ادبستان

شوکت کیفی؛ آخر شب کی سحر…

شوکت کیفی جہاں اپنے اندر کے انسان اور فنکار کو ایک دقیانوسی سماج میں اس عورت کے طور پر تیار کر رہی تھیں جس کا اپنا سرمایہ ہوجس کا اپنا جیتا-جاگتا وجود ہو، وہیں اپنے پورے وجود کو تلاش کرنے والی شوکت ایک ایسے آدمی سے عشق کرنے کا جرم کر رہی تھیں، اوربعد میں اس کو مثال بنا دینے کی راہ میں قدم اٹھا رہی تھیں-جو ان کے عقیدے کا آدمی تھا ہی نہیں۔

شوکت کیفی اور کیفی اعظمی ،فوٹو بہ شکریہ ٹوئٹر؛شبانہ اعظمی

شوکت کیفی اور کیفی اعظمی ،فوٹو بہ شکریہ ٹوئٹر؛شبانہ اعظمی

ہر زندگی ایک کتاب ہوتی ہے…،یہ لفظ ہیں اردو کی معروف فکشن نویس سلمیٰ صدیقی کے ، حالاں کہ بہت سے لوگوں کے لیے ان کا تعارف محض یہ ہے کہ وہ ایشیا کے سب سے بڑے افسانہ نگار کرشن چندر کی ہم سفر تھیں تو کچھ لوگوں کے لیے وہ رشید احمد صدیقی جیسے مؤقرادیب کی بیٹی۔

خیر یہاں میں نے ان کا یہ جملہ کیوں نقل کیا اور ان کے تعارف کو دو مردوں کے ساتھ جوڑنے کی گستاخی کیوں کی، تو اس کا سیدھا سا جواب یہ ہے کہ عورت کتنی بھی عالم-فاضل ہو جائے، اس کا اپنا تعارف کیسے ہو سکتا ہے؟گزشتہ دنوں بھی وہی ہوا کہ جب شوکت کیفی کی رحلت کی خبر آئی تو ان کا تعارف شبانہ اعظمی کی ماں سے شروع ہوکر کیفی اعظمی کی ہم سفرپر ختم ہو گیا، کچھ لوگوں نے بابا اعظمی کا ذکر بھی کر دیا۔

کل ملاکر شوکت کیفی کتنی تخلیقی سے نثر لکھتی تھیں، اسٹیج کی دنیا میں ان کا کیا رتبہ تھا، فلموں میں ان کی اداکاری کے معنی کیا ہیں، کورس میں گانےکی پہل کیوں کی، ڈبنگ سے لےکر کاسٹیوم ڈیزائننگ تک میں ان کی خدمات کیا رہیں، اناؤنسر اورریڈیائی ڈرامہ کے بیچ ریڈیو پر ان کی وجہ سے کیا کچھ بدلا، سماجی سروکار کیا تھے…؟

بےحد معمولی لڑکی کے عشق میں غیر معمولی بغاوت اور بےپناہ محبت کے احساس میں ہر طرح کے فقدان اور تنگ دستی  سے لڑتے ہوئے زندگی کی جدو جہدسے کبھی حوصلہ نہ ہارنے والی شوکت کی مکمل زندگی دراصل ایک انقلابی کتاب ہے-اور شوکت کی زندگی کے یہ وہ پہلو ہیں ؛ جو ان کو دنیاکی سب سے خوبصورت ماں اور بیوی ہونے کے ساتھ-ساتھ یا شاید اس سے بھی پہلے ایک ایسی خاتون کا درجہ دیتے ہیں جن کے پاس ان کااپنا سرمایہ ہے اورآسمان بھراڑان کے لیے پر تولنے  والوں کے لیے وہ بذات خود ایک نقش تمام ہیں۔اتفاق دیکھیے، زندگی اور کتاب سے متعلق متذکرہ جملہ سلمیٰ صدیقی نے شوکت کی بیتی؛یاد کی رہ گزر؛ کو اردو کی اچھی، مستند،بیش قیمتی اور سچی کتاب قرار دینے کے مرحلے میں لکھا تھا۔

