خبریں

حیدر آباد ریپ-قتل کے ملزمین کے پولیس انکاؤنٹر پر اٹھ رہے سوال

حیدر آباد میں خاتون ڈاکٹر کے ریپ اور قتل کے ملزمین کی جمعہ کی صبح پولیس انکاؤنٹر میں موت کے بعد لوگ پولیس کی حمایت میں سامنے آئے ہیں ، وہیں اس انکاؤنٹر کی جانچ کی مانگ بھی اٹھ رہی ہے۔

فوٹو: اے این آئی

فوٹو: اے این آئی

نئی دہلی: حیدر آباد میں ایک خاتون ڈاکٹر کے ساتھ ریپ  اور قتل کےتمام چاروں ملزمین کے جمعہ کی صبح پولیس تصادم میں مارے جانے کو لےکر متاثرہ کی فیملی نے خوشی کااظہار کیا ہے تو وہیں کئی رہنماؤں اور سماجی کارکنان نے اس انکاؤنٹرپر سوال کھڑے کئے ہیں۔سائبرآباد پولیس کمشنر وی سی سجنر نے کہا، ‘چاروں ملزم پولیس کے ساتھ تصادم میں مارے گئے۔’پولیس کے ایک سینئر افسر نے بتایا کہ تصادم کے دوران دو پولیس اہلکار بھی زخمی ہوئے ہیں۔ دہلی کے نربھیا معاملے میں نربھیا کی ماں نے پولیس تصادم میں ملزمین کےمارے جانے کو لےکر حیدر آباد پولیس کی تعریف کی ہے۔ انہوں نے مانگ کی ہے کہ انکاؤنٹر کرنے والے پولیس اہلکاروں کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی جائے۔

نربھیا کی ماں نے کہا، ‘ میں چاروں ملزمین کو ملی سزا سے کافی خوش ہوں۔پولیس نے کافی اچھا کام کیا۔ میری مانگ ہے کہ پولیس اہلکاروں کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا جانا چاہیے۔ میری بیٹی کے قصورواروں کو بھی موت کی سزا دینی چاہیے۔ ‘خبر رساں ایجنسی اے این آئی کے مطابق، حیدر آباد پولیس کے سینئر افسرانکاؤنٹر کی جگہ  پر پہنچے تھے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ چاروں ملزمین کو موقع واردات پر لے جایا گیا تھا، جہاں ان لوگوں نے خاتون ڈاکٹر کا ریپ  کے بعد قتل کر دیاتھا۔ اس دوران چاروں بھاگنے کی کوشش کرنے لگے اور پولیس کی فائرنگ میں مارے گئے۔

 حیدر آباد کے سائبرآباد پولیس کمشنر وی سی سجنار نے کہا کہ یہ واقعہ جمعہ کی صبح تین بجے سے چھ بجے کے درمیان کا ہے۔ سجنار نے اے این آئی سے کہا، ‘ تمام ملزمین محمد عارف، نوین، شیوا اورچیناکیشول جمعہ کی صبح تین سے چھ بجے کے درمیان شادنگر کے چتنپلی کے پاس پولیس انکاؤنٹر میں مارے گئے۔’وہیں، ونچت بہوجن اگھاڑی کے صدر پرکاش امبیڈکر نے حیدر آباد پولیس کے خلاف جانچ کی مانگ کی ہے۔

انہوں نے کہا، ‘ تمام ملزم تھے، نہ کہ قصوروار۔ ایک ایسا ہی واقعہ چھتیس گڑھ میں بھی ہوا تھا، جہاں 36 لوگوں کو نکسلی بتاکر مار دیا گیا تھا، جبکہ وہ نکسلی نہیں تھے۔ ‘

