خبریں

تلنگانہ انکاؤنٹر: پریس کانفرنس میں کمشنر نے کہا-ملزمین نے پستول چھین کر کی تھی فائرنگ

این ایچ آر سی کے نوٹس پر سائبرآباد کے پولیس کمشنر بی سی سجنار نے اسی پریس کانفرنس میں کہا کہ ہم این ایچ آر سی کے سوالوں کا جواب دیں گے۔

کمشنر سجنار/ فوٹو: اے این آئی

کمشنر سجنار/ فوٹو: اے این آئی

نئی دہلی: انکاؤنٹر کے بعد تلنگانہ کے سائبر آباد پولیس کمشنر وی سجّنار نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ قانون نے اپنا کام کیا ہے۔انھوں نے کہا کہ’ واردات کی جگہ پر 10 پولیس اہلکاروں کے ساتھ ری کریشن کے لیے گئے تھے۔لیڈی ڈاکٹر کا موبائل ان لوگوں نے چھپا دیا تھاجس کی تلاش کرنی تھی اور واردات کی جگہ سےسائنٹفک ثبوت بھی اکٹھا کرنا تھا۔’

انھوں نے دعویٰ کیا کہ’ 4 میں سے 2مجرم نے پولیس کی پستول  چھین کر پولیس والوں پر فائرنگ کر دی،جس میں ایک پولیس اہلکار کے سر میں گولی لگ گئی۔اس کی حالت نازک بنی ہوئی ہے۔’انھوں نے کہا کہ پولیس نے انکاؤنٹر سے پہلے وارننگ دی تھی لیکن وہ لوگ فائرنگ کرتے رہے۔

تلنگانہ پولیس نے بتایا کہ’ ہم نے پورے معاملے کی سائنٹفک طریقے سے جانچ کی۔جانچ کے بعد ہم نے 4 لوگوں کو گرفتار کیا اور معاملے کو کورٹ میں رکھا۔کورٹ نے 10 دن کے لیے جیل بھیج دیا۔4 اور 5 دسمبر کو ہم نے جیل میں پوچھ تاچھ کی۔آج صبح جب واردات کی جگہ لیڈی ڈاکٹر کا موبائل تلاش کرنے پہنچے تو دو مجرم عارف اور چنتاکوٹا نے پولیس پر پتھر پھینک کر مارا اور پستول چھین کر گولی چلا دی۔پولیس نے ان کو سرینڈر کرنے کو بھی کہا لیکن وہ نہیں مانے۔انکاؤنٹر میں دہ پولیس والے زخمی ہوئے ہیں۔ایک پولیس اہلکار کے سر میں گولی لگی ہے،اس کی حالت ابھی بھی نازک ہے۔’

تلنگانہ پولیس نے اپنی پریس کانفرنس میں بتایا کہ انکاؤنٹر صبح  5:45سے 6:15کے بیچ ہوا۔انکاؤنٹر کے وقت 10 پولیس اہلکار موجود تھے۔ایک ایس آئی اور ایک کانسٹبل زخمی ہو گئے ہیں۔

این ایچ آر سی کے نوٹس پر سائبرآباد کے پولیس کمشنر بی سی سجنار نے اسی پریس کانفرنس میں کہا کہ ہم این ایچ آر سی کے سوالوں کا جواب دیں گے۔غور طلب ہے کہ واقعہ کے بعد سے کئی لوگوں کے ذریعے اس معاملے پر سوال کھڑے کیے جا رہے ہیں۔غور طلب ہے کہ نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن (این ایچ آر سی)نے معاملے کا از خود نوٹس لیتے ہوئے پولیس انکاؤنٹر کے جانچ کا حکم دیا  ہے۔

بتا دیں کہ گزشتہ 27 نومبر کی رات میں حیدرآباد شہر کے باہری علاقے میں سرکاری اسپتال میں کام کرنے والی 25 سالہ  خاتون ڈاکٹر سے  4 نوجوانوں نے ریپ کر کےاس کا قتل کر دیا تھا۔چاروں نوجوان لاری مزدور ہیں۔اس جرم کے سلسلے میں چاروں ملزم نوجوانوں کو 29 نومبر کو گرفتار کیا گیا تھا۔ اگلے دن 30 نومبر کو ان سبھی کو 14 دن کی عدالتی حراست میں بھیج دیا گیا تھا۔

خاتون ڈاکٹر کے لاپتہ ہونے کی ایف آئی آر درج کرنے میں لاپرواہی برتنے کے معاملے میں 3 پولیس اہلکاروں کو برخاست بھی کیا جا چکا ہے۔ 27 نومبر کی رات خاتون ڈاکٹر لاپتہ ہو گئی تھیں اور اگلی صبح ان کی جلی ہوئی لاش حیدرآباد کے شادنگر میں ایک زیر تعمیر فلائی اوور کے نیچے ملی تھی۔

الزام ہے کہ 27 نومبر کی شام چاروں ملزمین نے جان بوجھ کر خاتون ڈاکٹر کی اسکوٹی پنکچر کی تھی اور پھر مدد کے بہانے ان کے ساتھ ریپ کیا اور قتل کر دیا۔پھر لاش کو جلا دیا۔