شوکت پر بات کرتے ہوئے یہاں ان کی اپنی پہچان اور تعارف کی بات اس لیے زیادہ ضروری ہے کہ پہلی بار کیفی اعظمی کی نظم؛ ‘عورت’ کو سن‌کر ہی انہوں نے فیصلہ کیا تھا کہ ؛ عورت کے بارے میں اس طرح سوچنے والا شخص ہی میرا شوہر ہو سکتا ہے۔ پرانے خیال کے کسی آدمی کے ساتھ میرا گزر نہیں ہو سکتا۔ نظم کا ایک بند آپ بھی ملاحظہ کیجیے-

زندگی جہد میں ہے صبر کے قابو میں نہیں

نبض ہستی کا لہو کانپتے آنسو میں نہیں

اڑنے کھلنے میں ہے نکہت خم گیسو میں نہیں

جنت ایک اور ہے جو مرد کے پہلو میں نہیں

اس کی آزاد روش پر بھی مچلنا ہے تجھے

اٹھ مری جان مرے ساتھ ہی چلنا ہے تجھے

جی، شوکت یہ بات اس سماج میں سوچ رہی تھیں جب لڑکیوں کی تعلیم کو برا سمجھا جاتا تھا، خود ان کے گھر میں صرف ان کے والد واحد انسان تھے جن کی وجہ سے وہ پڑھنے لکھنے کی کوشش کر پا رہی تھیں۔

جاں نثار اختر اور ساحر کدھیانوی کے ساتھ شوکت کیفی،فوٹو بہ شکریہ ٹوئٹر؛شبانہ اعظمی

جاں نثار اختر اور ساحر کدھیانوی کے ساتھ شوکت کیفی،فوٹو بہ شکریہ ٹوئٹر؛شبانہ اعظمی

یہ بات بھی دوہرائے جانے کے لائق ہے کہ شوکت کے والد اپنے بھائی اور والد کی خواہش کے خلاف بیٹیوں کو ایک ایسے مشن اسکول میں پڑھارہے تھے جہاں لڑکے بھی پڑھتے تھے اور پردے کو لےکر ان کا حوصلہ یہ تھا کہ اپنی شادی کے بعد سہارنپور سے حیدر آباد لوٹتے ہوئے دہلی میں انہوں نے اپنی بیوی کا نقاب اتروا دیا تھا۔

والد کی کھلی سوچ لیکن ہر طرح کی پابندیوں سے جکڑے ہوئے سماج میں شوکت اسکول کے ڈراموں میں حصہ لے رہی تھیں۔ عدلِ جہانگیرجیسے ڈرامے میں جہانگیر کا کردار نبھا رہی تھیں اور اپنے دوپٹوں میں رنگ بھر رہی تھیں۔

یوں کہیں کہ وہ جہاں اپنے اندر کے انسان اور فنکار کو ایک دقیانوسی سماج میں اس عورت کے طور پر تیار کر رہی تھیں جس کا اپنا سرمایہ ہوجس کا اپنا جیتا-جاگتا وجود ہو، وہیں اپنے پورے وجود کو تلاش کرنے والی شوکت ایک ایسے آدمی سے عشق کرنے کا جرم کر رہی تھیں، اوربعد میں اس کو مثال بنا دینے کی راہ میں قدم اٹھا رہی تھیں-جو ان کے عقیدے کا آدمی تھا ہی نہیں۔

برٹش انڈیا میں پیدا ہونے والی شوکت کی اپنی سچائیاں ہیں، لیکن کیا یہ سچ نہیں کہ آج بھی شیعہ اور سنی کی محبت آسان نہیں ہوتی، جی محبت کبھی بھی آسان نہیں ہوتی۔ مگر شوکت اس سڑے-گلے نظام میں یہ سب کر رہی تھیں جہاں لڑکیوں کی خواہش نہیں پوچھی جاتی اور پھر اس سماج کی ایک خوفناک سچائی یہ بھی تھی کہ لڑکیاں تو ایک طرف خوبصورت لڑکے بھی عیاشی کے لیے حرم میں بٹھا لیے جاتے تھے، بدن  کےاقتدار کی یہی تہذیب تھی۔

اب بس اندازہ لگا سکتے ہیں کہ شوکت کس گندگی سے نکل‌کر زندگی کے ساتھ ہنستے-روتے کتنی دور چل‌کر آئیں اور کہاں کس مقام پر کھڑی ہوکر انہوں نے دنیا کو الوداع کہا۔ کیا ان کی بلندی میں بھی مٹی کا اپنا رنگ اور اس کی مہک سلامت نہیں ہے؟

