فکر و نظر

بابری مسجد کومنہدم کرنے والوں کو ہیرو کیوں بنایا جا رہا ہے؟

ہندوستان میں بھی  بابری مسجد گرانے والے لوگ  شاید اس وقت اپنے آپ کو ونر محسوس کر رہے ہیں۔ ایک طرف 27 سال کا عرصہ گزر جانے کے باوجود بابری مسجدگرانے اور اس  معاملے میں مسلمانوں کا قتل کرنے والے لوگوں کو اب تک کوئی سزا نہیں ہو  سکی  ہے اوردوسری طرف   سپریم کورٹ کے ذریعہ انہی لوگوں کو بابری مسجد کی متنازعہ  جگہ پر  مندر بنانے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ ان دونوں وجہوں سے ہندوستان میں بابری مسجد گرانے میں شامل تنظیموں اور اس سے جڑے لوگوں  کا حوصلہ کافی بڑھا ہے اورنتیجتاً ہندو مہاسبھا جیسی ہندو  نظریاتی تنظیم ان  لوگوں کو  ہیروبنا کر پیش کر رہی ہے۔

فوٹو : ویکی پدیا/رائٹرس

فوٹو : ویکی پدیا/رائٹرس

ہندوستان میں سپریم  کورٹ کے ذریعہ   بابری مسجد کے متنازعہ  مقام  پر رام مندر بنائے جانے کی اجازت دیےجانے کے بعددائیں بازو کی تنظیم  ہندو مہاسبھانے حال  ہی میں وزیر اعظم نریندر مودی  کو ایک خط لکھا ہے اور مانگ کی ہے کہ  بابری مسجد  گرانے والوں کو مجاہدین آزادی کی طرح  ‘مذہبی مجاہدین’ کا درجہ دیا جائے اور انہیں ماہانہ پنشن سمیت  دوسرے  سرکاری مراعات  سے نوازا جائے ۔ساتھ ہی اس  مہم  کےدوران مارے جانے  والے سبھی ‘رام بھکتوں’ کو’شہید’ کا  رتبہ  دیا جائے۔ انہوں نے  یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ  ان کے خلاف چل رہے سارے مقدمے ہٹا لئے جائیں۔

غور طلب ہے کہ بابر ی مسجد گرائے جانے کی وجہ سے ہندوستان میں  رونما ہوئے ہندو مسلم فسادات میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ مارے گئے تھے ۔ ساتھ ہی حال میں ہی سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں  بابری مسجد گرائے جانے کو ایک ‘غیر قانونی’عمل قرار دیا ہے  اور اسی ایک ‘غیر قانونی’کارروائی  جس کی وجہ سے ہزاروں لوگوں نے اپنی جانیں گنوائیں‘کو انجام دینے والے لوگوں کو ہندو مہاسبھا نے انعامات سے نوازنے کی مانگ کی ہے اور ان کے اس کام کو فخریہ انداز میں بیان کرتے ہوئے انہیں ہیرو بنانے کی کوشش کی ہے۔

تاریخ  گواہ ہے کہ جب جب شر پسند اور فتنہ پرست لوگوں  کو سیاسی سرپرستی  حاصل ہوتی ہے اور ان کے خلاف قانونی کارروائی نہیں ہوتی تو وہ کھلے طور پر اپنے مجرمانہ فعل کو فخر کے ساتھ بیان کرتے  ہیں۔ اسی طرح کے ایک واقعے کا ذکر یہاں مقصود ہے۔

1960 کے  زمانے میں جنوب مشرقی ایشیا  کے ملک  انڈونیشیا  میں کمیونزم کے بڑھتے اثرات کو دیکھ کر   دائیں بازو کی  ملکی جماعتوں  اور ساتھ ہی مغربی ممالک کی پریشانی بڑھتی جا رہی تھی ۔ اس کے پیش نظرمغربی  طاقتوں کی مدد سے انڈونیشیا میں فوجی اور حکومتی افراد نے کمیونزم کے حامیوں  کے خلاف منصوبہ تیار کیا اور ان کی کوششوں سے  وہاں بڑی تعداد میں کمیونسٹ   ، اباگن نسل کے لوگ اور چین سے آکر بسے لوگوں  کا قتل عام کیا گیا۔ انہیں زندہ جلایا گیا اور ان کے گھر اجاڑے گئے۔ایک اندازے  کے مطابق 1965-66کے بیچ ہوئے اس قتل عام میں5سے 10 لاکھ تک لوگ مارے گئے۔

