فکر و نظر

سو دنوں میں مزید نوکری -مزید فیکٹری کے وعدوں کے برعکس، کشمیریوں کو ملی مزید پابندیاں-مزید افواج

رام چندر گہا کا کالم: مکیش امبانی کشمیر میں سرمایہ کاری سے متعلق بالکل خاموش ہیں؛ جبکہ سرکار نے سرمایہ کاری میلے کو غیر معینہ مدت کے لیے آگے بڑھا دیا ہے۔ وعدے تو مزید نوکری، مزید فیکٹریز کے کیے گئے تھے، مگر 5اگست کے بعد سے کشمیریوں نے پایا کیا ہے؛ مزید افواج، مزید پابندیاں۔ اس نے ان میں گہرا غصہ پیدا کر دیا ہے۔

جموں و کشمیر کے رگھوناتھ بازار میں تعینات سی آر پی ایف کا جوان(فوٹو : پی ٹی آئی)

جموں و کشمیر کے رگھوناتھ بازار میں تعینات سی آر پی ایف کا جوان(فوٹو : پی ٹی آئی)

گزشتہ 61 سالوں سے اس جمہوریہ ہند کی باشندگی میں کچھ معاملات نے مجھے بہت گہرائی سے متاثر کیا، جیسے جموں کشمیر سے آئین کی شق 370 کی منسوخی۔ میری سرکار کے اس عمل نے اپنی سنگدلی اور لوگوں کے ذریعے اس کے بے پناہ استقبال نے مجھے ذہنی طور پر بے حد پریشان کر دیا۔ کئی ہندوستانی باشندوں کے لیے کشمیر کا مسئلہ پوری طرح پاکستان کی دین ہے، جس کی سرحدیں کشمیر سے ملتی ہیں اور جس کا کشمیر پر دعویٰ ہے۔ ان کی نظر میں اپنے ایجنڈے کے تحت پاکستان کشمیر میں مستقلاً دراندازوں کو بھیجتا رہتا ہے اور اسی کے تحت وہ ہندوستان سے تین جنگیں بھی لڑ چکا ہے۔اس معاملے میں ہندوستانی باشندوں [ہم ہندوکہہ لیں]کے اس طبقے کی نظر میں دوسرے ولن کشمیری مسلمان ہیں، جو ہندوستان کے تئیں اس درجے کی وفاداری نہیں دکھاتے، جس درجے کی مراعات ملک نے انہیں دے رکھی ہیں۔ یہی مسلمان کشمیر سے ان ہندوؤں، جو کشمیری پنڈت کے نام سے مشہور ہیں، کے وادی سےانخلاء کی بھی وجہ ہیں۔

اس لیے کشمیر سے دفعہ 370 ہٹائے جانے کو نہ صرف پاکستان کےمنہ پر طمانچے کی شکل میں دیکھا گیا، بلکہ ظاہری طور پر ہندوستان سے مراعات حاصل کرنے والے کشمیریوں کے لیے بھی اسے وہی سمجھا گیا۔ ہندو اکثریت پسندوں نے اسے فتح کی علامت مان سوشل میڈیا پر مستقل بدتہذیبی کا مظاہرہ کیا۔ ان میں سے کچھ کشمیر کی وادیوں میں گھر خریدنے جا رہے تھے تو کچھ وہاں کی حسین عورتوں سے شادی  کے خواہشمندتھے۔ ایک مؤرخ کے طور پر کشمیر مسئلے کا میں نے برسوں مطالعہ کیا؛اسی طرح میرا وہاں کئی بار جانا بھی ہوا ہے۔ ان دونوں عوامل کے ساتھ طبعی میلان بھی یہی کہتا ہے کہ اخلاقی و سیاسی دونوں نقطہ نظر سے میری سرکار کا یہ عمل غلط تھا۔ان کی ریاست، مرکزی سرکار کے زیر نگیں ایک قومی خطہ بنا دیے جانے کو ہندوستان کےتئیں نرم گوشہ رکھنے والے کشمیریوں کے لیے بھی تذلیل آمیز مانا جائے گا۔ یہ بھی مصدقہ امر ہے کہ بے جا دباؤاور فوجی تسلط کے دم پر کبھی بھی مستقل امن و امان قائم نہیں ہو سکتا۔

