خبریں

خصوصی تجزیہ: بابری-رام جنم بھومی تنازعہ پر سپریم کورٹ کا فیصلہ تضادات سے پُر ہے

دی وائر کا خصوصی تجزیہ : اس معاملے پر فیصلہ دیتے ہوئے سپریم کورٹ کی آئینی بنچ  نے کہا کہ مسلم فریق یہ ثابت نہیں کر سکے ہیں کہ 1528 سے 1857 کے بیچ مسجد میں نماز پڑھی جاتی تھی اور اس پر ان کا خصوصی حق تھا۔ حالانکہ ہندوفریقین کے بھی یہ ثابت نہ کر پانے پر ان کو زمین کا مالکانہ حق دے دیا گیا ہے۔

فوٹو: پی ٹی آئی

فوٹو: پی ٹی آئی

نئی دہلی: ایودھیا کی زمین، جہاں بابری مسجد کھڑی تھی، اس کو وشو ہندو پریشد سے وابستہ  فریقوں کو سونپنے کا سپریم کورٹ کا 1045صفحے کاطول طویل  فیصلہ ایک محدود اور معمولی دعوے پر ٹکا ہے؛وہ یہ کہ مسلم فریق  اس بات کے دستاویزی شواہد پیش نہیں کر پایا کہ 1528 میں مسجد کی تعمیر کے وقت سے لےکر 1857 تک، جب ایودھیا میں ہوئے فسادات کی وجہ سےیہ معاملہ کولونیل(نوآبادیاتی)قانون تک پہنچا، مسجد میں نماز ادا کی جاتی تھی۔

پیراگراف 786، 797 اور 798 میں اس فیصلے کاخلاصہ درج ہے؛

پیراگراف 786

اگرچہ[مسلم] فریق کا معاملہ…یہ ہے کہ 1528 میں مسجد کی تعمیر بابر کے ذریعےیا اس کے کہنے پر کروائی  گئی تھی، لیکن اس کے بننے کے بعد سے 1856-57 تک ان کے ذریعے اس پر قبضے، استعمال یا نماز ادا کرنے کے بارے میں کوئی جانکاری نہیں ہے۔ مسلمانوں کے ذریعے اس کی تعمیر سے لےکر برٹش حکومتوں کے ذریعے اینٹ- گرل کی دیوار بنانے تک کے 325 سالوں کی مدت سے زیادہ کے عرصہ میں متنازعہ مقام پر حق  ہونے کے ثبوت پیش نہیں کئے گئے ہیں۔ نہ ہی اس دوران مسجد میں نماز پڑھنے کے ہی کوئی ثبوت ہیں…

پیراگراف 797

امکانات کے توازن[Balance of probabilities]کی بنیاد پر اس بات کے واضح ثبوت نظر آتے ہیں کہ 1857 میں انگریزوں کے ذریعے یہاں گرل اور اینٹ کی دیوار بنوانے کے باوجود بیرونی احاطے میں بلا تعطل ہندوؤں کے ذریعے پوجا کی جاتی تھی۔ بیرونی  احاطہ  پر ان کا حق  اس سے متعلق  واقعات کی  صورت  میں واضح ہے۔

پیراگراف 798

جہاں تک اندرونی احاطے کی بات ہے، تو یہ بات قائم کرنے کے وافر ثبوت ہیں کہ 1857 میں انگریزوں کے اودھ کو جوڑ نے سے پہلے وہاں ہندوؤں کے ذریعے پوجا کی جاتی تھی۔ مسلمانوں کی جانب سے یہ دکھانے کے لیے کہ 16ویں صدی میں مسجد کے بننے کے بعد سے 1857 تک اندرونی احاطے پر ان کا خصوصی حق تھا، کوئی ثبوت نہیں دیا گیا ہے۔ گرل اور اینٹ کی دیوار بننے کے بعد مسجد کا ڈھانچہ یہاں موجود رہا اور اس بات کے ثبوت ہیں کہ اس کے احاطے میں نماز ادا کی جاتی تھی۔

