خبریں

کیا دہلی حکومت نے اشتہارات پر واقعی 1500کروڑ روپے خرچ کیے؟

فیک نیوز راؤنڈ اپ: کیا کیجریوال سچ بول رہے ہیں کہ ان کی حکومت نے اشتہار پر صرف چالیس کروڑ روپے خرچ کیے۔ کیا لکھنؤ میں مسجد کے امام کو سنگھیوں – بجرنگیوں نے زخمی کیا؟ کیا بیلجیئم کی مسلم پارٹی نے فی الحال بیلجیئم کو اسلامی ریاست بنانے کا مطالبہ کیا؟  بہار کے ساسا رام میں بم کہاں پھٹا،مسجد کے اندر یا مسجد کے باہر !

Kejriwal_Javadekar

دہلی میں گزشتہ ہفتہ بہت پریشانی کا دورگزرا، وجہ تھی ماحولیاتی آلودگی!اسموگ کی وجہ سے شہریوں کو ‘ہیلتھ ایمرجنسی’  کا سامناکرناپڑا۔ اسموگ  ایک طرح کی فضائی آلودگی ہے جس میں گہری دھند چھا جاتی ہے اور قریب کی اشیاء کا نظر آنا بھی بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ انگریزی لفظ  اسموگ  smog دو الفاظ smoke اور fog پر مبنی ہے اور  یہی دو الفاظ اسموگ کی تاثیر بھی بیان کرتے ہیں۔  اسموگ میں fog یعنی دھند کے ساتھ smoke یعنی دھواں بھی شامل ہوتا ہے جس کی وجہ سے دھوئیں میں موجود کاربن کے ذرات انسانوں، پرندوں، کیڑوں اور حیوانوں کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ ایسا مانا جاتا ہے  کہ دہلی میں یہ دھواں پنجاب اور ہریانہ  کے صوبوں سے آتا ہے جہاں کسان اپنی دھان کی فصل سے دھان نکال کر اس کے بھوسے اور پرالی کو کھیتوں میں ہی جلا دیتے ہیں۔

دہلی میں جس وقت حالات بےقابو ہو رہے تھے اور لاکھوں شہریوں کی زندگی بے رنگ ہو چلی تھی، اس وقت ملک کے سیاسی لیڈران اپنے اصل سیاسی رنگ دکھا رہے تھے۔ مرکزی وزیر برائےماحولیاتی امورپرکاش جاویڈکر نے ایک پریس میٹ میں میڈیا کو مطلع کیا کہ دہلی کی کیجریوال حکومت نے صرف اپنی حکومت کےاشتہار میں 1500 کروڑ روپے خرچ کر دیے۔جاویڈکر نے مزید کہا کہ اگر دہلی حکومت یہ رقم پنجاب اور ہریانہ کے کسانوں کودے دیتی تو وہاں کے کسان پرالی کے بہتر بندوبست کے لئے مشینیں خرید لیتے اور اس پریشانی سے دہلی کو دو چار نہ ہونا پڑتا۔

مرکزی وزیر کا یہ بیان اپنے آپ میں ہی عجیب و غریب نظر آتا ہے۔ کسانوں کو مشینیں مہیا کرانا مرکزی حکومت اور پنجاب و ہریانہ کی  صوبائی حکومتوں  کی پہلی ذمہ داری ہونی چاہیے،اس کے لئے دہلی، یو پی یا کسی دوسرے صوبے کا ذکر بعد میں ہونا چاہیے۔ دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال نے مرکزی وزیر کے اس بیان کے جواب میں کہا کہ سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق اس بات کا تعین polluter based principle نامی اصول سے کیا جاتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ جس صوبے سے آلودگی کی شروعات ہوتی ہے، اسی صوبے کی حکومت اس کو روکنے کے لئے سب سے پہلی ذمہ دار ہے۔ کیجریوال نے دبے الفاظ میں کہہ دیا کہ دہلی حکومت کسی دوسرے صوبے کو کوئی رقم نہیں دےگی۔

دوسری بات، کجریوال نے واضح کیا کہ ان کی حکومت نے اس برس صرف40 کروڑ روپے ہی حکومت کی اسکیموں  کے اشتہار میں خرچ کیے  ہیں۔ مرکزی وزیر  کے بیان کو ‘سفید جھوٹ’قرار دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان کی حکومت نے ڈینگو کی بیداری ، فرشتہ جیسی اسکیموں میں عوام کی بھلائی کے لئے خرچ کیا ہے۔

بوم لائیونےجاویڈکر اور کیجریوال  کے دعووں کا رئیلٹی چیک کیا تو معلوم ہوا کہ جاویڈکر کے دعوے حقیقت کے برعکس تھے۔بوم نے انکشاف کیا کہ جاویڈکر نے اپنے بیان میں یہ واضح نہیں کیا کہ دہلی حکومت نے کس مالی سال  یہ رقم خرچ کی۔یہ اپنے آپ میں گمراہ کرنے والی بات ہے۔ بوم کے مطابق   کیجریوال حکومت نے  گزشتہ پانچ سال میں تقریباً692 کروڑ روپے پرچار اور اشتہار میں خرچ کیے ہیں جو جاویڈکر کی بتائی گئی رقم سے بہت کم ہے۔بوم نے مزید واضح کیا کہ دہلی حکومت کے بجٹ کے مطابق اس مالی سال میں اشتہار کا تخمینہ خرچ تقریباً  308 کروڑ روپے ہے اور یہ کیجریوال کے 40 کروڑ کےدعوے سے بہت زیادہ ہے! لہٰذا، حقائق کی روشنی میں یہ واضح ہو جاتا ہے کہ جاویڈکر اور کیجریوال دونوں ہی حقیقت کے برعکس سیاسی بیانوں سے عوام کو گمراہ کر رہے تھے۔

