خبریں

مخالفت کے باوجود راجیہ سبھا نے ٹرانس جینڈر بل کو منظوری دی

 راجیہ سبھا میں بحث کے دوران ترنمول کانگریس، ٹی آر ایس، کانگریس اور بی ایس پی سمیت مختلف جماعتوں کے رہنماؤں نے ٹرانس جینڈر بل کو سلیکٹ کمیٹی کے سامنے بھیجنےکی مانگ کی، جس کو خارج کر دیا گیا۔گزشتہ  اگست مہینے میں پارلیامنٹ  کے پچھلےسیشن کے دوران لوک سبھا میں اس کو منظور کیا جا چکا ہے۔

(علامتی تصویر : پی ٹی آئی)

(علامتی تصویر : پی ٹی آئی)

نئی دہلی : اپوزیشن  سمیت سول سوسائٹی  کی مختلف تنظیموں  کی مخالفت کےباوجود ٹرانس جینڈر لوگوں کو سماج کے مین اسٹریم  میں لانے اور ان کے مختلف حقوق کی حفاظت کرنے کے مقصد سے لائے گئے ٹرانس جینڈر شخص (حقوق کا تحفظ) بل 2019 کوپارلیامنٹ کی منظوری مل گئی۔ راجیہ سبھا میں بحث کے بعد ٹرانس جینڈر(حقوق کے تحفظ)بل 2019 کو صوتی ووٹ  سے منظوری دے دی گئی۔ لوک سبھا گزشتہ اگست میں پارلیامنٹ  کے پچھلے سیشن کے دوران اس بل کو منظور کر چکی ہے۔

حالانکہ بل پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے تروچی شیوا نے کہا کہ اس بل میں ‘ٹرانس جینڈر’ کی وضاحت، ٹرانس جینڈر ہونے کے کلکٹر سے تصدیق نامہ حاصل کرنےکا عمل، عوامی مقامات پر ان کو ذلیل کرنے اور ان کے جنسی استحصال سے متعلق اہتمام نامکمل ہیں۔ شیوا نے ٹرانس جینڈر کمیونٹی کے لوگوں کے ذریعے ملک گیر تحریک چلائے جانےکا ذکر کرتے ہوئے حکومت سے اس بل کو سلیکٹ کمیٹی کے پاس بھیجنے کی مانگ کی۔ انہوں نے ٹرانس جینڈر لوگوں کے لئے تعلیم اور نوکریوں میں دو فیصد ریزرویشن دینے کا مشورہ بھی دیا۔

 ترنمول کانگریس کے ڈیریک او براین، ٹی آر ایس کے کے کیشو راؤ، کانگریس کےآنند شرما اور بی ایس پی کے ستیش چندر مشرا نے بھی شیوا کے مشورے سے اتفاق کا اظہارکرتے ہوئے اس کو سلیکٹ کمیٹی کے سامنے بھیجنے کی مانگ کی۔ حالانکہ شیوا کی  اس تجویز کو ایوان میں ہوئے ووٹ تقسیم کی بنیاد پر 55 کے مقابلے 74 ووٹ سےخارج کر دیا گیا۔

 ایوانِ اعلیٰ میں بل پر بحث کا جواب دیتے ہوئے سماجی انصاف اور تفویض اختیارات وزیر تھاورچند گہلوت نے کہا کہ بل میں پارلیامنٹ  کی مستقل کمیٹی کی زیادہ تر سفارشوں کو شامل کیا گیا ہے۔ انہوں نے اس بل کو غور کرنے کے لیے سلیکٹ کمیٹی کے سامنے بھیجنے کے حزب مخالف کے ممبروں کے مشورہ کو یہ کہتے ہوئے نامنظور کیا کہ سلیکٹ کمیٹی کے سامنےانہی بلوں کو بھیجا جاتا ہے جو مستقل کمیٹی میں نہیں بھیجے جاتے ہیں۔

 گہلوت نے کہا کہ مستقل کمیٹی پہلے ہی اس بل پر غور کر چکی ہے۔ اس لئے اس کو سلیکٹ کمیٹی کے پاس بھیجنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔حالانکہ گہلوت نے ٹرانس جینڈر کمیونٹی کے لوگوں کے حقوق کو یقینی بنانے اورسماجی تفریق  سے ان کو بچانے کے لئے ممبروں کے ذریعے پیش مشوروں کو اس کو قانون کے طور پر منظور کرنے کے لئے بنائے جانے والے اصولوں میں شامل کرنے کی کوشش کرنےکی یقین دہانی کرائی۔ انہوں نے کہا کہ اس بل کے منظور ہونے سے ٹرانس جینڈر کمیونٹی کے مفادات کی حفاظت ہوگی۔

