خبریں

منی پور اور جموں کشمیر میں درج ہو ئے یو اے پی اے کے سب سے زیادہ معاملے

راجیہ سبھا میں وزارت داخلہ کی جانب سے بتایا گیا کہ سال 2017 میں غیرقانونی سرگرمیوں کی  روک تھام سے متعلق قانون یو اے پی اے کے تحت سب سے زیادہ  گرفتاریاں اتر پردیش میں ہوئیں۔

فوٹو: پی ٹی آئی

فوٹو: پی ٹی آئی

نئی دہلی: نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو(این سی آربی)کے اعداد وشمار کے مطابق 2017 میں یو اے پی اےکے تحت  سب سے زیادہ 35 فیصد معاملے میں منی پور میں درج ہوئے ہیں۔دی  ہندوکی رپورٹ کے مطابق ،وزارت داخلہ کی جانب سے  دیے گئےاین سی آربی کے یہ اعدادو شمار پچھلے ہفتے راجیہ سبھا میں پیش کئے گئے۔ اس میں یہ بھی بتایا گیا کہ اس قانون کے تحت سب سے زیادہ  گرفتاریاں اتر پردیش میں ہوئیں۔

2017 میں منی پور میں یو اے پی اے کے 330 معاملے درج ہوئے، جن میں 352 لوگ گرفتار ہوئے۔ دوسرے نمبر پر جموں کشمیر رہا، جہاں ایسے 156 معاملے درج ہوئے، جو کل اعداد وشمار کا 17 فیصد ہے۔ تیسرے مقام  پرآسام (133)رہا، جہاں یو اے پی اے کے ملک  بھر میں درج کل معاملوں کے14 فیصدی کیس درج ہوئے۔اس کے  بعد اتر پردیش میں 109 معاملے (12 فیصدی)اور بہار میں 52 معاملے (5 فیصدی) درج ہوئے۔

یو اے پی اے کے تحت جانچ ایجنسی گرفتاری کے زیادہ سے زیادہ 180 دن بعدچارج شیٹ  داخل کر سکتی ہے۔ یہ مدت عدالت کی اجازت سے اور بڑھائی جا سکتی ہے۔ اس قانون کے تحت سب سے بڑی سزا، سزائے موت  اور عمر قید ہے۔واضح ہو کہ این سی آربی نے اب تک سال 2018 کی کرائم  رپورٹ جاری نہیں کی ہے۔

راجیہ سبھا میں دیے گئے ڈیٹا کے مطابق، اتر پردیش میں یو اے پی اے کے 12 فیصدی معاملے ہی درج ہوئے ہیں، لیکن سب سے زیادہ  گرفتاریاں یہیں ہوئی ہیں۔اس قانون کے تحت سال 2017 میں کل 1554 لوگوں کو گرفتار کیا گیا، جس میں سے تقریباً ایک چوتھائی 382 اکیلے اتر پردیش میں گرفتار ہوئے۔ اس کے بعد آسام میں 374 منی پور میں 352 جھارکھنڈمیں 57 اور جموں کشمیر میں35 لوگوں کویو اے پی اے کے تحت گرفتار کیا گیا۔

یو اے پی اے قانون کے اصولوں کے مطابق، جانچ ایجنسی کے ذریعے رابطہ کئے جانے کے سات دن کے اندر وزارت داخلہ  کے متعلقہ افسر یا ریاستی سرکار کو چارج شیٹ دائر کرنے کی اجازت دینی ہوتی ہے۔وزیر جی کشن ریڈی نے راجیہ سبھا میں تحریری جواب میں بتایا، ‘این سی آربی سے موصول جانکاری کے مطابق سال 2015 2016 اور 2017 میں یو اے پی اے کے تحت 1128، 999 اور 1554 لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔’ سی پی ایم رکن پارلیامان  ایلم رام کریم کے سوال کے جواب میں انہوں نے یہ جانکاری دی۔

حالاں کہ ریڈی نےیہ نہیں بتایاکہ یو اے پی اے کے تحت گرفتار کتنے لوگ پانچ سال سےزیادہ وقت  سے جیل میں ہیں۔ انہوں نے کہا، ‘سرکارکی  دہشت گردی کو لے کرزیرو ٹالرنس کی پالیسی  ہے۔ سرکار دہشت گردی  سے جڑے معاملوں یا مذہب کی بنیاد پرگرفتار کئے گئے لوگوں کے ڈیٹا کاتجزیہ  نہیں کرتی ہے۔’گزشتہ اگست میں ہی پارلیامنٹ  میں یواے پی اے ترمیم بل پاس  کیا گیا ہے، جس کے تحت کسی شخص  کودہشت گرد قرار دیا جا سکتا ہے۔ 1967 میں عمل میں آئے اس قانون میں پہلی بار 2004 میں ترمیم کی  گئی  تھی۔ اس کے بعد سال 2008 اور 2013 میں بھی ترمیم کی گئی ۔