خبریں

مخالفت کے باوجود مرکزی کابینہ نے شہریت ترمیم بل کو منظوری دی

شہریت ترمیم بل میں بنگلہ دیش، پاکستان اور افغانستان کے ہندو، جین، عیسائی، سکھ، بودھ اور پارسی کمیونٹی کے ان لوگوں کوہندوستانی شہریت دینے کی تجویز ہے، جنہوں نے ملک میں چھ سال گزار دیے ہیں، لیکن ان کے پاس کوئی دستاویز نہیں ہے۔

فوٹو: پی ٹی آئی

فوٹو: پی ٹی آئی

نئی دہلی :مرکزی کابینہ  نے بدھ کو شہریت ترمیم بل کو منظوری دے دی۔ حالانکہ کئی اپوزیشن پارٹی اس بل کی مخالفت کر رہے ہیں۔شہریت ترمیم بل میں بنگلہ دیش، پاکستان اور افغانستان کے ہندو، جین، عیسائی، سکھ، بودھ اور پارسی کمیونٹی  کے ان لوگوں کو ہندوستانی شہریت  دینے کی تجویز ہے، جنہوں نے ملک میں چھ سال گزار دیے ہیں، لیکن ان کے پاس کوئی دستاویز نہیں ہے۔وزیر اعظم  نریندر مودی کی صدارت  میں ہوئی مرکزی کابینہ کی میٹنگ میں اس تجوزی کو منظوری دی گئی۔ اس بل  کو پارلیامنٹ کے سرمائی سیشن میں پیش کیا جا سکتا ہے۔

اپوزیشن پارٹیاں اس بل کو سماج کو بانٹنے والااور فرقہ وارانہ  بتا رہی ہیں۔اس کوبی جے پی  کے نظریے سے جڑی اہم حصولیابی کا حصہ مانا جا رہا ہے جس میں پناہ گزینوں کے طور پر ہندوستان  میں رہنے والے غیر مسلموں کوشہریت  دینے کی تجویز ہے۔ ان میں سے زیادہ تر لوگ ہندو ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کے توسط سے انہیں اس حالت  میں تحفظ  حاصل ہوگا جب مرکزی حکومت ملک گیر این آر سی کے منصوبے کو آگے بڑھائےگی۔

وہیں،مرکزی کابینہ  کی بیٹھک کے بعد وزیر اطلاعات ونشریات پرکاش جاویڈکر نے بتایا کہ سرکار سبھی کے مفادات اور ہندوستان  کے مفادات کا دھیان رکھےگی۔ انہوں نے کچھ طبقے کے ذریعے  اس کی مخالفت کئے جانے کے بارے میں پوچھے جانے پر کہا کہ لوگ ملک کے مفاد میں اس کا استقبال کریں گے۔مانا جا رہا ہے کہ سرکار اسے اگلے دو دنوں میں پارلیامنٹ میں پیش کرے گی اور اگلے ہفتے اس کو پاس  کرانے کے لیے آگے بڑھائےگی۔

واضح  ہو کہ یہ بل  اس سال جنوری میں لوک سبھا میں پاس ہو گیا تھا لیکن راجیہ سبھا میں پاس نہیں ہو سکا تھا۔وزیر دفاع راجناتھ سنگھ نے منگل کو بی جے پی رکن پارلیامان سے کہا تھا کہ یہ بل سرکار کی اولین ترجیحات میں سے ہے، ٹھیک اسی طرح جیسے آرٹیکل 370 تھا۔کانگریس، ترنمول کانگریس سمیت کچھ اپوزیشن پارٹیو ں نے اس کی تنقید کی ہے۔شہریت (ترمیم)بل پر احتجاج کرتے ہوئے کانگریس کے سینئر رہنما ششی تھرور نے بدھ کو کہا کہ اس سے آئین  کابنیادی اصول  کمتر ہوتا ہے۔انہوں نے کہا، ‘مجھے لگتا ہے کہ بل  غیر آئینی  ہے، کیونکہ بل  میں ہندوستان کے بنیادی تصور کی  خلاف ورزی کی گئی ہے۔ جو یہ مانتے ہیں کہ مذہب کی بنیاد پر ملک  کاتعین  ہونا چاہیے۔ اسی تصور کی بنیاد پر پاکستان بناتھا۔’

انہوں نے کہا کہ ہم نے ہمیشہ  یہ دلیل دی ہے کہ ملک  کا ہمارا وہ تصور ہے جو مہاتما گاندھی، نہرو جی، مولانا آزاد، ڈاکٹرامبیڈکر نے کہا کہ مذہب سے ملک  کاتعین  نہیں ہو سکتا۔دریں اثناانڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، نارتھ ایسٹ ریاستوں کی تشویش کو دھیان میں رکھتے ہوئے اروناچل پردیش، ناگالینڈ، میزورم کے‘انر لائن پرمٹ’ (آئی ایل پی)حلقوں  اور نارتھ ایسٹ  کی چھٹی  فہرست کے تحت آنے والے حلقوں  کو شہریت ترمیم بل سےباہر رکھا گیا ہے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ شہریت ترمیم بل کا فائدہ  اٹھانے والوں کو ہندوستان  کی شہریت  مل جائےگی لیکن وے اروناچل پردیش، ناگالینڈ اور میزورم میں بس نہیں پائیں گے۔ موجودہ ہندوستانی شہریوں پر بھی یہ پابندی  نافذ رہےگی۔آسام ، میگھالیہ اور تریپورہ کا ایک بڑا حصہ اس فہرست کے تحت آنے کی وجہ سے اس متنازعہ بل  کے دائرے سے باہر رہے گا۔

غور طلب ہے کہ نارتھ ایسٹ  کی  کئی ریاستوں میں ان دنوں شہریت ترمیم بل کی مخالفت ہو رہی ہے۔ نارتھ ایسٹ میں کئی تنظیموں  نے اس بل  کی  یہ دعویٰ کرتے ہوئے مخالفت کی ہے کہ وہ علاقہ کے وہاں کے اصلی باشندوں  کے حقوق کو کمتر کر دےگا۔شہریت ترمیم بل کی مخالفت میں گزشتہ  دو دسمبر کوآسام کےکاٹن یونیورسٹی  اورڈبروگڑھ یونیورسٹی کے اسٹوڈنٹ یونین نےیونیورسٹی کیمپس میں بی جے پی  اور آر ایس ایس رہنماؤں  کے داخلے پر پابندی لگاتے ہوئے مظاہرہ  کرنے کا اعلان کیا ہے۔

(خبررساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)