خبریں

عشق کیوں قتل کی وجہ بنتا جا رہا ہے؟

 ہندوستان میں جرائم کے اعداد و شمار رکھنے والے سرکاری ادارہ نیشنل کرائم ریکارڈ بیوروکی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق ملک میں محبت میں قتل کے واقعات میں غیر معمولی طور پر28 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

علامتی تصویر، فوٹو: رائٹرس

علامتی تصویر، فوٹو: رائٹرس

نئی دہلی : نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو(این سی آر بی)کی رپورٹ کے مطابق 2001 سے 2017کے درمیان قتل کے واقعات سالانہ 36202 سے گھٹ کر28653 ہوگئے۔ ذاتی رنجش کے سبب ہونے والے قتل میں چار فیصد اور جائیداد کے جھگڑوں میں قتل کے معاملات میں بارہ فیصد کمی آئی لیکن محبت کے معاملے میں قتل کے واقعات میں 28 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

رپورٹ کے مطابق پچھلے 16 برسوں کے دوران محبت کے نام پر مجموعی طور پر قتل کے 44412 واقعات یعنی سالانہ اوسطاً 2776 واقعات پیش آئے۔ این سی آربی کے مطابق محبت میں قتل کے سب سے زیادہ واقعات جنوبی ریاست آندھرا پردیش میں پیش آئے جہاں لو افیئر کی وجہ سے 384 افراد کو ہر سال موت کے گھاٹ اتار دیاگیا۔

گویا ہر روز کم از کم ایک محبوب کو اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنا پڑا۔دوسرا نمبر مہاراشٹر کا ہے جہاں 277 لوگوں کا قتل ہوا۔ اس کے بعد گجرات ہے جہاں 158 افراد قتل کردیے گئے۔ چوتھے نمبر پر پنجا ب ہے جہاں 98 عاشقوں کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑا۔

 تاہم اوسط کے لحاظ سے محبت کے نام پر قتل کے معاملے میں اترپردیش سر فہرست ہے۔ جہاں محبت ہر سال  395 لوگوں کے قتل کا سبب بنی۔ چھتیس گڑھ، ہریانہ، راجستھان، بہار، جھارکھنڈ اور آسام جیسی ریاستوں میں بھی محبت کی وجہ سے بڑی تعداد میں قتل کے واقعات پیش آئے۔

محبت کی وجہ سے قتل کے سب سے کم واقعات مغربی بنگال اور کیرالا میں پیش آئے۔ 2001 سے 2017 کے درمیان مغربی بنگال میں 29 اور کیرالا میں صرف چھ ایسے واقعات پیش آئے۔

ماہرین سماجیات کا کہنا ہے کہ محبت میں قتل کے بڑھتے واقعات کا سبب ہندوستانی سماج میں پائی جانے والی قدامت پسندی اور آزادی کی کمی ہے۔ پیار کرنے کی آزادی سماج میں اب بھی ہر کسی کو حاصل نہیں ہے۔ زندگی کے بہت سارے معاملات کو سماج اب بھی اپنی گرفت میں رکھنا چاہتا ہے۔

ماہرین کہتے ہیں کہ ہندوستان میں گزشتہ ایک دو دہائیوں کے دوران سماجی اور اقتصادی ترقی کی وجہ سے کچھ پابندیوں  میں کمی  واقع ہوئی ہیں۔ مثلاً لڑکیوں کے گھر سے باہر نکلنے، تعلیم حاصل کرنے، ملازمت کرنے کی آزادی ملی ہے۔

 لڑکے لڑکیوں کے ایک دوسرے سے ملنے کے مواقع میں اضافہ ہوا ہے لیکن  مرد اور عورت کے تعلقات کے حوالے سے سماج کی قدامت پرستانہ خیالات میں تبدیلی نہیں آئی ہے۔ اسی طرح ذات پات اور فرقوں کی پابندیاں بظاہر نرم دکھائی تو دیتی ہیں لیکن حقیقت کی دنیا میں یہ ضابطے اب بھی پہلے کی طرح ہی سخت ہیں۔

