فکر و نظر

ایودھیا: مسجد کو گرا کر وہاں مندر بنانا امن کاراستہ نہیں ہے

اب جب ‘ قانون کے ہتھوڑے ‘سے مسجد کو گرایا جائے‌گا، اور اس کی تصویریں میڈیا چینلوں اور اخباروں میں پوری کمنٹری کے ساتھ نشر کریں‌گے، تب کیاہوگا؟ کئی چینل ہیں، جو اس کو ‘حملہ آوروں ‘ کی پوری تاریخ کے ساتھ پیش کریں ‌گے۔تب کیا اس کا جشن نہیں منے‌گا؟ کیا تب یہ سب وہاٹس ایپ پر نہیں چلے‌گا؟

 فوٹو : پی ٹی آئی

فوٹو : پی ٹی آئی

ایودھیا مسئلے پر سپریم کورٹ کا فیصلہ اتنے تضادات سے پر ہے کہ انصاف کی کسی بھی دلیل سے اس کو منظور نہیں کیا جا سکتا۔ پھر بھی، اس کو صرف اس بنیاد پرمنظور کرنے کی اپیل کی جا رہی ہے کہ ہندو-مسلم اتحاد اورہم آہنگی قائم  رہے اور مندر-مسجدکے جس تنازعے نے پچھلے 30 سالوں سے ہندوستان کی سیاست پر قبضہ جمع رکھا ہے، اس کا خاتمہ ہواور ملک ترقی کی راہ پر آگے بڑھے۔ سپریم کورٹ نے بھی اپنے حکم میں پیراگراف 799 پیج 922 پر کہا بھی ہے کہ بڑے پیمانے پر امن بنائے رکھنے کے مدنظر ہائی کورٹ [الٰہ آباد] کی زمین کو تین حصوں میں بانٹے جانےکا فیصلہ عملی نہیں ہے۔ اور اس سے کسی بھی پارٹی کا مفاد نہیں سدھے‌گا اور نہ ہی اس سے مستقل امن اور تسلی کا جذبہ آئے‌گا۔

 اگر واقعی میں ایسا ہوتا ہے تو پھر اس کو ضرور منظور کیا جانا چاہیے۔لیکن اصل میں ایسا ہوگا، ایسا لگتا تو نہیں ہے۔اس کی اہم وجہ ہے ؛ سپریم کورٹ کے پاس یہ معاملہ اپیل کے طور پر زمین کاٹائٹل طے کرنے کے لئے آیا تھا، لیکن ٹائٹل سوٹ میں زمین جیتنے والے کسی ایک فریق کو سونپنے کی بجائے اورزمین کی تقسیم کو ناقابل عمل بتاکر، سپریم کورٹ نے ٹرسٹ کےطور پر مندر تعمیر کی ساری باگ ڈور متنازعہ  اور ساری مقبوضہ زمین (جو اس سوٹ کاحصہ تھی ہی نہیں)ایک ایسی حکومت کو سونپ دی ہے، جو اس کی سیاست کے ذریعے ہی اقتدار میں آئی ہے۔

اور رام مندر تعمیر جس کے منشور کا حصہ ہے۔ اتناہی نہیں، بابری مسجد کوگرائے جانے میں اس کے بڑے رہنماؤں کا کردار بہت صاف ہے، جس کو لےکر وہ مجرمانہ معاملے میں ملزم بھی ہیں۔ سپریم کورٹ تو فیصلہ سناکر الگ ہٹ گیا، اب آگے تو مندر بنانے کے سارے کام ایک ٹرسٹ کے ذریعے مودی حکومت کو ہی دیکھنا ہے۔ ٹرسٹ کیسا ہو اس بارے میں نرموہی اکھاڑا کو جگہ دینے سے زیادہ کورٹ نے کچھ نہیں کہا۔ اس ٹرسٹ کے ذریعے 2022 کے اتر پردیش کے انتخابات اور 2024 کے لوک سبھا انتخابات کے لئےمندر-مسجد کی سیاست کو ایک نیا کلیور مل جائے‌گا۔

