خبریں

تمام اختیارات وزیر اعظم دفتر کے پاس ہونا معیشت کے لئے ٹھیک نہیں: رگھو رام راجن

آر بی آئی کےسابق گورنر رگھو رام راجن نے کہا کہ ہندوستان اقتصادی بحران  کی زد  میں ہے۔اقتصادی سستی کو دور کرنے لیے یہ ضروری ہے کہ مودی حکومت سب سے پہلےمسئلہ کو قبول کرے۔

وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ آر بی آئی کے سابق گورنر رگھو رام راجن (فوٹو : پی ٹی آئی)

وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ آر بی آئی کے سابق گورنر رگھو رام راجن (فوٹو : پی ٹی آئی)

نئی دہلی: ریزرو بینک آف انڈیا(آر بی آئی)کے سابق گورنر رگھو رام راجن نے کہا ہے کہ ہندوستانی معیشت اس وقت ‘سستی ‘ کے چنگل میں پھنسی ہے اور اس میں بےچینی اور بیماری کے گہرے اشارے دکھائی دے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت ہندوستانی معیشت میں تمام اختیارات  وزیر اعظم دفتر کے ماتحت ہیں اوروزیروں کے پا س کوئی اختیار نہیں ہے۔’انڈیا ٹوڈے ‘ میں شائع ایک مضمون میں راجن نے ہندوستان کی کمزور پڑتی معیشت کو سستی سےباہر نکالنے کے لئے اپنے مشورے دیے ہیں۔ انہوں نے لگاتار سست پڑتی معیشت میں اصلاح لانے کے لئے سرمایہ  کاری کے شعبہ، زمین اور مزدور بازاروں میں اصلاحوں کو آگے بڑھانے کی اپیل کی ہے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے سرمایہ کاری اور شرح نمو کو بڑھانے پر بھی زوردیا ہے۔

انہوں نے کہاکہ ہندوستان کو محتاط طریقے سے ایف ٹی اے میں شامل ہوناچاہیے تاکہ مقابلہ بڑھایا جا سکے اور گھریلو صلاحیت میں اصلاح لائی جا سکے۔راجن نے اس میں لکھا ہے، ‘یہ سمجھنے کے لئے کہ غلطی کہاں ہوئی ہے، ہمیں سب سے پہلے موجودہ حکومت کے سینٹرلائزڈ سسٹم  سے شروعات کرنے کی ضرورت ہے۔ فیصلہ کارروائی  ہی نہیں، بلکہ اس حکومت میں نئے خیالات اور منصوبے جو بھی سامنے آ رہے ہیں وہ سب وزیر اعظم کے اردگردرہنے والے لوگوں اور وزیر اعظم دفتر (پی ایم او) سے جڑے لوگوں تک ہی محدود ہیں۔ ‘

راجن نے لکھاہے، ‘یہ حالت پارٹی کے سیاسی ایجنڈے اور سماجی ایجنڈےکے حساب سے تو ٹھیک کام کرسکتی ہے۔ کیونکہ اس سطح پر تمام چیزیں واضح طریقے سے طے ہیں اور ان شعبوں میں ان لوگوں کے پاس مہارت بھی ہے۔ لیکن اقتصادی اصلاحات کے معاملے میں یہ اتنے بہترطریقے سے کام نہیں کر سکتی ہے۔ کیونکہ اس معاملے میں سب سے اوپر پر کوئی مفید اورواضح ایجنڈہ پہلے سے طے نہیں ہے، اس کے ساتھ ہی ریاستی سطح کے مقابلے قومی سطح پرمعیشت کس طرح سے کام کرتی ہے اس کے بارے میں بھی جانکاری کی کمی ہے۔ ‘

