خبریں

کشمیر: لوگ مقامی اخبارات سے ناراض کیوں ہیں؟

فون او رانٹرنیٹ خدمات کے متاثر ہونے کے بعد سے اب تک صحافیوں کو مشکلا ت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ایک فوٹو جرنلسٹ کا کہنا ہے کہ ، میں نے کبھی اپنے کیمرے کو بند نہیں کیا ہے لیکن گزشتہ 17 ہفتوں کے دوران  جہاں بھی گیا مجھے سوالات کا سامنا کرنا پڑا ۔وہیں ایک دوسری صحافی کا کہنا ہے کہ ، میں نے کشمیر کی صحیح تصویر کو پیش کرنے کی بھرپور کوشش کی لیکن جب میری اسٹوری چھپتی تھی تو اس میں میرا لکھا ہوا 40 فیصد ہی ہوتا تھا اور باقی وہ خود ہی شامل کرتے تھے۔

فوٹو: شیخ فیاض احمد

فوٹو: شیخ فیاض احمد

عرفان ملک اور اشفاق ریشی نامی دو نوجوان صحافی 5 اگست 2019 سے پہلے سری نگر سے شائع ہونے والے دو مؤقر انگریزی روزناموں کے لئے بالترتیب ترال اور بڈگام علاقوں سے رپورٹ کرتے تھے۔ دونوں گزشتہ 17 ہفتوں سے انتظار میں بیٹھے ہیں کہ انٹرنیٹ بحال ہو اور انہیں اپنے متعلقہ اداروں سے دوبارہ کام کرنے کا گرین سگنل ملے۔ لیکن فی الوقت دونوں بے روزگار ہیں اور صحافت میں پوسٹ گریجویٹ ہونے کے باوجود اپنے ذاتی اخراجات کے لئے گھر والوں پر منحصر ہیں۔

واضح رہے کہ مرکز میں برسر اقتدار بی جے پی حکومت نے جب 5 اگست کو ملک کی واحد مسلم اکثریتی ریاست جموں وکشمیر کو دو حصوں میں منقسم کیا اور اسے زائد از چھ دہائی سے حاصل خصوصی پوزیشن منسوخ کی تو ایک دن پہلے یعنی 4 اگست کو وادی کشمیر میں ہر طرح کی فون اور انٹرنیٹ خدمات منقطع کی گئیں۔ اگرچہ فون خدمات کو جزوی طور پر بحال کیا جاچکا ہے لیکن انٹرنیٹ خدمات ہنوز معطل ہیں۔

انٹرنیٹ کی معطلی اس قدر سخت ہے کہ وادی میں حکومت ہند کے اپنے تشہیری اداروں جیسے دور درشن، آل انڈیا ریڈیو اور پی آئی بی میں بھی انٹرنیٹ خدمات 4 اگست سے معطل ہیں۔ مقامی، قومی اور غیر ملکی میڈیا اداروں سے وابستہ صحافیوں کو ہر روز اپنے دفاتر سے سرکاری میڈیا سینٹر کے چکر کاٹنے پڑتے ہیں۔ جموں وکشمیر حکومت کے محکمہ اطلاعات و تعلقات عامہ کی طرف سے 5 اگست کے ایک ہفتے بعد قائم کئے گئے اس میڈیا سینٹر میں صحافیوں کو آج بھی اپنی باری کے لئے طویل انتظار کرنا پڑتا ہے۔ تاہم یہ سہولیت سری نگر نیشن صحافیوں کے لئے کارآمد ہے اور اضلاع میں کام کرنے والے صحافیوں کے لئے ایسی کوئی سہولیت نہیں ہے جس کے نتیجے میں عرفان اور اشفاق جیسے درجنوں صحافی بے روزگار ہوچکے ہیں۔