 فرق صرف اتنا ہوگا، جہاں پہلے اوتار میں مسجد کو غیرقانونی طورپر گراکرگزشتہ تیس سالوں سے یہ سیاست ہو رہی تھی، وہیں 2.0 اوتار میں اب وہ قانونی طورپر مسجد کو تباہ کر اور اس جگہ پر شاندار مندر بناکر ہوگی۔ہندوتوا کی سیاست کرنے والے کھل‌کر کہہ رہے ہیں-سپریم کورٹ نے ہمارے ووٹ کو صحیح ٹھہرایا۔ اور جیسا رام مندر تحریک کے سب سے بڑے رہنما رہے لال کرشن اڈوانی نے کہا، ‘میرے رخ کہ تصدیق ہوئی۔ ‘

اور ایسا ہو بھی کیوں نہیں؟ ایودھیا معاملے میں اپنے فیصلے کے پیراگراف 798 پیج 922 پر سپریم کورٹ نے یہ منظور کیا ہے کہ مسجد سے مسلمانوں کا قبضہ اور عبادت کا حق 22 اور 23 دسمبر 1949 کی درمیانی رات تب چھینا گیا، جب اس کو ہندو دیوتاؤں کی مورتیاں قائم کر کے ناپاک کر دیا گیا۔اس وقت یہ قانون کے تحت نہیں بلکہ ایک سوچی-سمجھی چال کے تحت کیا گیا تھا۔اسی پیراگراف کے آخر میں انہوں نے یہ بھی قبول کیا ہے کہ جب دعوے عدالت میں زیرالتوا تھے، تب ایک سوچے-سمجھے طریقے سے عبادت کے ایک عوامی ڈھانچے کو ڈھایا گیا۔اس کے ساتھ ہی مسلمانوں کو 450 سال پہلے بنائی گئی مسجد سے غیر قانونی طریقے سے محروم کیا گیا۔

اس نتیجہ پر پہنچنے کے باوجود سپریم کورٹ نے مسجد کو اس کی پرانی شکل میں لوٹانے کے بجائے اس کا مکمل وجود ہی مٹانے کا حکم دے دیا۔

سپریم کورٹ(فوٹو : رائٹرس)

سپریم کورٹ(فوٹو : رائٹرس)

قانونی طور پر مسجد گرائے جانے پر بی جے پی کیا کہنے والی ہے اس کا اشارہ بی جے پی کے جنرل سکریٹری اور انڈیا فاؤنڈیشن کے ڈائریکٹر رام مادھو کے ذریعےانڈین ایکسپریس میں 10 نومبر کو ‘رام ٹیمپل اسٹرگل از اوور، لیٹ اس ہوپ فار دی ہارمنی‘عنوان سے لکھے مضمون سے مل جاتا ہے۔ اس مضمون میں وہ بابری مسجد گرائے جانے کو نہیں بلکہ اس کو بنائے جانے کوغارت گری اور ہندوؤں کے مقدس مذہبی کو مقامات کو خستہ کرنے والا کام بتا رہے ہیں۔یہاں تک کہ اس مضمون میں انہوں نے مہاتما گاندھی کی 150 ویں سالگرہ پر رام جنم بھومی کو ان کے خوابوں کے رام راجیہ سے جوڑ دیا۔

 مطلب جب بابری مسجد کو سرکاری طور پر گراکر مندر کے لئے ہموار زمین میں تبدیل کیا جائے‌گا، تب اسے ہندو مذہبی مقام پر حملہ کرنے والے حملہ آور (یعنی مسلمان بابر)کی نشانی کو مٹانے والا بتایا جائے‌گا۔مطلب جب شاندار مندر بن جائے‌گا اور شری رام کو مودی جی کی موجودگی میں ان کے مبینہ پیدائشی مقام پر بٹھا دیا جائے‌گا، تب ان کو رام کے پیدائشی مقام کوحملہ آور کے چنگل سے آزاد کرانے والے صدی کے سب سے بڑے مہانایک کے طور پر پیش کیاجائے‌گا۔

 جب غیرقانونی طورپر جمع ہوئی  بھیڑ نے ‘ہندوتوا کے ہتھوڑے ‘سے مسجد کو گرایاتھا، تب صرف مسلمانوں کو نہیں بلکہ  ملک کے ہر انصاف پسند لوگوں کو امید تھی، ایک دن قانون سب ٹھیک کر دے‌گا ؛ آخرکار انصاف کی جیت ہوگی۔ لیکن، اب جب ‘ قانون کے ہتھوڑے ‘سے مسجد کو گرایا جائے‌گا، اور اس کی تصویریں میڈیا چینلوں اور اخباروں میں پوری کمنٹری کے ساتھ نشر کریں‌گے، تب کیاہوگا؟ کئی چینل ہیں، جو اس کو ‘حملہ آوروں ‘ کی پوری تاریخ کے ساتھ پیش کریں ‌گے۔تب کیا اس کا جشن نہیں منے‌گا؟ کیا تب یہ سب وہاٹس ایپ پر نہیں چلے‌گا؟

