فکر و نظر

کیا کشمیریوں کو ان کے حال پر چھوڑ کر پاکستان سفارتی محاذ پر اپنی کوشش جاری رکھ سکتا ہے؟

آخر کون امن نہیں چاہتا؟  اس کی سب سے زیادہ ضرورت تو کشمیریوں کو ہی ہے۔ اشرف جہانگیر قاضی صاحب سے بس یہی گزارش ہے کہ امن، قدر و منزلت، انصاف و وقار کا دوسرا نام ہے، ورنہ امن تو قبرستان میں بھی ہوتا ہے۔ جن تجاویز پر آپ امن کے خواہاں ہیں، وہ صرف قبرستان والا امن ہی فراہم کر سکتے ہیں۔

سرینگر کے ڈل جھیل میں شکارے سے سیر کرتے کچھ سیاح( فوٹو: پی ٹی آئی)

سرینگر کے ڈل جھیل میں شکارے سے سیر کرتے کچھ سیاح( فوٹو: پی ٹی آئی)

پاکستان کے ایک سابق سفارت کار اشرف جہانگیر قاضی نے حال ہی میں اپنے ایک مضمون میں پاکستان کو کشمیر کی صورت حال کے حوالے سے ایک متبادل راستہ اختیار کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کشمیریوں کو اپنے حال پر چھوڑ کر، سفارتی محاذ پر کوششیں جاری رہنی چاہیے اور ساتھ ہی انہوں نے ان کاوشوں کو بے مصرف بھی قرار دیا۔ ان کادعویٰ ہے کہ پاکستان میں کئی حلقے اسی راستے کو اپنانے کی وکالت کرتے ہیں۔ تاکہ ملک کو کسی امکانی بحران سے بچایا جا سکے۔ ان کے مطابق حکومت کے اندر بھی کئی مقتدر حلقے اس پالیسی کی تائید کرتے ہیں۔

اگر یہ محض کسی کالم نویس یا کسی تھنک ٹنیک کے دانشور کی اختراع ہوتی تو اس کو صرف نظر کیا جاسکتا یا اس کو قلم کار کے ذاتی خیالات گردان کر نظر انداز کیا جا سکتا تھا۔ مگر ایک زیرک سفارت کار، جو ہندوستان میں انتہائی مخدوش حالات میں پاکستان کی نمائندگی کر چکا ہو اور عالمی سفارت کاری میں بھی نام کما چکا ہو، کا اس طرح کا مشورہ دینے سے یہی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پس پردہ ضرور کوئی کھچڑی پک رہی ہے۔

جس کا رد عمل دیکھنے کےلیےقاضی صاحب کو میدان میں لایا گیا ہے۔ سفارت کاری یا حکومتی معاملات میں جب بھی کوئی ایسا غیر متوقع یا سخت فیصلہ لینا ہوتا ہے تو ذرائع کے حوالے سے یا کسی ایسے ہی سابق سفارت کار یا فوجی افسر کے ذریعے میڈیا میں اس کی تشہیر کی جاتی ہے۔اگر رد عمل نا موافق ہوا، تو اس کو قلم کار کی ذاتی رائے بتا کر حکومتی افرا اپنا دامن چھڑا تے ہیں۔ دوسری صورت میں اس کو پالیسی کا حصہ بنایا جاتا ہے۔ ریاض محمد کھوکر کی ایک جارحانہ اننگ کے بعد غالباً1997میں قاضی صاحب دہلی میں پاکستان کے سفیر کے بطور وارد ہوگئے۔