عرفان ملک، جو جنوبی کشمیر کے حساس ترین علاقہ ترال سے جموں وکشمیر کے سب سے زیادہ بکنے والے انگریزی روزنامے کے لئے رپورٹ کرتے تھے، کو ما بعد 5 اگست ایک رات پولیس تھانے میں بھی گزارنی پڑی۔ یونیورسٹی گولڈ میڈل یافتہ عرفان پولیس تھانے سے اپنی فوری رہائی کے لئے اپنے ادارے اور سری نگر نیشن صحافیوں کے شکر گزار ہیں۔وہ کہتے ہیں:

‘مجھے ایک رات پولیس تھانے میں گزارنی پڑی۔ 14 اگست کی شام دیر گئے مجھے حراست میں لیا گیا اور 15 اگست کو رہا کیا گیا۔ حراست میں کیوں لیا گیا یہ نہیں بتایا گیا۔ میں بحیثیت صحافی مختلف نوعیت کے موضوعات پر لکھتا تھا۔ اگلے دن میرے گھر والے سرکاری میڈیا سینٹر پہنچے جہاں صحافیوں نے احتجاج کیا اور مجھے رہا کیا گیا۔ میرے ادارے نے میری بہت مدد کی’۔

ان کا کہنا ہے: ‘ایک انسان جذبے کی وجہ سے اس فیلڈ میں آجاتا ہے۔ وادی میں یہ پیشہ خطرات سے پُر ہے اور اس میں بہتر مستقبل کی کوئی گارنٹی نہیں ہے۔ یہاں سرکاری محکمے میں کام کرنے والے ایک چوتھے درجے کے ملازم کی تنخواہ ایک صحافی کی تنخواہ سے چار گنا زیادہ ہے’۔عرفان کی طرح اشفاق ریشی بھی 5 اگست سے بے روزگار ہیں اور وادی میں صحافیوں بالخصوص اضلاع سے رپورٹ کرنے والے صحافیوں کی کم تنخواہوں سے مایوس ہیں۔

وسطی کشمیر کے ضلع بڈگام کے ایک دوردراز گاؤں سے تعلق رکھنے والا اشفاق انگریزی روزنامہ ‘کشمیر ریڈر’ کے لئے رپورٹ کرتا تھا۔ لیکن پانچ اگست سے اب تک اپنے متعلقہ ادارے کو ایک رپورٹ بھی بھیج نہیں پایا ہے۔وہ کہتے ہیں:

‘میں اب بہت تنگ آچکا ہوں۔ بے روزگار ہوں۔ ہمیں پہلے سے ہی بہت کم تنخواہیں ملتی تھیں۔ رہی سہی کسر انٹرنیٹ کی معطلی نے پوری کی جس کے نتیجے میں ہم بے روزگار ہوگئے۔ اس کا براہ راست اثر ہمارے اذہان پر پڑا ہے۔ جب متبادل ڈھونڈنے نکلتے ہیں تو اُس فیلڈ کو گڈ بائی کہنا مشکل ہوجاتا ہے جس کے ساتھ جذبے کے تحت منسلک ہوچکے ہوتے ہیں’۔

اتنا برا وقت کبھی نہیں دیکھا تھا

سری نگر نشین صحافیوں کا کہنا ہے کہ انہیں اپنے صحافتی کیریئر کے دوران اتنی مشکلوں کا سامنا کبھی نہیں کرنا پڑا جتنا گزشتہ 17 ہفتوں کے دوران کرنا پڑا۔ ان کے مطابق گراؤنڈ پر پبلک اور سکیورٹی فورسز میں سے کسی کا تعاون حاصل نہیں ہوتا تھا اور جب بڑی مشکلوں کے بعد اپنی رپورٹیں اور تصاویر متعلقہ اداروں تک بھیجتے تھے تو وہ چھپتے ہی نہیں تھے اور اگر چھپتے تھے تو اس میں ڈیسک پر بیٹھے لوگوں کی خیانت عیاں ہوتی تھی۔ایک معروف ہندی روزنامے سے وابستہ خاتون صحافی رضیہ نور کہتی ہیں:

‘میں گزشتہ دس برس سے بحیثیت رپورٹر اپنے پیشہ ورانہ فرائض انجام دے رہی ہوں۔ اتنا برا وقت پہلی بار دیکھا۔ سب سے بڑا مسئلہ مواصلاتی خدمات کی مکمل معطلی کا تھا۔ مجھے اطلاعات جمع کرنے اور اسٹوریاں فائل کرنے میں جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، ان کو بیان کرنا بھی مشکل ہے۔ سرکاری میڈیا سینٹر کشمیر میں کام کرنے والے صحافیوں کا واحد سہارا ہے۔ ہمیں وہاں اپنی باری کے لئے کافی انتظار کرنا پڑتا ہے۔ ایک بار ایسا ہوا کہ مجھے اسٹوری لکھنے میں ایک گھنٹہ لگا لیکن اپنے ادارے کو بھیجنے کے لئے تین گھنٹے تک باری کا انتظار کرنا پڑا’۔

یہ پوچھے جانے پر کہ، کیا پانچ اگست کے بعد آپ کے ادارے نے آپ کی رپورٹیں بغیر کسی تبدیلی اوراضافہ کے شائع کیں، تو رضیہ نور کھل کر کہتی ہیں:

‘قومی میڈیا اداروں کی اپنی پالیسی ہوتی ہے۔ میں نے کشمیر کی صحیح تصویر کو پیش کرنے کی بھرپور کوشش کی لیکن جب میری اسٹوری چھپتی تھی تو اس میں میرا لکھا ہوا 40 فیصد ہی ہوتا تھا اور باقی وہ خود ہی شامل کرتے تھے۔ میں نے حال ہی میں اپنے اخبار کو ایک اسٹوری بھیجی لیکن جب اگلے روز یہ چھپی تو اس میں ان چیزوں کا اضافہ کیا گیا تھا جو نہ صرف اس شخص جس پر میں نے اسٹوری کی تھی کے لئے خطرہ بن گئی تھیں بلکہ میرے لئے بھی’۔

قومی سطح کے ایک انگریزی روزنامے کے ساتھ بحیثیت فوٹو جرنلسٹ کام کرنے والے بلال فاطمی کا کہنا ہے کہ 5 اگست کے بعد لوگوں اور سکیورٹی فورسز دونوں کا مزاج بدل گیا اور ہمارا گراؤنڈ پر کام کرنا انتہائی مشکل بن گیا۔وہ کہتے ہیں:

‘میں گزشتہ 18 برسوں سے بحیثیت فوٹو جرنلسٹ کام کررہا ہوں۔ مجھے اس عرصے کے دوران کبھی بھی ایسی صورتحال کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ میں نے 2008ء، 2010ء اور 2016ء کی ایجی ٹیشنز کو کور کیا ہے لیکن اس طرح کی صورتحال کا سامنا نہیں کرنا پڑا جس کا سامنا 5 اگست کے بعد کرنا پڑا۔ پانچ اگست سے پہلے ہم جہاں چاہتے تھے جاتے تھے، لوگ ہمارا خیر مقدم کرتے تھے۔ اب جب ہم کسی جگہ جاتے ہیں تو ہمیں لوگوں کے سوالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ میں نے کبھی اپنے کیمرے کو بند نہیں کیا ہے لیکن گزشتہ 17 ہفتوں کے دوران میں جہاں بھی گیا مجھے سوالات کا سامنا کرنا پڑا’۔

بلال فاطمی کا مزید کہنا ہے:

‘2016ء کے دوران فوٹو جرنلسٹس کی تصویریں شائع ہوتی تھیں۔ اخبارات تصاویر سے بھرے پڑے رہتے تھے۔ لوگ بھی فوٹو جرنلسٹس کے کام کو سراہتے تھے۔ لیکن لوگ اب بہت غصے میں ہیں۔ وہ یہ بھی پوچھتے ہیں کہ آنچار صورہ میں ہوئے احتجاجیوں کی تصاویر کہاں شائع ہوئیں آپ ہمیں دکھائیں۔ میں کبھی بھی کیمرہ چلانے سے نہیں ڈرا ہوں لیکن اب بہت ڈرتا ہوں۔ لوگ سخت غصے میں ہیں۔ جب ہم سڑکوں پر تعینات سکیورٹی فورسز  کی تصویر لینے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ ہمیں روکتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہماری نہیں لوگوں کی تصویر کھینچو’۔