اس کے علاوہ سرکاری شکنجے میں کشمیر کو اس طرح جکڑ دیے جانےکے لیے وقت کا انتخاب بھی حیرت انگیز ہے۔ نریندر مودی ملک میں خاصی اکثریت کے ساتھ دوبارہ منتخب ہوکر آئے ہی تھے؛ ایسے وقت میں لگاتار گرتی معیشت کو سرکار کی فوری توجہ کی ضرورت تھی۔ غیر ملکی انویسٹمنٹ نہیں آ رہا تھا، تب اس طرح کے بین الاقوامی سطح پر متنازعہ قدم اٹھائے جانے کی کیا ضرورت تھی؟ کسی کو بھی تعجب ہوسکتا ہے کہ اکثریت پسندوں کو ہندوستان پر اپنی مکمل گرفت دکھانے کے لیے کیا مسلم اکثریت والی یہی ریاست ملی تھی؟ 5 اگست کے بعد کشمیر کے مسئلے پر بنگلور میں رہنے والے ایک صنعت کار دوست سے اکثر میری بات ہوئی۔ اس بابت مجھ سے متفق ہونے کے بجائے وہ کشمیرسے دفعہ 370 ہٹائے جانے کی مکمل حمایت کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کشمیر کو ملادرجہ قابل قبول نہیں تھا۔ اسے ختم کرنے کے لیے کچھ کیا جانا ضروری تھا۔ سرکار کےذریعے اٹھائے گئے اس انتہا پسندانہ قدم کے بعد اب وہ اس کے نتائج کو لے کر بہت پرامید ہیں۔

انہیں لگتا ہے کہ کشمیر کا ‘الحاق’ اب قانونی طور پر پوری طرح ہندوستان کے ساتھ ہو گیا۔ اب وہاں سرمایہ کاری کی لہر آنے والی ہے، جس کے بعد معاشی خوشحالی کا دور شروع ہوگا۔ اس سے سارے تفرقے بھلا دیے جائیں گے۔ کشمیر سے دفعہ 370 بے اثر کیے جانے کو تین ماہ سے زیادہ ہوگئے ہیں۔ وادی سے جو خبریں آ رہی ہیں، بد بختی سے ان میں میرے اندیشے زیادہ سچ ثابت ہو رہے ہیں، بہ نسبت میرے مذکورہ دوست کی امیدوں کے۔ ‘د ی ٹیلی گراف’ جیسے مؤقراخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق ریاست کی معیشت کو دس ہزار کروڑ روپے سے زیادہ کانقصان اب تک پہنچ چکا ہے اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ سخت سکیورٹی و مواصلاتی ذرائع پر پابندی سے محنت کش طبقہ، دستکار اور چھوٹے تاجروں کے کام کاج بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔

ریاست سے دفعہ 370 کا نفاذ ختم کرنے کے ایک ہفتے بعدہندوستان کے سب سے مالدار صنعت کار مکیش امبانی نے ریلائنس کے ذریعے جموں و کشمیرمیں بھاری سرمایہ کاری کا اعلان کیا تھا۔ اس کے لیے انہوں نے ایک ‘اسپیشل ٹاسک فورس’ کے قیام کی بات بھی کہی تھی۔ اسی بیچ جموں و کشمیر کے گورنر نے ستمبر ماہ میں سری نگر میں ایک اسپیشل انویسٹرس سمٹ کرائے جانے کا اعلان بھی کیا تھا۔ میں جانتاتھا کہ یہ سب محض اعلانات ہیں۔ یہی سچ بھی ثابت ہوا۔ مکیش امبانی کشمیر میں سرمایہ کاری سے متعلق بالکل خاموش ہیں؛ جبکہ سرکار نے سرمایہ کاری میلے کو غیر معینہ مدت کے لیے آگے بڑھا دیا ہے۔ وعدے تو مزید نوکری، مزید فیکٹریز کے کیے گئے تھے، مگر 5اگست کے بعد سے کشمیریوں نے پایا کیا ہے؛ مزید افواج، مزید پابندیاں۔ اس نے ان میں گہرا غصہ پیدا کر دیا ہے۔

