری پولیس فورس کو تعینات کیا گیا۔انھوں نے بتایا کہ پوری وادی میں حالات فی الحال پر سکون ہیں۔ جنوبی کشمیر کے کلگام ضلع میں نا معلوم لوگوں نے بی جے پی کارکنوں کی دو نجی گاڑیوں کو آگ لگا دی۔

افسروں نے بتایا کہ وادی پوری طرح سے بند رہی جس کی وجہ سے عام زندگی متاثر ہوئی۔انھوں نے بتایا کہ دکانیں پوری طرح سے بند  رہیں اور پبلک ٹرانسپورٹ بھی سڑکوں سے ندارد رہے۔ کچھ علاقوں میں صرف نجی کار اور کچھ آٹو رکشا ہی سڑکوں پر دوڑتے نظر آئے۔

جموں و کشمیر کی سب سے پرانی پارٹی نیشنل کانفرنس (این سی) نے آرٹیکل-370 کے زیادہ تر اہتماموں کو ختم کرکے ریاست کو دو یونین ٹریٹری  میں تقسیم کرنے کے مرکزی حکومت کے فیصلے کو غیر آئینی قرار دیا اور کہا کہ یہ ملک کے لوگوں کے مفاد میں نہیں ہے۔ این سی رہنما اور سبکدوش جج حسنین مسعودی نے کہا، ‘ پورا عمل غیر آئینی ہے۔ آرٹیکل-3 کے تحت پارلیامنٹ کو ملے اختیارات جموں و کشمیر پر نافذ نہیں ہوتے اور نہ ہی ریاست کو ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کا حق ہے۔ پارلیامنٹ کے پاس صرف نئی ریاست بنانے کی طاقت ہے۔پارلیامنٹ صرف ریاست کے کسی حصے کو الگ کرکے نئی ریاست بنا سکتی ہے۔ اس کو کسی ریاست کے وجود کو ختم کرنے کا حق نہیں ہے۔ ‘

رکن پارلیامان مسعودی نے کہا کہ آرٹیکل-370 کو ختم کرنے یا جموں و کشمیر کے خصوصی درجے کو ختم کرنے سے پہلے ریاست کی چنی ہوئی حکومت کا اتفاق ضروری ہے۔ حالانکہ بی جے پی نے اس قدم کا استقبال کرتے ہوئے کہا کہ اس سے جموں و کشمیر اور لداخ میں امن قائم ہوگا اور وہاں کی ترقی ہوگی۔ بی جے پی کے ریاستی ترجمان خالد جہانگیر نے کہا، ‘ یہ تبدیلی امن، ترقی اور احترام کے لئے ہے اور ہمارے وزیر اعظم کا جموں و کشمیر کو لےکر جو نظریہ ہے وہ آنے والے دنوں میں عوام کے آشیرواد  سے کامیاب ہوگا۔ ‘

وہیں، وادی کے کچھ لوگوں نے الزام لگایا ہے کہ مرکز کے فیصلے نے ان کی شناخت اور خصوصی درجے کو چھین لیا ہے۔ سرینگر کے سول لائنس علاقے میں رہنے والے مزمل محمد نے کہا ، ‘یہ فیصلہ ہمارے مفادات کے خلاف ہے۔ انہوں نے (مرکز) ہمارا خصوصی درجہ اور شناخت چھین لی ہے۔ ‘ ایک دیگر مقامی باشندہ عمر زارگر نے الزام لگایا، ‘ ہندوستان کا فیصلہ غیر قانونی، غیراخلاقی اور غیر آئینی ہے۔ ‘ انہوں نے کہا، ‘ ہندوستان آرٹیکل-370 کے اہتماموں کو ختم نہیں کر سکتا۔ یہ مدعا اقوام متحدہ میں ہے اور اس پر تجویز ہے۔ ‘

غور طلب ہے کہ گزشتہ 31 اکتوبر کو جموں و کشمیر کا آئین اور ررنبیر پینل کوڈ کا وجود ختم ہو گیا۔ صدر جمہوریہ  رامناتھ کووند نے ریاست میں لگے صدر جمہوریہ  راج کو ختم کر دیا ہے اور ریاست کو تقسیم کرکے تشکیل کی گئی دو نئی یونین ٹریٹری -جموں و کشمیر اور لداخ کا کنٹرول اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔ ملک کی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے کہ کسی ریاست کو دویونین ٹریٹری میں تبدیل کر دیا گیا۔ اس طرح یو ٹی کی تعداد بڑھ‌کر نو ہو گئی اور ریاستوں کی تعداد گھٹ‌کر 28 رہ گئی ہے۔

یونین ٹریٹری کے طور پر وجود میں آئے جموں و کشمیر کے نائب گورنر گریش چندر مرمو کو اور لداخ کا نائب گورنر رادھا کرشن ماتھر کو بنایا گیا ہے۔ یونین ٹریٹری جموں و کشمیر میں پانچ سال کی مدت کے لئے وزیراعلیٰ کی قیادت میں منتخب اسمبلی اور کابینہ کونسل ہوگی جبکہ لداخ کی حکومت نائب گورنر کے ذریعے براہ راست مرکزی وزارت داخلہ کے ذریعے چلائی جائے‌گی۔

دونوں یونین ٹریٹری کے پاس ایک مشترکہ ہائی کورٹ ہوگی۔ لداخ کے افسروں کی تقرری یو پی ایس سی کے دائرے میں آئے‌گی۔ جموں و کشمیر میں گزیٹڈ سروس کے لئے تقرری  ایجنسی کے طور پرپبلک سروس کمیشن (پی ایس سی) بنا رہے گا۔ نئی یونین ٹریٹری کے سرکاری ملازمین‎ کو ساتویں پے کمیشن کی سفارشات کے مطابق ہی تنخواہ اور دیگر فوائد ملنے شروع ہوں گے۔

غور طلب ہے  کہ مرکزی حکومت  نے جموں و کشمیر کو خصوصی ریاست کا  درجہ دینے والے آرٹیکل  370 کےزیادہ تر اہتماموں کو  پانچ اگست کو رد کردیا تھا اور ریاست  کو دویونین ٹریٹری میں باٹنے  کا اعلان کیا تھا۔اس اعلان کے ساتھ ہی ریاستوں میں لینڈ لائن، موبائل سروس اور انٹرنیٹ پر پابندی لگا دی گئی تھی۔

اس کے ساتھ ہی مین اسٹریم  کے زیادہ تر علیحدگی پسند رہنماؤں کو احتیاط کے طور پر حراست میں لے لیا گیا ہے، جبکہ دو سابق وزیراعلیٰ-عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی سمیت کئی  رہنماؤں کو یا تو حراست میں لیا گیا ہے یا نظربند کر دیا گیا ہے۔ سابق وزیراعلیٰ اورسرینگر سے لوک سبھا کے موجودہ رکن پارلیامان فاروق عبداللہ کو متنازعہ پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کر لیا گیا تھا۔

ابھی فی الحال وادی میں لینڈلائن اور پوسٹ پیڈ موبائل فون خدمات بحال کی جا چکی ہیں، لیکن تمام انٹرنیٹ خدمات 4 اگست کی رات سے اب تک معطل ہی ہیں۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)