ان کی آمد بالکل ایسی تھی کہ جیسے بیٹنگ لائن میں ظہیر عباس یا شاہد آفریدی کے بعد مدثر نظر یا مصباح الحق کی آمد ہو۔ پاکستانی سفارت کاری میں ان کو مسودوں میں الفاظ کا تعین کرنے میں کمال حاصل ہے۔ ان کی دہلی آمد کے ایک سال بعد ہی اٹل بہاری واجپائی کی قیادت میں  بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی)کی پہلی حکومت معرض وجود میں آئی۔ جس وقت واجپائی کی پہلی حکومت 13ماہ بعد پارلیامنٹ میں ایک ووٹ سے شکست سے دوچار ہوئی، تو وہ اس وقت پارلیامنٹ میں سفارت کاروں کےلیےمخصوص گیلری میں موجود تھے۔

چونکہ سفارتی گیلری اور پریس گیلری متصل ہے، مجھے یاد ہے کہ وہ اس کے کنارے پر آکر صحافیوں سے پوچھ کر تصدیق کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ کیا واقعی واجپائی حکومت گر گئی ہے۔ ان کے دور میں واجپائی کا لاہور دورہ، کرگل جنگ اور پھر پاکستان میں نواز شریف کی معزولی و پرویز مشرف کی آمد، آگرہ مذاکرات اور ہندوستانی پارلیامنٹ پر دہشت گردانہ حملہ جیسے اہم واقعہ وقوع پذیر ہوئے۔ہندوستانی  پارلیامنٹ پر حملہ کے بعد ان کو ہندوستان چھوڑنے کا حکم دیا گیا۔ ان ہی کے دور میں حریت کانفرنس میں لیڈروں کے درمیان اختلافات شدید ہوگئے تھے، جو بعد میں اس کی تقسیم کے سبب بن گئے۔

مرحوم عبدالغنی لون، اشرف جہانگیر قاضی کو بھی اس کی ایک وجہ مانتے تھے۔ کھوکھر کے برعکس سیاسی لیڈران کے ساتھ ان کا برتاؤ، روایتی افسرشاہی جیسا ہوتا تھا، جو کئی مواقع پر لیڈروں کو ناگوار گزرتا تھا۔ ان کے دور کا ایک کارنامہ یہ تھا کہ معروف صحافی کرن تھاپر کے ذریعے انہوں نے بی جے پی کے اس وقت کے مرد آہن اور نائب وزیر اعظم لال کشن اڈوانی تک رسائی حاصل کی تھی اور کئی بار کرن تھاپر کی گاڑی میں ان کی رہائش گاہ پر خفیہ ملاقاتیں کی تھیں۔ وہ شاید اڈوانی کے ذریعے ایک بیک چینل بنانے کی کوشش کر رہے تھے، کہ پارلیامنٹ پر حملہ نے اس کو ناکام بنادیا۔ پھر یہ بیک چینل ان کے کسی کام نہیں آیا۔ سب سے پہلے ان کو ہی ملک چھوڑنے کا حکم دیا گیا۔

انہوں نے پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کو مشورہ دیا ہے کہ ان کی آؤٹ آف بکس تجویز پر عمل کرکے، جس طرح واجپائی نے لاہور آکر دنیا کو حیران و پریشان کردیا تھا، اسی طرح وہ بھی دہلی جاکر دنیا کو ششدر کردیں  اور ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ ایک مشترکہ بیان جاری کریں، جس میں ماحولیات کو ناقابل تلافی نقصانات سے بچانے کی خاطر ایک مشترکہ لائحہ عمل کا تعین کرنا اور دہشت گردی کو ختم کرنے کے حوالے سے عہد و پیمان باندھنا، کشمیر پر کسی حل پر بات چیت، جو فریقین کو منظور ہو، میڈیا میں ایک دوسرے کے خلاف پروپیگنڈہ کم کرنا وغیرہ شامل ہیں۔