ہندوستان سے لگاؤ رکھنے والے کشمیری بھی اب دور ہونے لگے۔وکیل نتیا رام کرشنن اور ماہر سماجیات نندنی سندر نے  وادی کا دورہ کر کشمیرکے مقامی لوگوں سے بڑے پیمانے پر ملاقاتیں کیں۔ انہوں نے لکھا ہے کہ ‘حریت نیتا [سیدعلی شاہ] گیلانی کو اپنا رہنما ماننے والوں کے ساتھ، پاکستان کی جانب ان کا جھکاؤخطرناک حد تک بڑھ چکا ہے۔ 370 کا نفاذ ختم کیے جانے کے بعد ہندوستان کے ساتھ جس مبینہ مکمل الحاق کا وعدہ ہماری سرکار کر رہی ہے، اس کا کوئی طلبگار نہیں ہے۔ خاص طور سےتب جب کہ یہ وعدہ مواصلاتی نظام پر پابندی، بھاری فوجی نفری، زبردست دباؤکے علاوہ بنیادی حقوق کی پامالی کے ساتھ کیا گیا ہو، جو اصولی طور پر تو ہر ہندوستانی باشندے کو مہیا ہیں۔’رام کرشنن اور سندر نے محسوس کیا کہ کشمیریوں نے گاندھیائی اسٹائل کے ستیہ گرہ کا راستہ چنا ہے۔ اس لیے،’شوپیان کی پھل منڈی ایسی بند تھی کہ اس کے باہر ٹرک تک نہیں تھے۔پھلوں کی کاشت کرنے والے ایک شخص سے ملاقات ہونے پراس نے کہا،

ہم لاکھوں گنوانے کو تیار ہیں،اگر بدلے میں ہمیں آزادی مل جاتی ہے تو۔’

اس بیچ ‘یوں تو اسکول کھلے ہیں مگر کوئی بچہ اسکول نہیں جاتا۔ ٹیچرس تھوڑے وقت کےلیے اسکول آتے ہیں، کبھی کبھی ہفتے میں دو تین دن۔ سرینگر کے سورا میں ایک چھہ سالہ بچی نے کہا،

اسے اسکول جانے میں ڈر لگتا ہے کیونکہ’پولیس انکل گولی ماریں گے۔’

اتنےسخت فوجی پہرے داری اور فون کے بنا والدین اپنے بچوں کو اسکول بھیجنانہیں چاہتے… دیہی اسکول بند پڑے ہیں۔ یہ اسکول اگر آبادی کے بیچ بھی ہیں تومسلح افواج ہر جانب لگی ہیں اور لوگوں کو ڈر ہے کہ کوئی معاملہ/شوٹ آؤٹ ہو سکتا ہے۔’

رام کرشنن اور سندر نے اس کا بھی ذکر کیا کہ ‘گو وہاں کےلوگ ہندوستانی سرکار سے نفرت کرتے ہیں، لیکن عام ہندوستانی کی حیثیت سے ہمارے ساتھ انہوں نے مہذب رویہ اپنایا اور خوب خاطرداری کی۔ ہندوستانیوں سے انہیں ویسے کوئی شکایت نہیں ہے، تب تک کہ جب تک میڈیا سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔’

5اگست کے بعد سخت مشکلات سے جوجھ رہے کشمیریوں کے بارے میں ایک رپورٹ اور آئی ہے۔ اسے ماہر نفسیات انیرودھ کالا اور برینیل ڈیسوزا کے ساتھ ادیب ہریوتی لال اور سماجی کارکن شبنم ہاشمی نے تیار کیا ہے۔ ان چاروں نے صوبے کے پانچ اضلاع کا دورہ کر مختلف طبقات کے لوگوں سے بات چیت کی ہے۔اس رپورٹ میں کہا گیا ہےکہ ‘خوف و دہشت میں ڈوبے کشمیر نے خود کو کانٹے دار تاروں کی باگڑ میں مقید کر لیاہے۔ وہاں ٹارچر، حراستوں کے ساتھ خوفناک پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت نوجوانوں کو قیدکرنے کے معاملات چل رہے ہیں۔’ کالا کی یہ تفصیلی رپورٹ ستر صفحات پر مشتمل ہے۔ اس سے عام کشمیریوں کی کہی گئیں کچھ باتیں نقل کی جاتی ہیں؛