جی، شوکت نے زندگی کے ہر رنگ کو جیا لیکن ان کا اپنا ماننا تھا کہ ان کی زندگی کا سب سے گہرا رنگ کیفی تھے۔ شاید یہ بات سچ بھی ہے کہ خود کیفی نے پڑھنے کے دنوں میں مذہبی تعلیم سے انکار کر دیا تھا اور تمام عمر ایک ایسے سماج کے لیے لکھتے پڑھتے رہے اور تحریک کرتے رہے جس میں انسان کی برابری سب سے اوپر تھی۔

بات رنگ کی ہی ہو رہی ہے تو یہ قصہ بھی کہ اپنے خون سے شوکت کو خط لکھنے والے کیفی نے عشق کی شروعات میں جدائی کے ملےجلے احساس کے ساتھ ان کے لیے ایک نظم پڑھی تھی’تم ‘-جس میں انہوں نے کہا تھا ؛

فقط بہار نہیں حاصل بہار ہو تم

اس حاصل بہار کو کیفی نے اپنی محبوبہ اور ہم سفر کے طور پر دیکھا اور ان کے ساتھ درد وغم  کے وہ ترانے لکھے جو آج بھی تبدیلیکی ہر مہم میں گائے جاتے ہیں۔ یوں دیکھیں تو کیفی اور شوکت ایک دوسرے کا وہ رنگ تھے جس کو سماج کی بندش، غریبی اور بھوک نے بھی ہلکا نہیں ہونے دیا۔

وہ اس طرح کہ ایک طرف جہاں شوکت کے جنون کی قدر کرتے ہوئے خود ان کے والد ان کو لےکر بمبئی گئے اور کیفی سے ان کی شادی کروادی، وہیں شوکت نے کیفی کی مفلسی  اور تنگی کو دیکھتے ہوئے بھی اپنے گھر والوں سے کبھی مدد نہیں مانگی اور وہ سب کچھ کیا جوایک گھر کو خوشحال بنانے کے لیے کوئی خوددار آدمی کر سکتا تھا۔ اور اس کی وجہ سے یہ بھی ہوا کہ اسٹیج کی دنیا سے فلموں تک کے سفرمیں شوکت نے اپنی ایک اہم اور لازوال پہچان بنانے میں کامیابی حاصل کی۔

یہ سب ہونے سے پہلے شوکت نے اپنے والد سے یہ بھی کہا تھا کہ ؛ کیفی اگر مزدور بھی ہوتے تب بھی میں انہی سے شادی کرتی اور ٹوکری سر پر اٹھاکر مٹی ڈھوتی۔ یہ تھا ان کااٹوٹ  فیصلہ جس کو انہوں نے تھیٹر، ریڈیو اور فلموں میں کام کرتے ہوئے نہ صرف ثابت کیا بلکہ ایک گھریلو بہو، ماں اور بیوی کے طور پر بھی مثال بنا دیا۔

ان سب کی شروعات بھی یوں ہوئی کہ بھارتیہ کمیونسٹ پارٹی کے رہنما پی سی جوشی (پورن چند جوشی)نے ایک بار شوکت سے کہا کہ ؛کامریڈ کی بیوی ایسے نہیں بیٹھ سکتی اس کو کام کرنا چاہیے اور جب بچے ہوں تو ان کو اچھا شہری بنانا چاہیے۔جوشی کی ان باتوں نے ان کو حوصلہ دیا اور پہلی بار انہوں نے کیفی کو بتایا کہ وہ اسکول کے ڈراموں میں حصہ لیتی تھیں، ان کی آواز بھیاچھی ہے اور پھر اس کے بعد وہی ہونا تھا کہ کیفی خود ان کو لےکر ریڈیو اسٹیشن گئے جہاں ان کا آڈیشن کامیاب رہا اور ایک نئے سفر کیشروعات ہوئی۔