ماہرین کے مطابق پیار میں قتل کے بھی کئی پہلو ہیں۔ مردوں کی بالادستی والی سوچ آج بھی پوری طرح حاوی ہے اور ایک مرد اس بات کو برداشت نہیں کرسکتا کہ کوئی عورت محبت کی اس کی پیشکش کو ٹھکرا دے اور کسی اور کو اپنا لے۔ ایسے میں وہ اس عورت کو یا اس کے محبوب کو قتل کرنے سے گریز نہیں کرتا۔

ماہرین مزید کہتے ہیں کہ محبت میں قتل کا دوسرا پہلو غیرت کے نام پر یا آنر کلنگ ہے۔ ماں باپ، رشتہ دار، خاندان اکثر یہ برداشت نہیں کرپاتا ہے کہ بچے اپنی زندگی کے بارے میں خود فیصلہ کریں اور ذات، مذہب کے بندھن کو مسترد کردیں۔ بالخصوص لڑکیوں کے کسی دوسری برادری یا فرقہ کے لڑکے سے محبت اور شادی کرنے سے سب کی عزت چلی جاتی ہے۔ ‘عزت‘ بچانے کے خاطرخاندان کے ذریعہ ایسی لڑکیوں کو قتل کردینے کے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے۔

ایک تحقیق کے مطابق 2005 سے 2012 کے درمیان ایسے 44 فیصد قتل انٹر کاسٹ شادیوں کی وجہ سے ہوئے جب کہ 56 فیصد قتل صر ف اس لیے ہوئے کیوں کہ خاندان کو لڑکے یا لڑکی کا اپنا فیصلہ کرنا منظور نہیں تھا۔دہلی، ممبئی کے علاوہ اترپردیش اور راجستھان میں سماجی رویوں کے حوالے سے 2016 میں ایک سروے کیا گیا تھا جس میں حصہ لینے والوں کی اکثریت بین ذات اور بین مذاہب شادیوں کی نہ صرف مخالف تھی بلکہ وہ اسے روکنے کے لیے قانون سازی کے حق میں تھی۔

 اس سروے میں اہم رول ادا کرنے والے جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے پروفیسر امیت تھوراٹ کا کہنا ہے’یہ انتہائی افسوس ناک اور کسی صدمہ سے کم نہیں کہ خواندگی اور تعلیم میں اضافہ کے باوجود قدامت پسندانہ سوچ میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔’

ایک سینئر پولیس افسر نے ٹائمس آف انڈیا کو بتا کہ ان ہلاکتوں کی خاص وجہ لو ٹرائی اینگل اور ناجائز تعلقات ہیں ۔ انہوں نے چھوٹے پیمانے پر غیرت کے نام پر بھی قتل کی بات کہی ۔انہوں نے بتایا کہ 2017 میں 92 افراد کو غیرت کے نام پر قتل کیا گیا جبکہ 2016 میں 71 لوگوں کی جان گئی ۔

جے این یو میں ایسوسی ایٹ پروفیسر پرتیکشا بخشی نے ٹائمس آف انڈیا کو بتایا کہ ، قتل کے یہ اعداد وشمار بتاتے  ہیں کہ ہمارے  جنسی تشدد کس طرح عام ہو چکے ہیں ۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس کے پیچھے سماجی اور سیاسی اسباب کارفرما ہیں مثلاًذات پات ،مذہب ،سماجی درجہ بندی جو کہ کسی شخص کو اپنے پسند کے پارٹنر چننے سے روکتا ہے کیوں کہ اس شخص کا ایسا کرنا ملک اور کمیونٹی کی شان کے خلاف سمجھا جاتا ہے۔

(ڈی ڈبلیو اردو کے ان پٹ کے ساتھ)