اس  واقعے کے تقریباً40سال بعد 2005 میں  جوشوااوپن ہائمر (Joshua Oppenheimer) نامی ایک امریکی  فلمساز کی ملاقات ان جرائم پیشہ افراد (Gangsters)سے ہوتی ہے  جنہوں نے انڈونیشیا کی فوج کے  ساتھ مل کر  کمیونسٹ اور دوسرے  لوگوں  کے قتل میں حصہ لیاتھا۔ وہ  لوگ  جوشوااوپن ہائمر سے فخریہ انداز میں اپنے خونی کارناموں کی داستانیں  سناتے  ہیں  اوران کے کہنے پر  اپنے کارناموں کی منظر کشی(Re-enactment)کرنے   کے لئے بھی تیار بھی ہو جاتے ہیں۔الغرض  وہ  لوگ کچھ غیر پیشہ ورانہ ایکٹرز کی مدد سے  قتل  و غارت گری کی منظر کشی کرتے ہیں اور جوشوا  اوپن ہائمر انہیں اپنے کیمرے   میں ریکارڈ  کرکے ایک  ڈاکیومنٹری منظر عام پر لاتا ہے جس کا نام ‘ایکٹ آف کلنگ[Act o f  Killing]’ہے۔

اس ڈاکیومنٹری میں  جرائم پیشہ  افراد بڑے بے فکر انداز میں ان سب خونی اور دلخراش  واقعات کی منظر کشی کرتے ہیں اور بتاتے ہیں  کہ کیسے  وہ گھروں میں آگ لگاکر  کمیونسٹ حامی لوگوں  کو زندہ جلا دیا کرتے تھے اور وہ کس کس طریقے سے  ان لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارتے تھے  اور انسانی جانوں کی بے حرمتی کرتے تھے۔اسی درمیان وہ ایک ایسے ہی بے حد غیر انسانی  طریقے کا ذکر کرتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ  ایک ٹیبل  کے نیچے  وہ کسی معصوم انسان کو دبادیتے تھے اور وہ اس ٹیبل پر بیٹھ کر گانے گاتے اور  ہنسی مذاق کرتے تھے ۔

آخر ایسا کیوں ہوا کہ اس قدرغیر انسانی  واقعات انجام دینے کے باوجود ان دجال صفت انسانوں کو کوئی پرواہ  نہیں ہوا اور انہوں نے قابل فخر انداز میں کیمرے کے سامنے آکر اپنے ظالمانہ کارناموں کو بیان کیا؟  ایسااس لئے کیوں کہ نہ انہیں کسی قانون کا ڈر تھا اور نہ خوف  نیز  ا ن کے خیر خواہوں میں اعلیٰ سیاسی اور فوجی افسران شامل تھے  جو ہروقت  کسی بھی طرح کی کارروائی  سے ان کو بچانے کے لئے تیار  تھے۔

فلم میکر جوشوا اوپن ہائمر جب عادل ذوالقدری نامی گینگسٹر سے  کہتا ہے کہ ویانا کنونشن کے مطابق ان  کے کاموں کو ‘جنگی جرم’ (War Crime) قرار دیاجائے گا تو اس پر عادل ایک کڑوی تاریخی سچائی کو بیان کرتے ہوئے کہتا ہے:‘‘جنگی  جرائم  کی تعریف ونرز  کے ذریعہ متعین کی  جاتی ہے۔ میں   ونر  ہوں اور اس لئے میں اپنی[ایک الگ ] تعریف  خود متعین کر سکتا ہوں۔‘‘