اشفاق احمد جو جنوبی کشمیر کے ضلع اننت ناگ سے ایک قومی سطح کے ڈیجیٹل نیوز پورٹل کے لئے کام کرتا ہے، ان کے مطابق انہیں گزشتہ 17 ہفتوں کے دوران ایک جاسوس کی طرح کام کرنا پڑا اور نوکری بچانے کے لئے اپنے جیپ سے پیسے خرچ کرنے پڑے۔وہ کہتے ہیں:

‘میں حیدرآباد میں ایک نیوز چینل کے ڈیسک پر کام کرتا تھا۔ وہاں تین سال گزارنے کے بعد مجھے محسوس ہورہا تھا کہ زندگی خراب ہورہی ہے۔ گھر کے حالات بھی ایسے تھے کہ مجھے واپس آنا پڑا۔ جب اپنے علاقے میں کام کرنے کا موقع ملا تو بہت خوش ہوا لیکن گراؤنڈ پر کام کرنے کے بعد اب مجھے یہ محسوس ہورہا ہے کہ زندگی وہاں نہیں یہاں خراب ہورہی ہے’۔

وہ مزید کہتے ہیں:

‘یہاں صحافیوں کو اپنا روزگار بچانے کے لئے اپنے ہی جیپ سے پیسے خرچ کرنے پڑتے ہیں۔ مجھے ایک جاسوس کی طرح کام کرنا پڑا۔ ہمیں ویڈیو ریکارڈنگ کے لئے موبائل فون فراہم کئے گئے لیکن لوگ جب ہمیں موبائل فون سے ویڈیو بناتے ہوئے دیکھتے تھے تو وہ شک ظاہر کرتے تھے۔ لوگ مجھ سے پوچھتے بھی تھے کہ تم موبائل فون سے ویڈیو کیوں بناتے ہو۔ ‘

لوگ مقامی اخبارات سے ناراض کیوں ہیں؟

فوٹو : رائٹرس

فوٹو : رائٹرس

وادی کشمیر میں اکثر لوگوں کی شکایت ہے کہ 5 اگست کے بعد سری نگر سے شائع ہونے والے اردو اور انگریزی روزناموں کو جو رول ادا کرنا چاہیے تھا وہ انہوں نے ادا نہیں کیا۔ اخبارات نے تو جموں وکشمیر کی خصوصی پوزیشن کی مخالفت میں حکومت کی طرف سے جاری ایک صفحے والے اشتہار تو شائع کئے لیکن اضلاع بالخصوص جنوبی کشمیر کی صحیح تصویر کو پیش کیا نہ اداریے لکھے۔

عبدالغفار نامی معمر شخص نے بتایا کہ وہ گزشتہ چار دہائیوں سے اخبار پڑھتے آئے ہیں لیکن مقامی روزناموں کو اتنا ڈرا اور سہما ہوا کبھی نہیں دیکھا۔ان کا کہنا تھا:

‘میری نصف عمر اخبار بینی میں گزری ہے۔ پانچ اگست کے بعد کئی روز تک اخبار شائع ہی نہیں ہوئے لیکن جب شائع ہوئے تو مزاج بالکل بدلا بدلا نظر آیا۔ آج بھی کئی روزنامے ایسے ہیں جو بغیر اداریہ کے شائع ہوتے ہیں۔ وہ غیر جانبداری بھی غائب ہے جو ہمیں 2016ء کی ایجی ٹیشن میں دیکھنے کو ملی تھی’۔

ان کا مزید کہنا تھا:

‘ہمارے پاس اپنا کوئی مقامی نیوز چینل نہیں ہے۔ کشمیر میں مسلم ممالک کے ٹی وی چینل دکھانے پر پابندی عائد ہے۔ ڈی ڈی کاشر پر شام کے سات بجے بتایا جاتا ہے کہ سری نگر آج بھی بند تھا اور ساڑھے سات بجے اسی چینل پر کشمیر کا سچ نامی پروگرام میں بتاتا جاتا ہے کہ سری نگر میں آج سب کچھ نارمل تھا۔ ایسے میں یہاں کے لوگ اگر کسی پر بھروسہ کرتے تھے تو وہ یہاں کے مقامی اخبارات تھے جو پانچ اگست کے بعد سے ہمیں صرف یہ بتاتے میں لگے ہیں کہ مودی جی اور ان کی ٹیم کیا کہتی ہے۔ یہاں کے لوگ اب ان اخبارات کے لئے اہم نہیں ہیں’۔

اس پر ایک مقامی اردو روزنامے کے مدیر اعلیٰ ہارون رشید نے بتایا کہ ایسا نہیں ہے کہ ہم نے چیزوں کو چھپایا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اکثر اخبار مالکان نے اپنے آپ پر خود ہی پابندیاں عائد کرکے اداریے لکھنا چھوڑ دیے جس کی وجہ سے لوگوں میں شکوک و شبہات پیدا ہوئے۔ان کا کہنا تھا:

‘لوگ ناراض ہیں کیونکہ ان کا کہنا ہے کہ دفعہ 370 کی منسوخی کے معاملے پر اخبارات میں چھپنے والے اداریوں اور مضامین میں سوالات کیوں نہیں اٹھائے گئے۔ بے شک معاملے پر جو لکھا جانا چاہیے تھا نہیں لکھا گیا۔ کسی اداریے میں یہ نہیں لکھا گیا کہ یہ یکطرفہ فیصلہ تھا اور جموں وکشمیر کے لوگوں کو اعتماد میں لیا جانا چاہیے تھا۔ میرا اخبار واحد ایسا اخبار ہے جس میں مسلسل اداریہ شائع ہوتا رہا۔ کشمیر کے بیشتر اخبارات چاہے وہ اردو کے ہیں یا انگریزی، ابھی تک بغیر اداریہ کے شائع ہورہے ہیں۔ اس کی وجہ نامعلوم خوف ہے۔ اس خوف کو خود اخبار مالکان نے اپنے آپ پر طاری کردیا ہے’۔

ان کا مزید کہنا تھا:

‘مجھے آج تک کسی نے نہیں بتایا کہ نرم پالیسی اختیار کرو۔ اسی طرح کسی اخبار مالک کو کہیں سے فون نہیں آیا کہ وہ سافٹ اسٹینڈ اپنائیں۔ ہمیں شاید تاریخ معاف نہیں کرے گی کیونکہ نہ ہم نے دفعہ 370 کے حق میں اور نہ اس کے خلاف کچھ لکھا۔ دفعہ 370 کی منسوخی ایک سیاسی فیصلہ تھا اس پر رائے زنی کرنے میں کیا پریشانی ہے؟ حکومت ہند سے یہ سوال کرنے میں کیا پریشانی ہے کہ اگر آپ نے دفعہ 370 ہٹائی کیا آپ نے کشمیریوں کو اعتماد میں لیا؟ الیکشن لڑنے والوں کو تو آپ کل تک کشمیر کی مستند قیادت کہتے ہیں، کیا آپ نے ان کو اعتماد میں لیا، الٹا آپ نے ان کو جیلوں میں ڈال دیا۔ کل تک بی جے پی کہتی تھی دفعہ 370 کی منسوخی ہمارا سیاسی ایجنڈہ ہے لیکن آج کہتی ہے کہ کشمیر میں ملیٹنسی، علاحدگی پسندی، غریبی اور کرپشن کی وجہ یہ دفعہ تھی۔ کسی نے بی جے پی سے نہیں پوچھا کہ آپ کا دفعہ 370 کے حوالے سے بیانیہ کیونکر بدلا۔ ہم پہلے پہلے جنوبی کشمیر اخبارات ہی نہیں بھیجتے تھے۔ وہاں مبینہ طور پر کچھ اخبارات کی کاپیاں بھی جلائی گئیں۔ کوئی شخص اخبارات کی رپورٹنگ پر انگلی نہیں اٹھا سکتا، لیکن دفعہ 370 کی منسوخی پر اخبارات میں جو کچھ لکھا جانا چاہیے تھا وہ لکھا نہیں گیا۔ میرے اور دوسرےکچھ اخبارات نے تو اس پر لکھا لیکن بیشتر اخبارات نے خاموشی اختیار کی’۔

