خبریں

سی آئی سی میں 33000 سے زیادہ اپیلیں اور شکایتں زیر التوا: حکومت

اس سے پہلے مرکزی حکومت نے راجیہ سبھا میں بتایا تھا کہ سی آئی سی میں 13000 سے زیادہ ایسے معاملے ہیں، جو ایک سال سے زیادہ وقت سے زیر التوا ہیں۔

سی آئی سی (فوٹو بہ شکریہ : پی آئی بی)

سی آئی سی (فوٹو بہ شکریہ : پی آئی بی)

نئی دہلی: حکومت نے لوک سبھا میں کہا ہے کہ موجودہ وقت میں سینٹرل انفارمیشن کمیشن (سی آئی سی) کے پاس 33000 سے زیادہ اپیلیں اور شکایتں زیر التوا ہیں۔ وزیر جتیندر سنگھ نے  لوک سبھا میں ایک سوال کے تحریری جواب میں یہ جانکاری دی۔ انہوں نے کہا، ‘ جہاں تک سینٹرل انفارمیشن کمیشن کی بات ہے تو اس کے پاس 33487 اپیلیں اور شکایتں زیر التوا ہیں۔ ‘

سنگھ نے کہا کہ حکومت نے ایک پورٹل کی شروعات کی ہے جہاں بیرون ملک رہنے والے ہندوستانی شہری آر ٹی آئی درخواست دائر کر سکتے ہیں۔ اس سے پہلے گزشتہ 28 نومبر کو مرکزی حکومت نے بتایا تھا کہ سینٹرل انفارمیشن کمیشن (سی آئی سی) میں 13000 سے زیادہ ایسے معاملے ہیں، جو ایک سال سے زیادہ وقت تک زیر التوا ہیں۔ ریاستی وزیر ڈاکٹر جتیندر سنگھ نے راجیہ سبھا کو ایک سوال کے تحریری جواب میں بتایا تھا، ‘ سی آئی سی میں ایک سال سے زیادہ وقت تک زیر التوا معاملوں کی کل تعداد 13453 ہے۔ ‘

انہوں نے بتایا تھا کہ سی آئی سی میں 2019-20 کے دوران 20 نومبر تک 14523 دوم اپیلیں / شکایتں درج تھیں۔ ان میں سے 11117 معاملوں کا حل کر دیا گیا جن میں پچھلے زیر التوا معاملے بھی شامل تھے۔ سنگھ نے بتایا تھا کہ 2018-19 میں ایسے 22736 معاملے درج کئے گئے، جن میں سے 17188 معاملوں کا حل کیا گیا۔ سال 2017-18 میں درج ایسے معاملوں کی تعداد 25،815 تھی جن میں سے 29005 کا حل کیا گیا۔

وزیر نے بتایا کہ حکومت آر ٹی آئی قانون، 2005 کی تکمیل میں اصلاح کے لئے قدم اٹھا رہی ہے۔ اس کے تحت ڈی او پی ٹی  نے اگست 2013 میں آر ٹی آئی آن لائن پورٹل شروع کیا۔

معلوم ہو کہ گزشتہ 12 اکتوبر کو آر ٹی آئی قانون نافذ ہونے کی 14ویں سال گرہ پر جاری کی گئی رپورٹ کے مطابق فروری 2019 میں سپریم کورٹ کی ہدایت کے بعد بھی انفارمیشن کمشنر کی وقت پر تقرری نہیں ہو رہی ہے۔ اس کی وجہ سے ملک بھر کے انفارمیشن کمیشن میں زیر التوا معاملوں کی تعداد بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے اور لوگوں کو صحیح وقت پر اطلاع نہیں مل پا رہی ہے۔

آر ٹی آئی قانون کو مضبوط کرنے کی سمت میں کام کرنے والا غیرسرکاری تنظیم ایس این ایس اور سینٹر فار اکویٹی اسٹڈیز (سی ای سی) کے ذریعے تیار کی گئی رپورٹ ‘ ہندوستان میں انفارمیشن کمیشن کے مظاہرہ پر رپورٹ کارڈ، 2018-19 ‘ سے پتہ چلتا ہے کہ کمیشن میں زیر التوا معاملوں کی اہم وجہ انفارمیشن  کمشنر کی تقرری نہ ہونا ہے۔

یہ رپورٹ سرکاری دعووں کے الٹ کچھ اور ہی بات کہتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق،  تمل ناڈو، آندھرا پردیش اور راجستھان کے انفارمیشن کمیشن بنا چیف انفارمیشن کمشنر کے کام کر رہے تھے۔ دسمبر 2018 میں سینٹرل انفارمیشن کمیشن (سی آئی سی)صرف تین انفارمیشن کمشنر کے ساتھ کام کر رہا تھا اور یہاں پر سینٹرل  انفارمیشن کمشنر سمیت انفارمیشن کمشنر کے کل آٹھ عہدےخالی تھے۔

فی الحال سی آئی سی میں چار خالی عہدے ہیں جبکہ زیر التوا معاملوں کی تعداد ہر مہینے بڑھ رہی ہے اور اس وقت ایسے معاملوں کی تعداد 33000 سے بھی زیادہ ہے۔ مہاراشٹر کےریاستی انفارمیشن کمیشن2019 کی شروعات سےہی صرف پانچ انفارمیشن کمشنر کے ساتھ کام کر رہا ہے، جبکہ یہاں 31 مارچ 2019 تک 46000 اپیل اور شکایتں زیر التوا تھیں۔

اسی طرح اڑیسہ  کا ریاستی انفارمیشن کمیشن صرف تین انفارمیشن کمشنر کے ساتھ کام کر رہا ہے جبکہ 31 مارچ 2019 تک یہاں 11500 سے زیادہ اپیلیں اور شکایتں زیر التوا تھیں۔ اسی طرح ملک بھر‌کے انفارمیشن کمیشن میں زیر التوا معاملوں کی تعداد بےحد چونکانے والی اور تشویشناک ہے۔ رپورٹ کے مطابق ملک بھر‌کے 26 انفارمیشن کمیشن میں 31 مارچ 2019 تک کل 218347 معاملے زیر التوا تھے۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)