خبریں

جج قانون سے اوپر نہیں ہیں، عدالتی تقرری کا عمل شفاف ہونا چاہیے: جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ

جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ نے کہا کہ ایسا کرنے سے تقرری کے عمل میں لوگوں کا اعتماد بڑھے‌گا اور فیصلے لینے میں عدلیہ اور حکومت کی تمام سطحوں پر بلند سطح کی شفافیت اور جوابدہی طے ہو سکے‌گی۔

سپریم کورٹ کے جج جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ، فوٹو بہ شکریہ:Increasing Diversity by Increasing Access

سپریم کورٹ کے جج جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ، فوٹو بہ شکریہ:Increasing Diversity by Increasing Access

نئی دہلی: چیف جسٹس کے دفتر (آفس آف سی جے آئی) کو آر ٹی آئی ایکٹ کے دائرے میں ہونے کا اعلان کرنے والی آئینی بنچ کی اکثریت کے فیصلے سے اتفاق کرتے ہوئے اپنی الگ رائے میں جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ نے کہا کہ  عدلیہ میں ججوں کی تقرری کی بنیاد کی وضاحت کی جانی چاہیے اور اس سے متعلق سبھی جانکاری پبلک  ڈومین پر رکھی جائے۔

انہوں نے کہا کہ ایسا کرنے سے تقرری کےپروسیس  میں لوگوں کا اعتماد بڑھے‌گا اور فیصلے لینے میں عدلیہ اور حکومت کی تمام سطحوں پر بلند سطح کی شفافیت اور جوابدہی طے ہو سکے‌گی۔ جسٹس چندرچوڑ نے کہا، ‘ جج قانون سے اوپر نہیں ہیں، عدالتی تقرری کا عمل شفاف ہونا چاہیے۔ ‘ اپنے بےحد اہم فیصلے میں ڈی وائی چندرچوڑ نے عدالتی آزادی اور شفافیت کے تضادات کی صحیح سے وضاحت کی ہے اور عدلیہ میں تقرری میں شفافیت برتنے اور تمام ضروری دستاویزوں کو عام کرنے پر زور دیا ہے۔

حال کے دنوں میں سپریم کورٹ کے کالیجئم کی کارروائی پر کئی سوال اٹھے ہیں۔ عدالتی تقرری کو لےکر ہمیشہ ایک راز بنا رہتا ہے۔ یہ ایک طویل عرصے سے کہا جاتا رہا ہےکہ عدلیہ خود کو اسی شفافیت کے معیارات پر قائم نہیں رکھتی ہے جو وہ دیگر آئینی عہدیداروں سے توقع کرتی ہے۔ اپنے 113 صفحات کے فیصلے میں جسٹس چندرچوڑ نے عدلیہ کے سلسلے میں آر ٹی آئی ایکٹ کو بہتر طریقے سے کام کرنے کے لئے ججوں کی تقرری کےعمل کو شفاف بنانے پر زور دیا۔

اپنے مشوروں میں انہوں نے کہا، ‘ سب سے اہم یہ ہے کہ ہائر جوڈیشری میں ججوں کے انتخاب اور تقرری کی بنیاد کی وضاحت کی جانی چاہیے اور ان کو عوامی دائرے میں رکھا جانا چاہیے۔ یہ وہ پروسیس ہے جس پر عمل تقرری اور عدالتی تقرری کے دوران اپنائے جانے والے بنیادی  اسٹینڈرڈ کے تناظر میں بھی کیا جاتا ہے۔ ‘

ہائر جوڈیشری میں ججوں کی تقرری کے طریقے میں جڑے مفاد عامہ کا حوالہ دیتے ہوئے جسٹس چندرچوڑ نے کہا ، ‘تقرری کی بنیاد کا انکشاف کرنے میں ایک اہم عوامی مفاد ہے۔ خاص طورپر صلاحیت، ایمانداری اور عدالتی کارکردگی کے بارے میں۔ عدالتی تقرری کا عمل اور اس کی بنیاد کو عام کرنا آر ٹی آئی قانون کی دفعہ 4 کے مقصد کی تکمیل کرنا ہے۔ اس سے عوام میں اعتماد بڑھتا ہے۔ ‘

غورطلب ہے کہ گزشتہ بدھ کو سپریم کورٹ کے پانچ ججوں کی آئینی بنچ نے اتفاق رائے سے فیصلہ دیا اور سال 2010 کے دہلی ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو صحیح ٹھہرایا جس میں کورٹ نے کہا تھا کہ چیف جسٹس کا دفتر آر ٹی آئی ایکٹ کے دائرے میں ہے۔ پانچ ججوں کی بنچ میں شامل جسٹس سنجیو کھنہ نے سی جے آئی رنجن گگوئی، جسٹس دیپک گپتا اور خود کی طرف سے فیصلہ لکھا۔ وہیں جسٹس این وی رمن اور جسٹس چندرچوڑ نے اکثریت کے فیصلے سے اتفاق کرتے ہوئے اپنا الگ الگ فیصلہ دیا۔