ہارون رشید مقامی اخبارات کے جانبدار یا غیر جانبدار رہنے پر کہتے ہیں:

‘لوگوں کا ماننا ہے کشمیر کے اخبارات نے گزشتہ 17 ہفتوں کے دوران اس غیر جانبداری سے کام نہیں لیا جس کے لئے وہ جانے جاتے تھے۔ یہاں کے اخبارات نے 1990ء سے آج تک بڑی غیر جانبداری سے کام کیا تھا۔ آج ہم پر انگلیاں اٹھ رہی ہیں کہ جس طرح ہم نے 1990ء سے چار اگست 2019ء تک کام کیا، ما بعد پانچ اگست کشمیر کے اخبارات نے وہ غیر جانبداری نہیں دکھائی۔ ایسا نہیں ہے کہ کہیں پر کسی کو مارا گیا اور ہم نے معاملے کو چھپایا۔ ایسا نہیں ہے کہ کسی جگہ کسی کو سکیورٹی فورسز نے مارا ہم نے لکھا اس کو ملی ٹینٹوں نے مارا۔ اب مسئلہ یہ ہوا کہ اگر کہیں پر احتجاج ہوئے تو ہم ان کو اس وجہ سے جگہ نہیں دے پائے کیونکہ مواصلاتی خدمات بشمول فون سروسز بند رہنے سے یہ اطلاعات ہم تک نہیں پہنچیں’۔

ہارون رشید مواصلاتی خدمات بالخصوص انٹرنیٹ پر عائد پابندی کی وجہ سے اخبارات کے معیار پر پڑنے والے اثرات پر کہتے ہیں:

‘پانچ اگست کے بعد ہمیں جن سختیوں کا سامنا کرنا پڑا ان کی نوعیت مختلف ہے۔ پانچ اگست سے پہلے میں اپنا کام دس بجے شروع کرکے رات کے بارہ بجے تک جاری رکھتا تھا۔ میں یہ یقینی بناتا تھا کہ ہر ایک خبر کو جگہ ملے۔ دس سے بارہ گھنٹے انٹرنیٹ سے لیس کمپیوٹر کے سامنے بیٹھنے کا یہ فائدہ رہتا تھا کہ مجھ سے کوئی خبر چھوٹتی نہیں تھی۔ لیکن اب صورتحال یہ ہے کہ میں صرف پندرہ منٹ ہی انٹرنیٹ استعمال کرپاتا ہوں کیونکہ سرکاری میڈیا سینٹر میں صحافی اور اخبارات کے عملے کے اہلکار اپنی باری کے انتظار میں بیٹھے ہوتے ہیں۔ انٹرنیٹ کی عدم دستیابی کا اثر راست طور پر اخبار کے معیار اور خبروں کی ترسیل پر پڑتا ہے۔ میرا اخبار بارہ صفحات پر مشتمل ہوتا تھا لیکن اب میں بمشکل ہی آٹھ صفحوں پر مشتمل اخبار نکال پاتا ہوں۔ ہم مطمئن نہیں ہوتے ہیں۔ ہم شام کے سات بجے کے بعد پیش آنے والے واقعات کی خبریں ہی شامل نہیں کرپاتے ہیں’۔

(ظہور اکبر سری نگر میں مقیم صحافی ہیں۔)