حیدر آباد پولیس کی اس کارروائی پر بی جے پی رکن پارلیامان مینکا گاندھی نےکہا، ‘ جو بھی ہوا ہے، بہت خوفناک ہوا ہے، اس ملک کے لئے۔ آپ قانون کو اپنے ہاتھ میں نہیں لے سکتے، ویسے بھی ان کو پھانسی ہونی تھی۔ اگر آپ ان کو پہلے ہی بندوقوں سے مار دو‌گے تو پھر عدالت کا، پولیس کا، قانون کا فائدہ ہی کیا ہے۔ پھر تو آپ بندوق اٹھاؤ اور جس کو بھی مارنا ہے، مارو۔ ‘

اس واقعہ پر دہلی کے وزیراعلیٰ اروند کیجریوال نے کہا، ‘آج کل جس طرح سےریپ کے معاملے ایک ایک کرکے سامنے آ رہے ہیں، لوگوں میں غصہ ہے۔ پھر چاہے وہ اناؤ کا معاملہ ہو یا حیدر آباد کا۔ اس لئے لوگ ان انکاؤنٹر پر خوشی ظاہر کر رہےہیں۔ یہ تشویشناک ہے، جس طرح سے لوگوں نے عدلیہ میں اعتماد کھویا ہے۔ تمام حکومتوں کو ساتھ مل‌کر اس سمت میں قدم اٹھانا ہوگا کہ کس طرح سے ملک کے عدلیہ نظام کو مضبوط بنایا جائے۔’

 کانگریس کی قومی ترجمان شرمشٹھا مکھرجی نے ریپ اور قتل کے ملزمین کی پولیس تصادم میں مارے جانے کے واقعہ کو لےکرکہا کہ اس کی غیر جانبدارانہ تفتیش ہونی چاہیے تاکہ لوگوں کو اعتماد ہو سکے کہ یہ منصوبہ بند تصادم نہیں تھا۔ دہلی مہیلا کانگریس کی صدر شرمشٹھا نے یہ بھی کہا کہ ان کا یہ ذاتی بیان ہے۔انہوں نے کہا، ‘ایک عورت ہونے کے ناطے ہمارا فوری رد عمل یہی ہے کہ بہت اچھا ہوا لیکن دوسری طرف یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ عوام میں بہت  غصہ تھا اور حکومت پردباؤ تھا۔ ‘

انہوں نے کہا، ‘اگر عوام کے دباؤ میں آکر حکومت نے ایسا کوئی قدم اٹھایاجو انصاف سے الگ قتل ہو سکتا ہے تو یہ ملک کے لئے بہت خطرناک ہے اور ایک ایساپیٹرن طے کرے‌گا جو بعد میں کسی بھی عام شہری کے لئے خطرناک ہو سکتا ہے۔ اس لئے یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ منصوبہ بند تصادم نہیں تھا۔ ہم چاہتے ہیں کہ اس کی غیرجانبدارانہ تفتیش ہو تاکہ لوگوں کو بھروسہ ہو جائے کہ یہ منصوبہ بند تصادم نہیں تھا۔’

اس واقعہ پر بی جے پی رکن پارلیامان لاکیٹ چٹرجی نے کہا، ‘اس طرح کےانکاؤنٹر کو قانونی منظوری دینی چاہیے۔ ‘

سماجوادی پارٹی سے رکن پارلیامان جیا بچن نے کہا، ‘ دیر آئے،درست آئے… دیر آئے، بہت دیر آئے۔ ‘

کانگریس رہنما کماری شیلجہ نے کہا، ‘شہریوں کو قانون میں اعتماد رکھناچاہیے کہ قصورواروں کو عدلیہ نظام کے ذریعے سزا ملے‌گی۔’آزاد رکن پارلیامان نونیت رانا نے کہا، ‘ ایک ماں، ایک بیٹی اور ایک بیوی ہونے کے ناطے میں اس انکاؤنٹر کا استقبال کرتی ہوں۔ نہیں  تو یہ لوگ سالوں تک جیل میں ہوتے۔ نربھیا کا نام بھی نربھیا نہیں تھا، لوگوں نے نام دیا تھا۔ مجھے لگتا ہےکہ اس کو نام دینے کے بجائے ان کو ایسا انجام دینا ضروری ہے۔ ‘