اسی زمانے میں شوکت نے مشہور نغمہ نگار پریم دھون سے کورس میں گانے کی خواہش ظاہر کی تو انہوں نے ان کو ایس ڈی برمن سے ملوایااور برمن دانے ان کی آواز کو پاس کر دیا۔ وہ گانے لگیں اور اس طرح ان کو ڈبنگ کے کام بھی ملنے لگے۔ اب ہر قدم ایک نئی دنیا ان کے انتظارمیں تھی۔

شوکت کیفی نے اپٹا کے لیے بھی کام کیا۔اپٹا میں ان کی شروعات یوں  ہوئی کہ خواجہ احمد عباس کی بیوی کے کہنے پر انہوں نے عصمتچغتائی کے ڈرامےدھانی بانکے میں رول ادا کیا جو ہندو مسلم فساد کے پس منظر میں  تھا۔ یہ ملک کی تقسیم کا وقت تھا، ہرطرف فساد کا ماحول تھا۔ یوں شوکت صرف اپنے لیے کام نہیں کر رہی تھیں بلکہ اس ملک کا بھی کام کر رہی تھیں جہاں انسانوں کا خون سستا ہو گیا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ خود بھیشم ساہنی چاہتے تھے کہ شوکت اس ڈرامے میں کام کرے۔ بعد میں ان کے رول کو دیکھ‌کر بھیشم ساہنی اتنے خوش ہوئے کہ انہوں نے ایک دوسرے ڈرامہ’ بھوت گاڑی’میں شوکت کو مرکزی رول  دے دیا۔ اس ڈرامے کو شوکت نے پہلی بار احمد آباد میں 12 ہزار لوگوں کے سامنے پیش کیا تھا۔ سالوں بعد بھی لوگ اس ڈرامے کو بھلا نہیں پائے۔

اپٹا کے لیے ہی وشوا متر عادل کے ڈرامے’افریقہ جوان پریشان’سے ان کو بےپناہ شہرت ملی اور اپٹا کے ڈراموں میں ان کو تمام مرکزی رول دیا جانے لگا۔ شاید یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ اس وقت اپٹا میں کام کرنے کا مطلب عوام کی بات کرنا اور ان کے مفادکی بات کرنا تھا۔ یوں کہیں کہ اس وقت کے تمام بڑے لکھنے والوں اور سماجی کارکنوں کے ساتھ شوکت بھی اس تحریک کا حصہ تھیں جو سب کے مستقبل کے ہندوستان کے خواب کی تعبیر کرنا چاہتے تھے۔

جدو جہد سے بھری ان کی زندگی کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ جب شبانہ اعظمی بہت چھوٹی تھیں تب وہ ان کو اپنی پیٹھ پر لاد‌کر پرتھوی تھیٹرمیں کام کرنے جاتی تھیں۔ شوکت نے 1951 میں پرتھوی تھیٹر اس طرح جوائن کیا تھا کہ زہرا سہگل نے ان کو اس تھیٹر کا ایک ڈرامہ ‘پٹھان’دکھا دیا۔ شوکت بہت متاثر ہوئیں اور پھر زہرا سہگل نے ہی ان کو پرتھوی راج کپور سے ملوایا۔حالانکہ اس تھیٹر میں ان کا کوئی اوریجنل کردار نہیں ہوتا تھا، لیکن وہ انڈر-اسٹڈی کے تحت سارے رول کر چکی تھیں۔ انہی کے بقول انڈر-اسٹڈی ایسے رول کو کہا جاتا ہے کہ ڈرامے میں وہ کسی اور کا کردار ہے لیکن اچانک ضرورت پڑنے پر کسی اور سے کروایا جائے۔

خیر وہ اسی زمانے میں زندگی کے زخم سے چور ایک لڑکے کو ٹیوشن بھی پڑھاتی تھیں۔ جی، شوکت نے اس کمرے میں بھی زندگی گزاری جہاں رہنا اور سانس لینا مشکل تھا۔ وہ وقت بھی ان کی زندگی میں آیا جب حکومت کی نظروں سے بچنے کے لیے کیفی اعظمی کو انڈر گراؤنڈہونا پڑا تھا۔ لیکن شوکت نے کہیں بھی ہار نہیں مانی۔ یہ شوکت کی زندگی کا وہ زمانہ تھا جب کیفی بستیوں میں جاکر کام کیا کرتے تھے، اسی زمانے کی ایک مشہور نظم ہے’مکان ‘ جس کو بعد میں شاہد لطیف نے اپنی فلم’سونے کی چڑیا’میں استعمال کیا تھا۔ نظم کا ایک حصہ ملاحظہ کیجیے ؛

