خبریں

سینٹرل انفارمیشن کمیشن میں 13000 سے زیادہ معاملے ایک سال سے زائد عرصے سے زیر التوا: حکومت

غیرسرکاری تنظیم سترک ناگرک سنگٹھن اور سینٹر فار ایکویٹی اسٹڈیز کے ذریعے تیار کی گئی ایک رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ کمیشن میں زیر التوا معاملوں کی اہم وجہ انفارمیشن کمشنر کی تقرری نہ ہونا ہے۔رپورٹ کے مطابق، ملک بھر‌کے26انفارمیشن کمیشن میں31مارچ2019تک کل 218347 معاملے زیر التوا تھے۔

 سی آئی سی(فوٹوبہ شکریہ:پی آئی بی)

سی آئی سی(فوٹوبہ شکریہ:پی آئی بی)

نئی دہلی: مرکزی حکومت نے بتایا کہ سینٹرل انفارمیشن کمیشن(سی آئی سی)میں13000سے زیادہ معاملے ایک سال سے زیادہ عرصے سے زیر التوا ہیں۔ وزیر مملکت ڈاکٹر جتیندر سنگھ نے راجیہ سبھا کو ایک سوال کے تحریری جواب میں بتایا’سی آئی سی میں ایک سال سے زیادہ عرصے سے زیر التوا معاملوں کی کل تعداد 13453 ہے۔ ‘

انہوں نے بتایاکہ سی آئی سی میں2019-20 کے دوران 20 نومبر تک 14523 دوسری اپیلیں/ شکایتں درج تھیں۔ ان میں سے 11117 معاملوں کا حل کر دیا گیا جن میں پچھلے زیر التوا معاملےبھی شامل تھے۔سنگھ نے بتایا کہ2018-19 میں ایسے22736 معاملے درج کئے گئے، جن میں سے 17188 معاملوں کا حل کیاگیا۔ سال 2017-18 درج ایسے معاملوں کی تعداد 25815 تھی جن میں سے 29005 کا حل کیا گیا۔

وزیر نے بتایا کہ حکومت آرٹی آئی قانون ، 2005 کے عمل درآمد میں اصلاحات کے لئے قدم اٹھا رہی ہے۔ اس کے تحت محکمہ عملہ اور تربیت نے اگست 2013 میں آر ٹی آئی آن لائن پورٹل شروع کیا۔سنگھ کے مطابق،حکومت مختلف ریاستی اے ٹی آئی کو ہرایک سال فنڈ مہیاکراتی ہے تاکہ علاقائی زبانوں میں مختلف ذرائع اور پروگراموں کے ذریعے آئی ٹی آئی کے بارے میں بیداری لائی جا سکے۔

واضح  ہو کہ گزشتہ12 اکتوبر کو آر ٹی آئی قانون نافذ ہونے کی 14ویں سال گرہ پر جاری کی گئی رپورٹ کےمطابق فروری 2019 میں سپریم کورٹ کی ہدایت کے بعد بھی انفارمیشن کمشنر کی وقت پرتقرری نہیں ہو رہی ہے۔ اس کی وجہ سے ملک بھر کے انفارمیشن کمیشن میں زیر التوامعاملوں کی تعداد بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے اور لوگوں کو صحیح وقت پر اطلاع نہیں مل پا رہی ہے۔آر ٹی آئی قانون کو مضبوط کرنے کی سمت میں کام کرنے والی غیرسرکاری تنظیم  سترک ناگرک سنگٹھن(ایس این ایس)اور سینٹر فار ایکویٹی اسٹڈیز(سی ای سی)کے ذریعے تیار کی گئی رپورٹ ‘ہندوستان میں انفارمیشن کمیشن کے رپورٹ کارڈ، 2018-19 ‘سے پتہ چلتا ہےکہ کمیشن میں زیر التوا معاملوں کی اہم وجہ انفارمیشن کمشنر کی تقرری نہ ہونا ہے۔

 رپورٹ کے مطابق،تمل ناڈو، آندھرا پردیش اور راجستھان کے انفارمیشن کمیشن بنا چیف انفارمیشن کمشنر کےکام کر رہے تھے۔دسمبر 2018 میں سینٹرل انفارمیشن کمیشن(سی آئی سی)صرف تین انفارمیشن کمشنر کے ساتھ کام کر رہا تھا اور یہاں پر سینٹرل انفارمیشن کمشنر سمیت انفارمیشن کمشنر کے کل آٹھ عہدے خالی تھے۔ فی الحال سینٹرل انفارمیشن کمیشن میں چار خالی عہدے ہیں جبکہ زیر التوا معاملوں کی تعداد ہر مہینےبڑھ رہی ہے اور اس وقت ایسے معاملوں کی تعداد33000سے بھی زیادہ ہے۔ مہاراشٹر کاریاستی انفارمیشن کمیشن 2019 کی شروعات سے ہی صرف پانچ انفارمیشن کمشنر کے ساتھ کام کر رہا ہے، جبکہ یہاں31 مارچ 2019 تک 46000 اپیلیں اور شکایتں زیر التوا تھیں۔

 اسی طرح اڑیسہ کا ریاستی انفارمیشن کمیشن صرف تین انفارمیشن کمشنر کے ساتھ کام کر رہا ہے جبکہ 31مارچ 2019 تک یہاں 11500 سے زیادہ اپیلیں اور شکایتں زیر التوا تھیں۔

 اسی طرح ملک بھر‌کےانفارمیشن کمیشن میں زیر التوا معاملوں کی تعداد بےحد چونکانے والی اور تشویشناک ہے۔ رپورٹ کے مطابق ملک بھر‌کے 26 انفارمیشن کمیشن میں31 مارچ 2019 تک کل 218347معاملے زیر التوا تھے۔

(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)