سوشل میڈیا پر ایک تصویر وائرل ہوئی جس میں تہہ بند اور بنیان پہنے ایک شخص کو خون سے لت پت دکھایا گیا تھا۔ تصویر کے ساتھ دعویٰ کیا گیا کہ خون میں نہائے ہوا یہ شخص لکھنؤ میں جیل روڈ پر بنی مسجد کا امام ہے اور ان کا نام حافظ عدنان ہے۔ دعویٰ کیا گیا کہ بزدلی کی انتہا ہو گئی جب رات 11 بجے حافظ عدنان پر بزدل سنگھیوں اور بجرنگیوں نے تلوار سے حملہ کیا۔

آن لائن  نیوز پورٹل نیشنل دستک نے بھی اس سے متعلق ایک ویڈیو شائع کی۔

ٹوئٹر کے علاوہ فیس بک پر بھی اس طرح کی تصویریں عام کی گئیں۔

آلٹ نیوز نے انکشاف کیا کہ سوشل میڈیا پر عام کی گئیں تصویریں بےشک سچی ہیں لیکن ان کے ساتھ عام کی جانے والی جانکاری حقیقت کے برعکس ہے۔ اولاً، امام کا نام عدنان نہیں ہے بلکہ اُن کا نام عبد المقیم ہے۔ الٹ نیوز نے عالم باغ پولیس اسٹیشن سے رابطہ قائم کیا تو معلوم ہوا کہ یہ واقعہ 28 اکتوبر کو ہوا تھا اور 29 اکتوبر کو اس معاملے کی ایف آئی آر عالم باغ پولیس اسٹیشن میں  درج کر دی گئی تھی۔

پولیس نے اپنی تفتیش کے بعد سورج پرجا پتی نامی ایک 19 سالہ نوجوان کو گرفتار کیا ہے۔ سورج پرجاپتی امام کے کمرے میں ایک معمولی چوری کرنے کی غرض سے داخل ہوا تھا لیکن اس نے دیکھا کہ امام صاحب جاگ رہے تھے۔ یہ دیکھ کر سورج گھبرا گیا اور اسی گھبراہٹ میں اس نے امام صاحب پر چاقو سے حملہ  کر دیا۔

سورج کے اس اقرار جرم کے بعد اس کو قید میں رکھا گیا ہے۔ لہٰذا پولیس کی تفتیش اور رد عمل کے بعد یہ بالکل واضح ہو جاتا ہے کہ مسجد کے امام عبد المقیم پر فرقہ وارانہ تعصب کی وجہ سے حملہ نہیں کیا گیا تھا بلکہ اس کی بنا چوری کرنے کا ایک معمولی ارادہ تھا۔

fakenews_sasaram

منیش کمار نامی فیس بُک صارف نے ایک پوسٹ اپنی وال پر لکھی جس کے ساتھ دو تصویروں کا بھی استعمال کیا گیا۔ ان دو تصویروں میں ایک تصویر کسی مسجد کی عمارت کی تھی اور دوسری تصویر میں ایک  شخص لہو لہان پڑا تھا۔ منیش کمار نے اپنی پوسٹ میں لکھا:

آج ساسا رام میں موچی ٹولہ محلہ مسجد میں بم بناتے ہوئے بلاسٹ ہوا۔ 100 کی تعداد میں بم بارود برآمد ہوا، اس طرح کا لگ بھگ مسجد میں کام چل رہا ہے ساسا رام روہتاس بہار۔

منیش کی اس پوسٹ کو چار ہزار سے بھی زیادہ شیئر حاصل ہوئے۔

اسی طرح ٹوئٹر پر بھی یہ تصویریں عام کی گئیں۔ آکاش آر ایس ایس نامی ہینڈل پر تصویروں کے ساتھ ہو بہو وہی عبارت لکھی گئی جو فیس بک کی پوسٹ پر موجود تھی۔غور طلب ہے کہ آکاش آر ایس ایس نامی اس شخص کو مرکزی وزیر پیوش گوئل کے آفیشل ٹوئٹر ہینڈل سے فالو کیا جاتا ہے۔

الٹ نیوز نے اپنی تفتیش کے دوران ساسا رام کے ایس ڈی او راج کمار گپتا سے رابطہ قائم کیا۔ انہوں نے بتایا کہ ساسا رام میں بلاسٹ مسجد کے باہر ہوا تھا۔ کچھ لوگوں نے مسجد کے باہر آس پاس کا کچرا جمع کیا تھا اور پھر اس میں آگ لگا دی تھی۔ اسی آگ کے دوران کچرے کے ڈھیر میں ایک دھماکہ ہوا جس میں ایک شخص زخمی ہو گیا۔

پولیس نے مزید واضح کیا کہ مسجد کے اندرون میں کوئی دھماکا نہیں ہوا ہے، وہاں مسجد کی مرمت کا کام پر سکون انداز میں چل رہا ہے۔سوشل میڈیا پر اس دھماکے کے تعلق سے جو کچھ بھی عام کیا جہ رہا ہے وہ صرف افواہ ہے۔

اس واقعہ کے بعد دینک جاگرن کے مقامی شمارے میں شائع کی گئی خبر کے مطابق معلوم ہوتا ہے کہ پولیس نے آکاش آر ایس ایس نامی اس شخص کو گمراہ کن خبریں عام کرنے کے الزام میں گرفتار کر لیا ہے۔ اس طرح ایک بم دھماکے کو فرقہ وارانہ رنگ میں رنگ دیاگیا لیکن بہار پولیس نے اپنی ہوشیاری اور محنت کی بنیاد پر ماحول کو خراب ہونے سے بچا لیا۔