وائی ایس آر کانگریس پارٹی کے رکن پارلیامان کنومورو رگھو رام کرشن راجونے کہا، ‘ ان کو گولی لگنی چاہیے کیونکہ وہ اسی کے لائق تھے۔ خدا کافی رحیم  ہےکہ ان کو گولی لگی۔ یہ ایک اچھا سبق ہے۔ انہوں نے بھاگنے کی کوشش کی اور مارے گئے۔کسی بھی این جی او کو اس کی مخالفت نہیں کرنی چاہیے اور اگر وہ کرتے ہیں تو وہ ملک کےغدار ہیں۔ ‘

آرجے ڈی کی رہنما رابڑی دیوی نے کہا، ‘ حیدر آباد میں جو ہوا،اس سے مجرموں کو سبق ملے‌گا۔ ہم اس کا استقبال کرتے ہیں۔ بہار میں بھی خواتین کےخلاف جرم کے معاملے بڑھ رہے ہیں۔ ریاستی حکومت کچھ نہیں کر رہی ہے۔ ‘

چھتیس گڑھ کے وزیراعلیٰ بھوپیش بگھیل نے ملزمین کے انکاؤنٹر پر کہا، ‘ جب کوئی مجرم بچ‌کے بھاگنے کی کوشش کرتا ہے، تو ایسے میں پولیس کے پاس کوئی اختیارنہیں رہتا۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ انصاف ہوا ہے۔ ‘

حیدر آباد پولیس انکاؤنٹر پر نیشنل وومین کمیشن کی صدر ریکھا شرما نے کہا، ‘ایک عام شہری ہونے کے ناطے میں خوش ہوں کہ یہ خاتمہ ہے اور ہم سب یہی چاہتے تھےلیکن یہ خاتمہ عدالتی نظام کے ذریعے ہونا چاہیے تھا۔ یہ مناسب طریقے سے ہوناچاہیے تھا۔ ہم نے ہمیشہ سے مجرموں کے لئے سزائے موت کی مانگ کی ہے اور یہاں پولیس نے اچھا انصاف کیا۔ مجھے نہیں پتہ کہ یہ کس صورت حال میں ہوا۔ ‘

اس پر بی ایس پی  سپریمو مایاوتی نے کہا، ‘اتر پردیش میں خواتین کے خلاف جرم بڑھ رہا ہے لیکن ریاستی حکومت سو رہی ہے۔ یہاں اور دہلی کی پولیس کو حیدر آباد کی پولیس سے سبق لینا چاہیے لیکن بد قسمتی سے یہاں مجرموں سے سرکاری مہمان کی طرح برتاؤ کیا جاتا ہے۔ اتر پردیش میں فی الحال جنگل راج ہے۔آل انڈیا پروگریسو وومین ایسوسی ایشن (اے آئی پی ڈبلیو) کی سکریٹری کویتاکرشنن نے کہا، ‘ یہ انصاف نہیں ہے بلکہ پولیس، عدلیہ، حکومتوں کی جوابدہی کی مانگوں کو خاموش کرانے کی سازش ہے۔ اپنے کام کے متعلق جوابدہ ہونے اور خواتین کےحقوق کی حفاظت کو یقینی بنانے میں حکومت کی ناکامی کو لےکر ہمارے سوالوں کے جواب دینےکو لےکر تلنگانہ کے وزیراعلیٰ اور پولیس نے ماب لنچنگ کے رہنماؤں کی طرح عمل کیا۔ ‘

واضح  ہو کہ گزشتہ27 نومبر کو حیدر آباد میں ایک خاتون ڈاکٹر کے ساتھ ریپ کرکے اس کا قتل کر دیا گیا تھا اور اس کی لاش کو جلا دیا گیا تھا۔

 پولیس کو اگلے دن 28 نومبر کو خاتون کی ادھ جلی لاش ایک زیرتعمیر پل کے پاس سے ملی تھی۔ پولیس نے سی سی ٹی وی فوٹیج کی مدد سے چار ملزمین کو گرفتار کیا تھا۔