آج کی رات بہت گرم ہوا چلتی ہے

آج کی رات نہ فٹ پاتھ پہ نیند آئے‌گی

سب اٹھو، میں بھی اٹھوں تم بھی اٹھو، تم بھی اٹھو

کوئی کھڑکی اسی دیوار میں کھل جائے‌گی

شوکت نے امین سیانی کی ہدایت میں فلم گاندھی میں جناح کا رول نبھانے والے تھیٹر آرٹسٹ اور وگیاپن کے پتامہ (بابائےاشتہار) ایلیک پدمسی کے گروپ کے لیے’نوکرانی کی تلاش’جیسے ڈرامے میں بھی مرکزی رول  نبھایا۔ ایلیک پدمسی شوکت کی اداکاری کے ایسے قائل تھے کہ ان کے بنا اپنا ڈرامہ تک بند کر دیتے تھے۔ ایک بار ہوا یہ کہ پدمسی کو اپنے تین ڈرامے چنڈی گڑھ میں کرنے تھے اور شوکت کو اپنے بھائی-بہنوں سے ملنے پاکستان جانا تھا۔ اس لیے ان کو سمجھایا گیا کہ ابھی تین مہینے ہیں شوکت کے رول  میں کسی اور کو لے لیتے ہیں لیکن وہ نہیں مانے اور انہوں نے اس کے بعد اردو-ہندی ڈرامہ کھیلنا ہی بند کر دیا۔

فلم گرم ہوا کے سیٹ پر شوکت کیفی،فوٹو بہ شکریہ ٹوئٹر؛شبانہ اعظمی

فلم گرم ہوا کے سیٹ پر شوکت کیفی،فوٹو بہ شکریہ ٹوئٹر؛شبانہ اعظمی

شوکت نے ریڈیو میں اناؤنسر کے طور پر بھی کام کیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وودھ بھارتی کا پہلا پروگرام ‘من چاہے گیت’ انہی کی آواز میں براڈکاسٹ ہوا تھا۔ اس وقت تک ریڈیو پر نغمہ نگار اور میوزک ڈائریکٹر کا نام لینے کا چلن نہیں تھا، شوکت کے کہنے پر ہی اس کی شروعات ہوئی۔ ان کی اس پہل سے ساحر بہت خوش ہوئے تھے۔ کہنے والی بات یہ ہے کہ ایک ایسے زمانے میں جب پیسے کی ضرورت سب سے زیادہ تھی وہ اپنے کام میں نہ صرف ایماندار تھیں بلکہ اپنی تخلیقی سوچ سے کام کو بہتر بنانے کی کوشش بھی کر رہی تھیں۔

رہی بات فلموں کی تو انہوں نے گنتی کی مگر بہت اہم فلمیں کیں، حقیقت، ہیر رانجھا، نینا، گرم ہوا، لوفر، دھوپ چھاؤں، سایہ، آنگن کی کلی،راستے پیار کے، لوری، بازار، انجمن، سلام بامبے اور امراؤ جان جیسی فلمیں ان کے نام پر درج ہیں۔

ایک دلچسپ قصہ یہ ہے کہ امراؤ جان میں آج جس رول کے لیے ان کو یاد کیا جاتا ہے، پہلےپہل شوکت اس رول کے بجائے امراؤ کی ماں کارول کرنا چاہتی تھیں لیکن سبھاشنی علی کے یہ سمجھانے پر کہ وہ ایک کمزور اور مظلوم ماں کا رول ہے جو ان کو سوٹ نہیں کرتا اس لیےآپ کو خانم کا رول کرنا چاہیے۔ پھر انہوں نے ایسا یادگار کام کیا کہ اس کو آج تک بھلایا نہیں جا سکا۔