 ‘ٹی وی والے پوری طرح بھگوا ہو چکے ہیں۔ افسوسناک ہے کہ لوگوں کو انہوں نے تقسیم کر دیا ہے۔

کیا آپ بنا فون کے ایک گھنٹہ بھی زندہ رہ سکتے ہیں؟

وہ ہمیں جسمانی طور پر قابو میں کر سکتے ہیں، ذہنی طور پرنہیں۔

اب آپسی اعتماد ختم ہوا ۔

زبردست دھوکہ دیے جانے، رسواکرنے کے احساسات ہیں۔

5 اگست سے پہلے ہندوستان کے لیے گہری انسیت تھی۔ ہم کہا کرتےتھے کہ پاکستان میں جمہوریت نہیں ہے، وہاں سیکولرزم نہیں ہے۔درمیانی راستہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو چکا ہے!

آزادی یاپاکستان کی حمایت میں ابھرنے والے جذبات اہم نہیں ہیں، لیکن لوگ اب آزادی کے بارےمیں باتیں کر رہے ہیں۔اس گروپ نے جموں کا بھی دورہ کیا، جہاں اس نے پایا کہ سرکارکے اس فیصلے کو لے کر شروع میں یہاں جو جنون نظر آ رہا تھا، وہ کافور ہو چکا ہے۔اب وہ اس کی قیمت چکا رہے ہیں، جو مہنگی پڑ رہی ہے۔ جموں و کشمیر کی معیشت ہمیشہ آپس میں گہرائی سے جڑی رہی ہے، سو دنوں کے بیچ تجارت، اسفار، سیاحت اور ٹرانسپورٹ سب کچھ ٹھہر گیا ہے۔ جموں کے کئی باشندے اب اس کی چبھن محسوس کر رہے ہیں۔ ایک شخص تلخی کے ساتھ کہتا ہے،

‘370 کا ہٹانا جموں کے لیے گہرا دھکا ہے۔ ٹیکسی کا کاروبارچوپٹ ہو چکا ہے، ہوٹل چوپٹ، ٹرانسپورٹ چوپٹ، ٹورسٹ  چوپٹ۔’

جموں کا ایک دوسرا تاجر کہتا ہے؛

‘دسہرے کا سیزن چل رہا ہے۔ ہول سیل مارکیٹ – منڈی میں اتنی بھیڑہوتی تھی کہ پیر رکھنے کو جگہ نہیں ملتی۔وہ اب سنسان پڑی ہے۔ایک دم خالی۔’

خوش آئند بات ہے کہ مذکورہ بالا دونوں رپورٹس خاصی پڑھی گئیں۔یہ بتا رہی ہیں کہ کشمیر سے آئین کی شق 370 کا نفاذ ختم کیے جانے کا الٹا اثر ہورہا ہے۔ اس کی وجہ سے کشمیری عوام کی ملک سے دوریاں بڑھ گئی ہیں۔ سکیورٹی فورسز  پر اضافی بوجھ بڑھا۔ غیر ممالک کے میڈیا میں ہندوستان کی منفی تشہیر ہوئی۔ اس سے یہ بھی ہوا کہ معاشی اور تنظیمی تجدیدات کی جانب سے توجہ ہٹ گئی۔ یہ ہمارے مستقبل کے لیے بہت نقصاندہ ہے۔ کشمیریوں سے عداوت نکالنے کے چکر میں مودی سرکار نے ہندوستان کو صرف نقصان پہنچایا ہے۔

(انگریزی سے ترجمہ: جاوید عالم)