خبریں

بھوپال گیس متاثرین نے کہا، ملزمین کے ساتھ مل‌ کر کام کر رہی ہیں مرکز اور ریاستی حکومتیں

 گیس متاثرین کےلئے کام کرنے والی تنظیموں نے الزام لگایا ہے کہ انڈین کاؤنسل آف میڈیکل ریسرچ نے ایک ایسے مطالعے کے نتائج کو دبایا، جس کی مدد سے ملزم کمپنیوں سے متاثرین کو اضافی معاوضہ دینے کے لئے دائر عرضی(Curative petition)کو مضبوطی مل سکتی  تھی۔

 (فائل فوٹو : رائٹرس)

(فائل فوٹو : رائٹرس)

نئی دہلی: بھوپال گیس ٹریجڈی کے متاثرین کے لئے تقریباً35 سال سے کام کرنے والی  چار تنظیموں نے  مرکز اور مدھیہ پردیش کی حکومتوں پر یونین کاربائیڈ اور اس کے موجودہ مالک ڈاؤکیمیکل کے ساتھ سانٹھ گانٹھ جاری رکھنے کا الزام لگایا ہے۔ہزاروں لوگوں کوموت کےمنھ میں دھکیلنے والا1984 کابھوپال گیس سانحہ دنیا کا ‘سب سے بڑا صنعتی حادثہ’ہے۔بھوپال گیس متاثرہ مہیلااسٹیشنری کرمچاری سنگھ کی صدر رشیدہ بی اور بھوپال گروپ فار انفارمیشن اینڈ ایکشن کے ممبر ستی ناتھ شڈنگی اور رچنا ڈھینگرا نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ مرکز اور مدھیہ پردیش کی حکومتیں بھوپال گیس متاثرین کے بجائے یونین کاربائیڈ اوراس کے موجودہ مالک ڈاؤ کیمیکل کے مفادات کی حفاظت کر رہی ہیں۔

انہوں نے الزام لگایا کہ مرکز اور مدھیہ پردیش کی حکومتوں نے یونین کاربائیڈ اور اس کے موجودہ مالک ڈاؤ کیمیکل کے ساتھ سانٹھ گانٹھ جاری رکھی ہے۔ان دو تنظیموں کےعلاوہ اس پریس کانفرنس میں بھوپال گیس متاثرین مہیلا-پرش سنگھرش مورچہ  کےنواب خان اور’چلڈرن اگینسٹ ڈاؤکیمیکل’کی نوشین خان بھی موجود تھیں۔اپنے الزام کی حمایت میں ان تنظیموں نے آر ٹی آئی کے تحت حاصل دستاویزوں کے ذریعے یہ بتایا کہ آئی سی ایم آر نے ایک ایسے مطالعے کے نتائج  کو دبادیا، جس سے کمپنیوں سے متاثرین کو اضافی معاوضہ دینے کے لئے دائر عرضی کومضبوطی مل سکتی تھی۔

 انہوں نے کہا کہ اس سال ہم لوگوں نے این آئی آر ای ایچ سے جودستاویز حاصل کئے ہیں، وہ یہ بتاتے ہیں کہ آئی سی ایم آر نے یہ طے کیا ہے کہ گیس متاثرین  والدین  کے بچوں میں غیر متاثرین والدین کے بچوں کے مقابلے زیادہ پیدائشی خرابیاں بتانے والے ایک مطالعے کے نتائج  کو شائع نہیں کیا جائے‌گا۔تنظیموں نے کہاکہ دستاویزوں کے مطابق اس مطالعے کے اہم محقق ڈاکٹر روما گل گلیکر نے گیس متاثرتن والدہ کے 1048 بچوں میں سے 9 فیصد میں پیدائشی خرابیاں پائی، جبکہ غیر متاثرین والدہ کے 1247 بچوں میں 1.3 فیصد بچے ہی متاثرپائے گئے۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ 48 لاکھ کی لاگت سے یہ مطالعہ جنوری 2016 سے جون 2017 تک چلا اور اس کودسمبر 2014 سے لےکر جنوری 2017 تک ہوئی تین سائنٹفک ایڈوائزری کمیٹی کے اجلاس میں منظوری  دی گئی تھی۔تنظیموں کا کہناہے کہ ان دستاویزوں سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ اس مطالعے کے نتائج کو جب دسمبر2017 میں ایس اے سی کے ساتویں اجلاس میں پیش کیا گیا تو ممبروں نے مطالعے میں اتنی زیادہ پیدائشی خرابیاں پائے جانے پر حیرانی کا اظہارکیا اور اعداد و شمار کےمعیار پر کئی سوال اٹھائے، جس کے بعد یہ طے کیا گیا کہ ایک ایکسپرٹ گروپ کے ذریعےاعداد و شمار کا تجزیہ کیا جائے‌گا۔

انہوں نے کہا کہ ایکسپرٹ گروپ کے 4 اپریل، 2018 کے اجلاس کے منٹس کے مطابق گروپ نے اس کی زوردارسفارش کی کہ یہ اعداد و شمارکو گڑبڑیوں کی وجہ سے عوام کے درمیان نہیں لے جانا چاہیے اور کسی بھی پلیٹ فارم پر شیئر نہیں کرنا چاہیے۔ انہوں نے آگےبتایا،’گروپ کے چار ماہرین کے مطابق مطالعے کی’ گڑبڑیاں  مطالعے کےطریقہ کار، اعداد و شمار کی توثیق اور مشاہدہ میں کمیوں کی وجہ سے ہے۔

 اکتوبر 2018میں سائنٹفک ایڈوائزری کمیٹی کے آٹھویں اجلاس میں ممبروں نے اتفاق کیا کہ کیونکہ مطالعے میں گڑبڑی تھی، اس لئے نتائج غلط تھے اور اس لئے اس کو عوام کے سامنےنہیں لانا چاہیے۔ ‘ان کارکنان نےالزام لگایا کہ یہ سب یونین کاربائیڈ اور ڈاؤ کیمیکل کو فائدہ پہنچانے کے لئے کیاگیا۔ بھوپال ٹریجڈی کے بعد ڈاؤ کیمیکل نے یونین کاربائیڈ کو خرید لیا تھا۔

 بھوپال گیس متاثرہ مہیلا اسٹیشنری کرمچاری یونین کی صدر رشیدہ بی نے کہا،’ان دستاویزوں نےسائنس دانوں اور سائنسی اداروں میں ہمارے بھروسے کو کمزور کیا ہے۔ ‘ انہوں نے سوال اٹھایا،’اگر مطالعے کا طریقہ غلط تھا تو اس کو لگاتار دو سال تک ہوئے اجلاس میں منظوری کیسے ملی؟حیح طریقے سے پڑھنے کے لئے نئی تجویزکیوں نہیں دی گئی؟’چلڈرن اگینسٹ ڈاؤکیمیکل کی نوشین خان نے کہا، ‘ ہمارے پاس دیگر دستاویزات ہیں جو دکھاتے ہیں کہ1994-95 میں قریب ستر ہزار بچوں کا ٹیسٹ کیا گیا اور ان میں سے 2435 میں پیدائشی دل کی بیماریاں پائی گئی تھیں۔’

 گیس متاثرین کےلئے کام کر رہی تنظیموں کا دعویٰ ہے کہ 2-3 دسمبر، 1984 کی درمیانی رات کو یونین کاربائیڈ کے بھوپال واقع کارخانے سے رسی زہرلی گیس 20000 سے زیادہ لوگ مارے گئےتھے اور تقریباً 5.74 لاکھ لوگ متاثر ہوئے ہیں۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)