 آئین نافذ ہونے کے بعد، ایک مذہب کے عقیدہ کی نشانی کو زمیں دوز کر اس پردوسرے مذہب کے عقیدہ کی نشانی قائم کرنے سے مستقل امن آئے‌گا اور لوگوں کو تسلی ملے‌گی ایسی غلط فہمی نقصاندہ ثابت ہوگی۔ عقیدہ کی ایک نشانی کو گراکر اس کے اوپر عقیدہ کی  دوسری  نشانی  کھڑا کرنے سےدنیا میں کبھی بھی کہیں بھی امن نہیں آیا۔ اور جس مستقل امن اورتسلی کے نام پر ہمیں اس فیصلے کو منظور کرنے کے لئے تیار کیا جا رہا ہے، وہ ایسے تو کبھی نہیں آئے‌گا۔

 کم سے کم سپریم کورٹ کے ہمارےدانشور جج تو اس غلط فہمی کا شکار نہیں ہوسکتے۔ بہتر ہوگا کسی اور کا انتظار کرنے کی بجائے سپریم کورٹ اپنے فیصلے پر خود ہی نظرثانی کرے۔ویسے بھی جس ایودھیا ایکٹ، 1993 کی دفعہ 6 اور 7 کے تحت مرکزی حکومت کو ٹرسٹ بناکر مندر تعمیر کے لئے منصوبہ  بنانے کو کہا گیا ہے، وہ سمجھ سےباہر ہے۔ کیونکہ ان دفعات کے تحت مرکز اسی زمین کے لئے ٹرسٹ بنا سکتا ہے،جو مذکورہ قانون کی دفعہ 3 کے تحت اس نے حاصل کی ہے اور جس کا مالکانہ حق اس کے پاس ہے۔

 اب جو زمین نہ تو اس نے حاصل کی ہے نہ ہی جس کا مالکانہ کسی کورٹ نے اس کودیا ہے ؛ سپریم کورٹ نے بھی نہیں، تو اس زمین کے انتظام وانصرام کے لئے دفعہ 7 کے تحت اپنی طاقتوں کا استعمال وہ کیسے کر سکتا ہے؟ اس پر قانونی جان‌کار ہی زیادہ روشنی ڈال سکتے ہیں۔آخر میں  ایک بات ضرور کہنا چاہوں‌گا کہ پچھلی کئی دہائیوں میں اس مدعے سےہندوؤں کا عقیدہ اور جذبہ اتنا زیادہ جڑ گیاہے کہ اس کا حل ضروری ہے۔ اور یہ بھی صحیح ہے کہ یہ مسلمانوں کے لئے ہندوؤں کی طرح کوئی بڑا تیرتھ مقام نہیں ہے۔ مگر ان کے لئے بھی ان کی مذہبی آزادی کا مدعا تو بن ہی گیا۔

 ایسے میں، بہتر تو یہی ہوتا کہ دونوں مذہب کے لوگوں کو اس حل نکالنے کے لئے خاطر خواہ وقت دیا جاتا۔ اور اس کو ایک طے شدہ وقت  میں طے کرنا ہی ایسا کوئی دباؤ  نہیں رکھا جاتا۔ آخرکار یہ دو مذہبوں کے عقیدہ سے جڑا سوال تھا۔ بہتر ہوتا وہ دونوں ہی اس کو سلجھاتے۔ جو مدعا 1856-57 یعنی برطانوی حکومت کے وقت سے  چل رہا ہے، وہ تھوڑا وقت اور رک جاتا تو کون سا طوفان آ جاتا۔ اس کافوری  حل کس کو اور کیوں چاہیے تھا؟

کیونکہ، جب دونوں سماج کے لوگ بیٹھ‌کر اس کا کوئی حل نکالتے، تبھی مستقل امن اور تسلی کا جذبہ موجود ہونے اور اس پر سیاست ختم ہونے کی امید کی جا سکتی تھی۔