وزیر نے کہا کہ اس طبقے کے لئے تعلیم کے حق، صحت کے حق اور ان کے فائدے کولےکر کئی قدم اٹھائے جا رہے ہیں۔ گہلوت نے کہا کہ ٹرانس جینڈر لوگوں کے خلاف جرم کرنے والوں کے لئے سزا کا اہتمام کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بل میں، ٹرانس جینڈرلوگوں کے مفادات کی حفاظت کے لئے قومی کونسل کی تشکیل کرنے کا انتظام کیا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ اس بل میں ٹرانس جینڈر اشخاص کے سماجی، اقتصادی اور تعلیمی خودمختاری کے لئے ایک کام نظام دستیاب کرانے کا اہتمام کیا گیا ہے۔

قابل ذکر ہے کہ مرکزی کابینہ نے 10 جولائی کو ٹرانس جینڈر شخص (حقوق کی حفاظت)بل 2019 کو منظوری دی تھی۔گہلوت نے کہا کہ اس بل کا مقصد حاشیے پر کھڑے اس طبقے کے خلاف تفریق اور بد سلوکی ختم کرنے کے ساتھ ہی ان کو سماج کے مین اسٹریم  میں لانے سے ٹرانس جینڈراشخاص کو فائدہ پہنچے‌گا۔ اس سے اجتماعیت کو بڑھاوا ملے‌گا اور ٹرانس جینڈر شخص سماج کے مین اسٹریم  سے جڑ‌کر سماجی ترقی میں اپنا اہم کردار نبھا سکیں‌گے۔

 سماجی انصاف اور تفویض اختیارات وزیر نے کہا کہ بل کے مقصد اور اسباب سےہی واضح ہے کہ ٹرانس جینڈر کمیونٹی، سماج میں حاشیے پر ہے، کیونکہ وہ ‘مرد’ یا ‘خاتون’ جنسی گروہ میں فٹ نہیں ہوتے ہیں۔ ٹرانس جینڈر کمیونٹی کو سماجی بائیکاٹ سے لےکرامتیازات، تعلیمی سہولیات کی کمی، بےروزگاری، طبی سہولیات کی کمی جیسے مسائل کاسامنا کرنا پڑتا ہے۔انہوں نے کہا کہ عدالت  نے قومی قانونی خدمات اتھارٹی بنام ہندوستان یونین کے معاملے میں 15 اپریل 2014 کو دئے اپنے حکم میں دیگر باتوں کے ساتھ مرکزی اور ریاستی حکومتوں کو ٹرانس جینڈرکمیونٹی کے فائدے کے لئے مختلف قدم اٹھانے کا اور آئین کے تحت اورپارلیامنٹ اور ریاستی اسمبلی  کے ذریعے بنائی گئی تدبیروں کے تحت ان کے حقوق کی حفاظت کے مقصد میں ان کو تیسرے جنس کے طور پر ماننے کی ہدایت دی۔

 بل میں ٹرانس جینڈر شخص کی وضاحت کرنے، ٹرانس جینڈر شخص کے خلاف امتیاز کرنےاور ٹرانس جینڈر شخص کو اسی کی شکل میں پہچان دینے کا حق دینے کی تجویز رکھی گئی ہے۔اس میں ٹرانس جینڈر افراد کو شناختی کارڈ جاری کرنے کے ساتھ ہی زوردیا گیا ہے کہ تقرری، بھرتی، پرموشن اور دیگر متعلقہ مدعوں سے متعلق موضوعات میں کسی ٹرانس جینڈر شخص کے خلاف امتیاز نہیں کیا جائے‌گا۔

 اس سے پہلے بل پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے ترچو شیوا نے ٹرانس جینڈرکمیونٹی کے شہری حقوق کے تحفظ کے لئے 2004 میں پیش اپنے نجی بل کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ایوانِ اعلیٰ نےاس بل کو منظور کیا تھا لیکن لوک سبھا میں یہ منظور نہیں ہو سکا۔

 (خبر رساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)