اس کے علاوہ  ان کی تجاویز میں لائن آف کنٹرول پر اعتماد سازی کے اقدامات، تجارت کی بحالی، سرمایہ کاری اور ایک دوسرے ملکوں میں کانفرنس وغیرہ کا احیاء  کا بھی ذکر ہے۔ یہ معلوم نہیں کہ یہ تجاویز کسی ذریعے سے ہندوستان کو بھیجی گئی ہیں یا نہیں، مگر آثار و قرائن بتا رہے ہیں کہ پاکستان کا پورا زور مذاکرات کے سلسلہ کی بحالی پر لگا ہوا ہے۔ 5اگست کو مودی حکومت نے جس طرح ریاست جموں کشمیر کی اٹانومی کو نہ صرف ختم کیا، بلکہ ریاست ہی تحلیل کی، لگتا ہے کہ اسلام آباد  اب اس کو تقریباً حقیقت حال تسلیم کرنے لگا ہے۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ دنیا کے ممالک نے سرکاری طورپر بہت زیادہ رد عمل نہیں دکھایا، مگر غالباً1990 کے بعد پہلی بار کشمیر کو عالمی میڈیا اور سول سوسائٹی گروپس نے خوب کوریج دی۔ سرکاروں کو چھوڑ کر ان ممالک میں موجود سول سوسائٹی گروپس، خواتین اراکین پارلیامان اور بچوں سے متعلق حقوق کی تنظیموں پر کام کرکے ان کو فعال کیا جاسکتا تھا۔ مغربی ممالک میں یہ ایک مؤثر پریشر گروپ کے بطور کام کرتے ہیں۔ ہندوستان کے ساتھ سعودی عرب اور متحدہ امارت کے تعلقات کا فائدہ اٹھاکر ان ممالک کو پس پردہ ثالثی کے کردار کے لیےآمادہ کیا جاسکتا تھا۔

کیونکہ جب بھی مذاکرات کا سلسلہ شروع ہو، تو بجائے اشرف جہانگیر قاضی کے تجاویز کے، یہ صرف اور صرف جموں و کشمیر کے تنازعہ کے حتمی حل کے سلسلے میں ہی ہونے چاہیے۔ قاضی صاحب کا مزید کہنا ہے کہ  پاکستان کو اپنے اعصاب پر قابو رکھنے کی ضرورت ہے۔ اور اسے تمام محاذوں پر اپنے کام کو صاف کرنا ہوگا۔ استحکام اور خوشحالی کے حصول کے لئے اسے سیاسی، معاشی اور معاشرتی طور پر اپنے آپ کو  تبدیل کرنا ہوگا، تاکہ  دنیا کے سامنے ایک مثبت امیج پیش کر سکے،  جس سے اس کے نقطہ نظر کو دنیا میں وقعت ملے۔ سابق سفارت کار کا کہنا ہے، کہاان میں سے کچھ بھی نہیں ہورہا ہے۔

دوسری طرف ہندوستان کے وزیر خارجہ جے شنکر کا کہنا ہے کہ پاکستان کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ تب ہی ممکن ہے، جب  پاکستان میں موجود مطلوب دہشت گرد  اس کے حوالے کیے جائیں۔ انڈین ایکسپریس اخبار کی طرف سے منعقد ایک تقریب میں خطاب کے دوران اور بعد میں فرانسی اخبار لامونڈکو انٹرویو دیتے ہوئے، جے شنکر نے صاف کیا کہ ہندوستان اب بدل چکا ہے۔ اس کی ترجیحات میں کشمیر سے علیحدگی کا رجحان ختم کرنا اور دہشت گردی کا مؤثر جواب دینا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ دنیا کو جان لینا چاہیے کہ نومبر 2008کے ممبئی حملوں اور اوڑی میں ہوئے حملوں کے سلسلے میں ہندوستان کا رد عمل مختلف تھا۔ اس کے علاوہ انہوں نے کہا کہ پچھلی حکومتوں نے امن کی خاطر ہندوستان کےلیے  پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی اسٹرٹیجک افادیت کو درکنار کر دیا تھا۔ شاید دبے لفظوں میں ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی کشمیر پر ہندوستان  کسی بھی وقت اب کوئی عملی قدم اٹھانے والا ہے۔ ہندوستانی وزیر خارجہ نے تاسف کا اظہار کہا کہ ایک ابھرتی ہوئی طاقت کے ہوتے ہوئے بھی ہندوستان  ابھی تک اپنے سرحدی تنازعات کو سلجھا نہیں پا رہا ہے۔