ہندوستان میں بھی  بابری مسجد گرانے والے لوگ  شاید اس وقت اپنے آپ کو ونر محسوس کر رہے ہیں۔ ایک طرف 27 سال کا عرصہ گزر جانے کے باوجود بابری مسجدگرانے اور اس  معاملے میں مسلمانوں کا قتل کرنے والے لوگوں کو اب تک کوئی سزا نہیں ہو  سکی  ہے اوردوسری طرف   سپریم کورٹ کے ذریعہ انہی لوگوں کو بابری مسجد کی متنازعہ  جگہ پر  مندر بنانے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ ان دونوں وجہوں سے ہندوستان میں بابری مسجد گرانے میں شامل تنظیموں اور اس سے جڑے لوگوں  کا حوصلہ کافی بڑھا ہے اورنتیجتاً ہندو مہاسبھا جیسی ہندو  نظریاتی تنظیم ان  لوگوں کو  ہیروبنا کر پیش کر رہی ہے۔

اس بات میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ بابری مسجد گرائے جانے کی مہم میں لال کرشن اڈوانی اور کلیان سنگھ سمیت بر سر اقتدار جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے کئی  لیڈران شامل تھے  اور اس معاملے میں ان کے خلاف مقدمے بھی چل رہے ہیں لیکن اس کے باوجود  یہ لوگ بی جے پی  میں ہیرو مانے جاتے ہیں۔

بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ  ہندوستان میں شر  پسندوں اور فرقہ پروستوں  کو ہیرو بنانے کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ گزشتہ کچھ برسوں میں اس طرح کے لوگوں کو عزت و تکریم سےنوازے جانے کے کئی واقعات  سامنے آچکے ہیں۔ بلندشہر فرقہ ورانہ تشددجس میں ایک انسپکٹر سمیت دو لوگوں کی موت ہو گئی تھی‘اس سے وابستہ سات ملزمین اگست ماہ  میں جب ضمانت پر رہا ہوئے  تو ان کے حامیوں کے ذریعہ بھارت ماتا کی جئے اوروندے ماترم کے نعروں کے ساتھ ان کا استقبال کیا گیا ۔ تشدد کے ان ملزمین کے گلے میں پھولوں کی مالائیں پہنائی گئیں اور اس موقع سے  ایک دعوت کا بھی انعقاد کیا گیا۔خبروں کے مطابق  ان میں شکھر اگروال نامی ایک شخص بی جے پی سے وابستہ ہے ۔

اسی طرح  جولائی 2018میں ہندوستان کے مشرقی صوبے جھارکھنڈ میں  ہجومی تشدد کے  آٹھ  سزا یافتہ  مجرم  جب جیل سے باہرآئے تو مرکزی وزیر جینت سنہا نے پھولوں کی مالا پہنا کر ان کا خیر مقدم کیا اور ان کے ساتھ کھڑے ہو کر تصویر کھنچوائی۔

یہ  سارے واقعات ہندوستان میں جمہوریت کے چہرے پر بدنما داغ ہیں۔ کبھی عدالتی کارروائی میں دیر  ہونے کی وجہ سے تو کبھی سیاسی سر پرستی حاصل ہونے کی وجہ سے  شرپسند اور فرقہ پرست  لوگوں کے حوصلے کافی بڑھتے نظر آرہے ہیں اور دائیں بازو کی تنظیمیں اور ان سے وابستہ لوگ  ان کو ہیرو بنانے کی مہم میں جٹی ہوئی ہیں جوکہ جمہوریت کے سبھی اداروں کے لئے ایک بہت بڑا چیلنج  ہے۔ اگر اس کو بروقت نہیں روکا گیا تو ایک بات  طے ہے کہ اسی  طرح فرقہ پرست اور فتنہ پسند لوگوں کے دلوں سے قانون کا ڈر ختم ہوتا رہے گا اور ان کو ہیرو  بنائے جانے کا سلسلہ  اور تیز ہوتا جائے  گا  ۔