خبریں

آر ٹی آئی کے دائرے میں آیا سی جے آئی دفتر، سپریم کورٹ نے دہلی ہائی کورٹ کے فیصلے کو صحیح  ٹھہرایا

دہلی ہائی کورٹ نے سال 2010 میں اپنے فیصلے میں سپریم کورٹ  کی اس دلیل کو خارج کر دیا تھا کہ سی جے آئی دفتر کو آر ٹی آئی کے دائرے میں لائے جانے سے عدلیہ کی آزادی متاثرہوگی۔

سپریم کورٹ (فوٹو : پی ٹی آئی)

سپریم کورٹ (فوٹو : پی ٹی آئی)

نئی دہلی :  عدلیہ  میں شفافیت کی ضرورت کا حوالہ دیتے ہوئے سپریم کورٹ نے اپنے ایک بے حد  اہم  فیصلے میں اعلان کیاکہ چیف جسٹس دفتر(آفس آف سی جے آئی)آر ٹی آئی کے دائرے میں ہے۔سپریم کورٹ کے پانچ ججوں کی بنچ  نے متفقہ طورپریہ فیصلہ دیا اور سال 2010 کے دہلی ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو صحیح  ٹھہرایا جس میں کورٹ نے کہا تھا کہ چیف جسٹس  کادفتر آر ٹی آئی ایکٹ کے دائرے میں ہے۔

ججوں کی بنچ میں شامل جسٹس سنجیو کھنہ نے سی جے آئی رنجن گگوئی، جسٹس دیپک گپتا اور خود کی جانب  سے فیصلہ لکھا۔ وہیں جسٹس این وی رمن اور جسٹس چندرچوڑ نے اکثریت  کے فیصلے سے اتفاق کرتے ہوئے اپنا الگ الگ فیصلہ دیا۔ سنجیو کھنہ نے کہا، جہاں مفاد عامہ  کے لیےجوابدہی ضروری ہے تو وہیں عدلیہ کی آزادی  سب سے اہم  ہے۔ جسٹس چندرچوڑ نے اپنی الگ رائے میں کہا کہ سی جے آئی کا آفس آر ٹی آئی کے دائرے میں لانے سے عدلیہ  کی آزادی  سے سمجھوتہ نہیں ہوگا۔

ڈی وائی  چندرچوڑ نے کہا، ‘آرٹیکل19 کے تحت نہ تو آر ٹی آئی اور نہ ہی پرائیویسی کا حق بنا شرط کا ہے۔ سبھی جج اور سی جے آئی آئینی عہدہ سنبھالتے ہیں۔ ‘وہیں اپنے الگ فیصلے میں جسٹس رمن نے کہا کہ آر ٹی آئی کا استعمال عدلیہ  پر نگرانی کے لیے نہیں کیا جانا چاہیے۔این وی رمن نے کہا کہ آر ٹی آئی ایکٹ کی دفعہ  8(1)(جے)کے تحت دی گئی چھوٹ آرٹی آئی  اورپرائیویسی  کے حق  میں توازن  بنانے کے لیے ہے۔

پانچ ججوں  کی آئینی بنچ  نے سپریم کورٹ  اور سینٹرل انفارمیشن کمیشن(سی آئی سی)کی ہدایات کے خلاف 2010 میں سپریم کورٹ  کے جنرل سکرٹری  اور سینٹرل انفارمیشن افسرکے ذریعے  دائر اپیلوں پر گزشتہ  چار اپریل کو فیصلہ محفوظ  رکھ لیا تھا۔چیف جسٹس کی قیادت والی بنچ  نے شنوائی پوری کرتے ہوئے کہا تھا کہ کوئی بھی غیر شفاف سسٹم نہیں چاہتا، لیکن شفافیت کے نام پر عدلیہ  کو برباد نہیں کیا جا سکتا۔

انہوں نے کہا تھا، ‘کوئی بھی اندھیرے کی حالت  میں نہیں رہنا چاہتا یا کسی کو اندھیرے کی حالت میں نہیں رکھنا چاہتا۔ آپ شفافیت کے نام پر عدلیہ کوبرباد نہیں کر سکتے۔’دہلی ہائی کورٹ نے 10 جنوری 2010 کو ایک تاریخی  فیصلے میں کہا تھا کہ چیف جسٹس دفتر آر ٹی آئی قانون کے دائرے میں آتا ہے۔ اس نے کہا تھا کہ عدلیہ کی آزادی  ججوں کاخصوصی حق  نہیں ہے، بلکہ اس پر ایک ذمہ داری ہے۔

اس  88 صفحے کے فیصلے کو تب اس وقت  کے چیف جسٹس کے جی بالا کرشنن کے لیے نجی جھٹکے کے طورپر  دیکھا گیا تھا جو آر ٹی آئی قانون کے تحت ججوں  سے متعلق  جانکاری کا انکشاف  کیے جانے کے مخالف تھے۔ہائی کورٹ نے سپریم کورٹ  کی اس دلیل کو خارج کر دیا تھا کہ سی جے آئی دفتر کو آر ٹی آئی کے دائر ےمیں لائے جانے سے عدلیہ کی آزادی متاثرہوگی۔