ہندوستان میں اس وقت اقتدار کے تین ستون یعنی مودی، امت شاہ اور قومی سلامتی مشیر اجیت ڈوبھال کا خیا ل ہے کہ کہ 70سالوں میں یہ پہلا اور آخری موقع آگیا ہے کہ کشمیری عوام اور پاکستان کو باور کرایا جائے کہ ان کی مانگ ناقابل حصول ہے۔اس کے علاوہ ان کا ماننا ہے کہ کشمیر یوں کو اس حقیقت سے رو شناس کروانا ضروری ہے کہ ان کی تحریک یا مانگ کو عالمی سطح پر کوئی پذیرائی حاصل نہیں ہے اور پاکستان بھی ان کی مدد کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔  اس لیے ایسے اداروں اور تنظیموں کے خلاف کارروائی کرنا اور حوصلہ شکنی کرنا ضروری ہے، جو ایسا تاثر دے رہے ہوں۔  دیگر ممالک خاص طور پر پاکستان کی کمزور رگوں یعنی بلوچستان اور گلگت-بلتستان پر ہاتھ ڈال کر، اس کو کشمیر سے باز رکھنا ہے۔اور کسی بھی دباؤ کو خاطر میں لائے بغیر کشمیر پر فورسز کے ذریعے territorial dominance حاصل کرواکے، پاکستان اور کشمیری عوام کا مائنڈ سیٹ تبدیل کروانا ہے۔جس سے ایک طرف پاکستان تائب ہوجائے، اور دوسری طرف کشمیر یو ں پر یہ واضح ہو کہ ہندوستان کے بغیر ان کا مستقبل کہیں اور نہیں ہے۔

اس کے علاوہ ہندوستان  نواز کشمیر ی پارٹیاں نیشنل کانفرنس اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی(پی ڈی پی)کو یہ احساس دلانا ہے، کہ وہ نئی دہلی کو بلیک میل کرنے او ر سیاسی حل پیش کرکے اب او ر سیاست نہیں کرسکتی ہیں  بلکہ ان کو بھی ملک کی دیگر سیاسی پارٹیوں کی طرز پر  صرف  تعمیر اور ترقی کے ایشوپر ہی توجہ مرکوز کرنا پڑے گا۔مگر دوسری طرف کشمیر میں بھی عوام نے یہ تہیہ کر رکھا ہے کہ جس چیز کو مودی اور اس کے حواری ناقابل حصول بنانا چاہتے ہیں وہ اس کوحاصل کرکے ہی دم لیں گے۔ نئی دہلی کے کئی حلقوں میں اعتراف ہے کہ پاکستان یا اس کی فوج کشمیر کی صورت حال کا اس طرح فائدہ اٹھا نہیں رہی ہے جس کا اندیشہ تھا۔

ورنہ حریت کو بے دست و پا کرکے نیز پی ڈی پی اور این سی کو بے وزن کرکے ایک انارکی کا ماحول تیار کرواکے حالات 1989-90کی نہج تک پہنچ چکے ہیں۔آخر کون امن نہیں چاہتا؟  اس کی سب سے زیادہ ضرورت تو کشمیریوں کو ہی ہے۔ اشرف جہانگیر قاضی صاحب سے بس یہی گزارش ہے کہ امن، قدر و منزلت، انصاف و وقار کا دوسرا نام ہے، ورنہ امن تو قبرستان میں بھی ہوتا ہے۔ جن تجاویز پر آپ امن کے خواہاں ہیں، وہ صرف قبرستان والا امن ہی فراہم کر سکتے ہیں۔