گرم ہوا دیکھ‌کر آسکرتک اپنی موجودگی درج کروانے والی  فلم ‘سلام بامبے’ کے لیے میرا نائر خود ان کے گھر چل‌کر آئیں تھیں، حالانکہ شروع میں انہوں نے زیادہ دلچسپی نہیں دکھائی۔ لیکن میرا کےسمجھانے  اور شبانہ اعظمی کے کہنے پر انہوں نے نہ صرف یہ فلم کی بلکہ اپنے کردار کے لیے باقاعدہ تیاری کی اور کماٹی پورہ کے ماحول کو جاننے کے لیے ایسی کوشش کی کہ شوٹنگ کے دوران ہی ان کو یہ سننے کو ملا کہ، کون کہتا ہے کہ یہ شبانہ کی ماں ہے۔ یہ تو سچ مچ کی گھر والی (Brothel owner) ہے۔ کیسے بڑی-بڑی آنکھ کرکے ہمیں دیکھتی ہے۔

شوکت کو ان کےکئی کرداروں  کے لیے یاد کیا جاتا ہے لیکن ان کو اپنی کمرشیل فلموں میں’ ہیر رانجھا’ سب سے زیادہ پسند تھی۔ اس فلم کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ اس کاکاسٹیوم  شوکت کیفی نے خود تیار کیا تھا۔ دراصل وہ جہاں بچپن سے ہی کپڑوں کے الگ الگ ٹکڑوں کو جوڑتی رہتی تھیں، دوپٹوں کو نئے-نئے رنگ سے روشن کرتی تھیں، وہیں بمبئی میں اپنے گھر کی ننگی دیواروں کو انہوں نے پتھروں کے ٹکڑے سے اس طرح سجایا تھاکہ لوگ اس کی سجاوٹ دیکھ‌کر حیران ہوتے تھے۔

شبانہ اعظمی اور جاوید اختر کے ساتھ شوکت کیفی،فوٹو بہ شکریہ ؛اپٹا

شبانہ اعظمی اور جاوید اختر کے ساتھ شوکت کیفی،فوٹو بہ شکریہ ؛اپٹا

قصہ وہی ہے کہ شوکت نے زندگی کو جیتے ہوئے سب کچھ سیکھ لیا تھا اس لیے ان کی پیوند لگی زندگی کا بھی ایک خاص رنگ ہوا کرتا تھا۔تھیٹر سے الگ فلموں میں ان کے ہونے کا مطلب ہوتا تھا کسی کردار کے اردگرد کی دنیا کا ہونا، اس کی تاریخ کا ہونا اور سماجی سروکارکا ہونا، فلموں میں یہی ان کا سرمایہ تھا۔

اس قدر حوصلے والی ماں اور انقلابی شاعر کی بیٹی شبانہ اعظمی اس وقت پی سی جوشی کے کہے کی تعبیر لگتی ہیں جب وہ دہلی  میں صفدرہاشمی کے دردناک قتل کے بعد انٹرنیشنل فلم فیسٹیول میں اسٹیج سے یہ کہہ دیتی ہیں کہ، ایک طرف تو یہ حکومت فلم فیسٹیول کرتی ہے اور دوسری طرف ہمارے کلچرل ایکٹیوسٹ صفدر ہاشمی کو جب حکمراں پارٹی کے غنڈے جان سے مار دیتے ہیں تو اس کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیتی۔ یہ اور بات ہے کہ سزا کے طور پر سرکاری ریڈیو اور ٹی وی پر ان کا پروگرام بند کر دیا گیا جس کو بعد میں اس وقت کے وزیر اعظم راجیو گاندھی کے کہنے پر ہٹایا گیا۔

ایک ایسی ماں اور فنکار کو یاد کرتے ہوئے میں کیفی اعظمی کی کتاب’آخرِ شب’ کی  وہ عبارت یہاں درج کرنا چاہتا ہوں جو ان کو اس طرح معنوں ہیں کہ ؛ شین کے نام… میں تنہا اپنے فن کو آخرِ شب تک لا چکا ہوں تم آ جاؤ تو پھر سحر ہو جائے۔

اور شوکت کیفی کا وہ جملہ کہ ؛ اگر زندگی کے اس طویل سفر میں تم میرے ہمسفر ہو جاؤ تو یہ زندگی اس طرح گزر جائے جیسے پھولوں پرسے نسیمِ سحر کا لطیف جھونکا۔

ہاں، یہ اور بات ہے کہ یہاں زندگی وہ گزاری گئی جو کسی سے گزاری نہ جا سکے…