خبریں

ملک کے دوہزار شہروں میں ایک ساتھ شہریت قانون کے خلاف مظاہرہ

جمیعۃ علماء ہند نے کہا کہ ،یہ قانون ملک کے دستور کو پامال کرنے والا ہے،ہم اس کو مسلمانوں کے خلاف نہیں بلکہ ملک کے خلاف سمجھتے ہیں۔

فوٹو: جمیعۃ علماء ہند

فوٹو: جمیعۃ علماء ہند

نئی دہلی : متنازعہ  شہریت ترمیم بل  کی لوک سبھا اور راجیہ سبھا سے منظوری کے خلاف جمعہ کو جمیعۃ علماء ہند کی مختلف یونٹوں کی جانب سے ملک گیر پیمانے پر تقریباً دوہزار شہروں میں ‘احتجاجی مظاہرہ’منعقد کیا گیا۔جمیعۃ نے پریس ریلیز جاری کرکے اس کی جانکاری دی ہے۔ریلیز میں کہا گیا ہے کہ اس موقع پر ملک کے تمام بڑے شہروں دہلی، ممبئی، جے پور، بنگلور، حیدرآباد، وجے واڑہ، نلگنڈہ، ناگپور، مشرقی و مغربی گوداوری، کلکتہ، بھوپال، احمدآباد، پونا،سورت، چنڈی گڑھ،بنارس، کانپور،دیوبند، لکھنو، گوالپاڑہ،اگرتلہ وغیرہ میں بھی ہزاروں مظاہرین نے پلے کارڈ اور نعروں کے ذریعہ اپنے غم و غصہ کا اظہار کیا۔

اس موقع پر لوگوں نے جو پلے کارڈ اپنے ہاتھوں میں اٹھا رکھے تھے ان پر چند نعرے کچھ اس طرح لکھے تھے ‘دستور بچاؤ، شہریت قانون واپس لو، مذہبی تفریق منظور نہیں، کیب بٹوارے کی سازش ہے،ایک ملک- ایک قوم، ہم اس کمیونل لاء کی مذمت کرتے ہیں،CABبھارت  کے خلاف سازش‘۔

 جنتر منتر نئی دہلی پر منعقد پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے جمیعۃ علماء ہند کے جنرل سکریٹری مولانا محمود مدنی نے کہا کہ یہ قانون ملک کے دستور کو پامال کرنے والا ہے،ہم اس کو مسلمانوں کے خلاف نہیں بلکہ ملک کے خلاف سمجھتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ آج جمیعۃ علماء ہند کے زیر اہتمام پورے ملک میں تقریباً دو ہزار شہروں اور قصبات میں احتجاج ہو رہا ہے۔یہاں دہلی میں مختلف جگہوں پر پولیس نے لوگوں کو روک رکھا ہے۔

 اس موقع پر اپنے خطاب میں جمیعۃ کے سکریٹری مولانا نیاز احمد فاروقی نے کہا کہ کچھ لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ بل پاس ہوگیا ہے، اب مظاہرے سے کوئی فائد ہ نہیں ہے، میں کہتاہوں کہ اب تو لڑائی شروع ہوئی ہے، دوسری بات یہ ہے کہ مسلمان کبھی فائدہ اور نقصان کا حساب کرکے حق کے لیے آواز بلند نہیں کرتا بلکہ وہ اس لیے ایسا کرتا ہے کیوں کہ اس کا ایمان اسے حق بولنے کا حکم دیتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ملک کے آئین کی لڑائی وقتی نہیں ہوتی بلکہ اس کے لیے مسلسل جد وجہد کی ضرورت ہے۔

فوٹو: جمیعۃ علماء ہند

فوٹو: جمیعۃ علماء ہند

 پریس ریلیز میں بتایا گیا ہے کہ  ملک بھر میں احتجاج کے بعد ڈی ایم، ایس ڈی ایم کے ذریعہ صدر جمہوریہ ہند کے نام ایک میمورنڈم بھی ارسال کیا گیا،د ہلی میں باضابطہ صدارتی محل پہنچ کر میمورنڈم دیا گیا، جمیعۃ علماء ہند کے ذریعہ پیش کردہ میمورنڈم میں کہا گیا ہے کہ:

عالی مرتبت صدر جمہوریہ ہند!(1)ہم جمیعۃ علماء ہند کے ممبران و معاونین، فرقہ پرستانہ شہریت ترمیم بل 2019ء کو رد کرتے ہیں، کیوں کہ اس میں مذہب کو شہریت  کی بنیاد بنایا گیا ہے۔اس میں مذکور پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان کی اقلیتوں کو پناہ دینے کی بات حکومت ہند کا جھوٹا بہانہ ہے، در اصل اس کے پیچھے مذہب کی بنیاد پر تفریق پوشیدہ ہے۔ اس سے ملک کی قومی یگانگت براہ راست مجروح ہوتی ہے(2)تحریک آزادی کے دوران ملک کے معماروں نے جس ’آئیڈیا آف انڈیا‘اور دستور کی بنیاد رکھی تھی اس کا منشا یہ تھا کہ تمام مذاہب کے لوگوں کے ساتھ برابری کا معاملہ کیا جائے۔ مذکورہ بل اس بلند مقصد اور ملک کی عظیم روایت کے بالکل برعکس ہے (3)  دستور ہند کی دفعہ (14اور 15) ریاست کو پابند بناتی ہے کہ وہ کسی بھی شخص کے ساتھ ہرگز نابرابری کا سلوک نہ کرے اور ذات پات،عقیدے اور نسل کی بنیاد پر امتیاز نہ برتا جائے۔اس کے مدنظر لوک سبھا اور راجیہ سبھا سے منظور شدہ بل دستورکے بنیادی ڈھانچے کے خلاف ہے

(4) یہ بل آسام معاہدہ سے بھی ٹکراتاہے۔چوں کہ یہ بل اس معاہدہ کو کالعدم بنا دے گا جو کہ شمال مشرقی ریاستوں میں امن و امان کے قیام پر منفی اثرڈالے گا(5)ہم اس غیر آئینی اور امتیاز پر مبنی قانون کو مسترد کرتے ہیں اور اس عظیم وطن کے تمام امن پسند سیکولر شہریوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اجتماعی طور سے اپنی آواز بلندکریں اور اس قانون کے نفاذ کو روکنے کے لیے ہر ممکن پر امن وسیلہ اپنائیں اور اپنا احتجاج درج کرائیں (6)ہم صدر جمہوریہ ہند سے اپیل کرتے ہیں کہ اس غیر منصفانہ اور فرقہ وارانہ قانون کو روکنے کے لیے اپنے دستوری اختیار کا استعمال کریں۔ ہم سپریم کورٹ سے بھی اپیل کرتے ہیں کہ وہ ازخود اس قابل مذمت اکثریت کے زیر اثر بنائے گئے قانون سازی کا نوٹس لے کیوں کہ اس میں آئین کے بنیادی ڈھانچہ کو پامال کیا گیا ہے۔“

 قابل ذکر ہے کہ کئی ملکی اور سماجی رہنماؤں نے جمیعۃ علماء ہند کے احتجاج کی حمایت اور مجمع سے خطاب کیا۔ اسی طرح پورے ملک میں لوگوں نے جمعہ کے بعد سڑک پر نکل کر اس بل کی مخالفت کی۔