دلچسپ بات ہے کہ اسی پیراگراف 798 میں کورٹ نے کہا ہے؛

مسلمانوں سے عبادت اور قبضہ کا یہ حق 22/23 نومبر 1949 کی درمیانی شب میں اس وقت چھن گیا جب ہندو مورتیوں کو رکھ کر اس کو’ناپاک’ کر دیا گیا تھا۔ اس وقت مسلمانوں کی یہ بےدخلی کسی قانونی اہتمام کے تحت نہیں ہوئی تھی بلکہ ایک ایسے طریقے سے ہوئی جس سے انہیں ان کی عبادت کی جگہ کے حق سے محروم کر دیا گیا۔ سی آر پی سی 1898 کی دفعہ145کے تحت ہوئی کارروائی کی شروعات اور اندرونی احاطے کو لیے جانے کے بعد ایک ریسیور کی تقرری کے بعد ہندو مورتیوں کی پوجا کی اجازت دی گئی۔مقدموں کے التوا رہنے کے دوران پوجا کے ایک عوامی مقام کو تباہ کرنے کی پہلے سے سوچی گئی کارروائی سے مسجد کے پورے ڈھانچے کو گرا دیا گیا۔ مسلمانوں کو غلط طریقے سے 450 سال سے زیادہ سے بنی ایک مسجد سے محروم رکھا گیا۔

دوسرے لفظوں میں، عدالت کا کہنا ہے کہ؛

مسجد کی تعمیر 450 سال سے پہلے ہوئی تھی،

اس بات کا ثبوت ہے کہ مسلمان1857 سے 1949، جب ‘انہیں عبادت کے مقام سے محروم  رکھنے کے مقصد سے کی گئی ایک سوچی سمجھی کارروائی’کی وجہ سے غیرقانونی طریقے سے بےدخل کر دیا گیا، تک وہاں عبادت کیا کرتے تھے۔

لیکن کیونکہ ‘انہوں نے 16ویں صدی مسجد کی تعمیر سے لےکر 1857 سے پہلے تک اندرونی احاطے پر خصوصی حق ہونے کے ثبوت نہیں دیےہیں…امکانات کے توازن[Balance of probabilities] کی بنیاد پر،حق کے دعوے کے متعلق متنازعہ پراپرٹی کو لےکر ہندوؤں کے ذریعے دیےگئے ثبوت مسلمانوں کے ذریعے دیے گئے شواہدسے بہتر حالات میں ہیں۔’

جس بارے میں عدالت نے بات نہیں کی، وہ یہ کہ 1528میں مسجد کے بننے سے لےکر 1857 تک اس کا کیا مقصد تھا۔

اگر 1856 میں مقامی ہندوؤں اور مسلمانوں میں باہری اور اندرونی احاطے کے استعمال کو لےکر کوئی تنازعہ ہوتا ہے تو یہ بتاتا ہے کہ ایسا اس لیے ہوا کیونکہ اس سے پہلے ہندو اور مسلمان دونوں وہاں پوجا کیا کرتے تھے۔

کسی بھی معاملے میں، جہاں عدالت واضح طور پر کہے کہ ‘مسلمانوں کو غلط طریقے سے 450 سال سے زیادہ سال سے بنی ایک مسجد سے محروم رکھا گیا’، وہ یہ قبول کرتی ہے کہ اپنی مکمل مدت میں یہ ایک مسجد تھی اور اس لیےتعریف [Definition]کے مطابق یہ ایودھیا کے مسلمانوں کی ہے۔

پھر بھی، کیونکہ مسلم فریق اس پر خصوصی حق کو لےکر کوئی ثبوت نہیں دے سکے یا یہاں تک کہ 300 سال سے زیادہ مدت کے لیے نماز پڑھی جاتی رہی، عدالت نے اس مقام کو ہندوفریقوں کو سونپ دیا۔

اتفاق سےنرموہی اکھاڑا، جس کو عدالت نے بےدخل کر دیا، اس کو چھوڑکر کسی بھی ہندو فریق سے متنازعہ مقام پرخصوصی حق کا ثبوت دکھانے کو نہیں کہا گیا۔

ہندو گنبد والے مقام کے سامنے رام چبوترے پر پوجا کیا کرتے تھے اور 18ویں صدی کے یوروپین سیاح جوزف [Jozef Tieffenthaler] کی چبوترے پر پوجا کے تذکرے کا حوالہ دیا گیا ہے، حالاں کہ ہندو اندرونی  احاطے میں پوجا کیا کرتے تھے، اس دعوے کو ثابت کرنے کے لیے یہ ایک غیرواضح اور مبہم حوالہ ہے۔

(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)