انہوں نے کہاکہ پیش رو حکومتیں بے شک ‘غیرمنظم’ اتحاد تھیں، لیکن انہوں نے اقتصادی لبرلائزیشن کے شعبے میں لگاتار کام کیا۔راجن نے کہا،’ اقتدار کا حد سے زیادہ سینٹرلائزیشن، توانا اور مضبوط وزراء کی کمی اور ایک آسان اورواضح سمت دینے والے نظریے کی کمی سے یہ یقینی ہوا ہے کہ کوئی بھی اصلاح تب ہی رفتارپکڑتی ہے جبکہ پی ایم او اس پر دھیان دیتا ہے، لیکن جب پی ایم او کا دھیان دوسرےاہم مدعوں کی طرف رہتا ہے تو یہ مدعے پیچھے رہ جاتے ہیں۔ ‘

راجن نے کہاکہ اقتصادی سستی کو دور کرنے کی شروعات کے لئے یہ ضروری ہے کہ مودی حکومت سب سےپہلے مسئلہ کو قبول کرے۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان اقتصادی بحران  کی زد میں ہے۔’شروعاتی پوائنٹ یہ ہے کہ مسئلہ کتنا بڑا ہے اس کو سمجھا جائے، ہرایک اندرونی یا باہری ناقدکو سیاسی مفاد سے متاثر نہیں بتایا جانا چاہیے۔ یہ ماننا کہ مسئلہ عارضی ہے اوربری خبروں کو دبانے اور آسان سروے کے ذریعے اس کا حل کیا جا سکے‌گا، یہ سب بندکرنا ہوگا۔ ‘

ہندوستان کی اقتصادی شرح نمو رواں  مالی سال کی جولائی-ستمبر سہ ماہی میں گھٹ‌کر 4.5 فیصد رہ گئی ہے جو اس کے چھ سال کی نچلی سطح ہے۔ افراط زر بڑھنے سے افراطِ زر بحران  کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔ یہ ایسی حالت ہوتی ہے جبکہ افراط زر بڑھنے کی وجہ سے مانگ میں کمی آنے لگتی ہے۔راجن نے لکھاہے کہ تعمیر، ریئل اسٹیٹ اور بنیادی ڈھانچہ کے شعبے ‘ گہرے بحران ‘ میں ہیں۔ اسی طرح غیر بینکنگ مالی کمپنیاں (این بی ایف سی)بھی دباؤ میں ہیں۔ این بی ایف سی میں بحران  ہونے اور بینکوں میں پھنسا قرض بڑھنے کی وجہ سے معیشت میں قرض کابحران پیدا ہوا ہے۔

راجن نے کہاہے کہ غیر-بینکنگ مالی کمپنیوں (این بی ایف سی) کی جائیدادوں کے معیار کا تجزیہ کیا جانا چاہیے۔ کارپوریٹ اور فیملیوں کو دیا گیا قرض بڑھ رہا ہے۔ مالی شعبے کےکئی حصے شدید دباؤ میں ہیں۔ بےروزگاری کے معاملے میں انہوں نے کہا کہ نوجوانوں کےدرمیان یہ بڑھ رہی ہے۔ اس سے نوجوانوں کے درمیان عدم اطمینان بھی بڑھ رہا ہے۔ ‘ گھریلوصنعتی دنیا نئی سرمایہ کاری نہیں کر رہی ہے اور یہ حالت اس بات کا پختہ اشارہ دیتی ہے کہیں کچھ بہت غلط ہو رہا ہے۔ ‘

راجن نے حصول اراضی، مزدور قوانین، مستحکم ٹیکس اور ریگولیشن، قرض میں پھنسےڈیولپرس کا دیوالیہ کارروائی  کے تحت تیزی سے حل، ٹیلی مواصلات شعبے میں مقابلہ کو بنائےرکھنا اور کسانوں کو ضروری سامان اور مالی سہولیات دستیاب کرانا ضروری ہے۔راجن نے یہ بھی کہا کہ حکومت کو متوسط طبقہ کے لئے ذاتی آمدنی کی محصول کی شرحوں میں کٹوتی سے فی الحال پرہیز کرنا چاہیے اور اپنے اہم مالی وسائل کا استعمال دیہی غریبوں کومنریگا جیسی اسکیموں کے ذریعے حمایت دینے کے لئے کرنا چاہیے۔

(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)