خبریں

گولڈن ٹیمپل میں خواتین کو ’شبد کیرتن‘ کی اجازت دینے والی تجویز پنجاب اسمبلی میں منظور

یہ تجویز پنجاب حکومت کے وزیر ترپت راجندر سنگھ باجوا کے ذریعے لائی گئی۔ انہوں نے کہا کہ سکھ مذہب کے بانی گرو نانک دیو نے پوری زندگی  ذات اور جنس پر مبنی جانبداری کے خلاف جدو جہد کی اور خواتین کے خلاف اس جانبداری کا بھی خاتمہ ہونا چاہیے۔

امرتسر واقع گولڈن ٹیمپل(فوٹو : پی ٹی آئی)

امرتسر واقع گولڈن ٹیمپل(فوٹو : پی ٹی آئی)

نئی دہلی: پنجاب اسمبلی نے جمعرات کواتفاق رائے سے ایک تجویز منظور کرکے اکال تخت اور شرومنی گرودوارہ پربندھک کمیٹی (ایس جی پی سی) سے کہا کہ امرتسر میں گولڈن ٹیمپل کے مین ہال میں خواتین کو بھی شبد کیرتن کی اجازت دی جائے۔ اس بارے میں ایک تجویز ریاستی حکومت کے وزیر ترپت راجندر سنگھ باجوا کے ذریعے لائی گئی، جنہوں نے کہا کہ سکھ مذہب کے بانی گرو نانک دیو نے زندگی بھر ذات اور جنس پر مبنی جانبداری کے خلاف جدو جہد کی اور خواتین کے خلاف اس جانبداری کا بھی خاتمہ ہونا چاہیے۔

انہوں نے اکالی رہنما کے اس دعویٰ کو بھی خارج کیا کہ سکھ ‘رہت مریادہ ‘ (ضابطہ اخلاق) کے مطابق سکھ خاتون کو دربار صاحب میں کیرتن کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اکالی رہنما جاگیر کور نے بھی خواتین کو مقدس دربار صاحب میں کیرتن  کرنے کی اجازت دینے کی خواہش ظاہر کی ہے۔

باجوا نے کہا، ‘ سکھ تاریخ میں خواتین کے تئیں کسی جانبداری کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ ‘ فی الحال گولڈن ٹیمپل میں صرف مرد ہی کیرتن کر سکتے ہیں۔باجوا کو ٹوکتے ہوئے اکالی ایم ایل اے پرمندر سنگھ ڈھینڈسا نے کہا کہ اس تجویز کے ذریعے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ اکال تخت یا ایس جی پی سی خواتین کو گولڈن ٹیمپل میں شبد گانے سے جان بوجھ  کر منع کر رہا ہے۔

شروعات میں شرومنی اکالی دل (ایس اے ڈی) نے اس تجویز کی مخالفت کی تھی، لیکن بعد میں وہ اس کی حمایت میں آ گیا۔ غور طلب ہے کہ گولڈن ٹیمپل سکھ مذہب کا سب سے مقدس مذہبی مقام یا سب سے اہم گرودوارہ ہے۔ اس کو ہرمندر صاحب یا دربار صاحب کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔

امرتسر کا نام اصل میں اس جھیل کے نام پر رکھا گیا ہے جس کی تعمیر سکھ کمیونٹی کے گرو رام داس نے کی تھی۔ گولڈن ٹیمپل گرودوارہ اسی جھیل کے بیچوں بیچ واقع ہے۔ اس گرودوارہ کا باہری حصہ سونے کا بنا ہوا ہے، اس لئے اس کا نام گولڈن ٹیمپل پڑا۔ گولڈن ٹیمپل کو کئی بار تباہ بھی کیا گیا، لیکن جتنی بار بھی اس کو تباہ کیا گیا ہے، دوبارہ بنایا گیا۔ افغانی حملہ آوروں نے 19ویں صدی میں اس کو پوری طرح تباہ کر دیا تھا۔ تب مہا راجہ رنجیت سنگھ نے اس کو دوبارہ بنوایا تھا اور اس کو سونے کی پرت سے سجایا تھا۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)