خبریں

بڑے بحران کی طرف بڑھ رہا ہے ہندوستان، آئی سی یو میں جا رہی معیشت: سابق چیف اکانومک ایڈوائزر

نریندر مودی حکومت میں چیف اکانومک ایڈوائزر رہتے ہوئے ارویند سبرامنیم نے دسمبر 2014 میں دوہرے بیلنس شیٹ کا مسئلہ اٹھایا تھا، جس میں نجی صنعت کاروں کے ذریعے لئے گئے قرض بینکوں کےاین پی اے بن رہے تھے۔سبرامنیم نے کہا کہ ہندوستان کی معیشت ایک بار پھر سے دوہرےبیلنس شیٹ کے بحران سے جوجھ رہی ہے۔

 چیف اکانومک ایڈوائزرارویند سبرامنیم (فوٹو : پی ٹی آئی)

چیف اکانومک ایڈوائزرارویند سبرامنیم (فوٹو : پی ٹی آئی)

نئی دہلی: سابق چیف ایڈوائزرارویند سبرامنیم نے کہا کہ ہندوستان کی معیشت ایک بار پھر سےدوہرے بیلنس شیٹ کے بحران سے جوجھ رہی ہے اور اس کی وجہ سے بڑی مندی آنے کے آثارہیں۔ سبرامنیم نے ہارورڈیونیورسٹی کے سینٹر فار انٹرنیشنل ڈیولپمنٹ کے ڈرافٹ ورکنگ پیپر میں کہا، ‘ صاف طور پر یہ کوئی عام بحران  نہیں ہے۔ یہ ہندوستان کی بڑی مندی ہے جہاں معیشت آئی سی یو میں جا رہی ہے۔ ‘

نریندر مودی حکومت میں چیف اکانومک ایڈوائزررہتے ہوئے سبرامنیم نے دسمبر 2014 میں دوہرے بیلنس شیٹ کامسئلہ اٹھایا تھا، جس میں نجی صنعت کاروں کے ذریعے لئے گئے قرض بینکوں کے این پی اے بن رہے تھے۔انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کے ہندوستانی دفتر کے سابق چیف جوش فیمن کے ساتھ مل‌کر لکھے گئے اپنے نئےپیپر میں سبرامنیم نے پہلے اور دوسرے دوہرے بیلنس شیٹ میں فرق کو بتایا ہے۔سبرامنیم فی الحال ہاورڈ کینیڈی اسکول میں پڑھاتے ہیں۔

پہلی بار کا دوہرابیلنس شیٹ 2004-11 کی سرمایہ کاری بوم کے دوران اسٹیل اوربجلی کےسیکٹر کی کمپنیوں کے لئے کئے گئے بینک قرض کے بارے میں تھا۔ وہیں، دوسری بار کادوہرا بیلنس شیٹ نوٹ بندی کے بعد غیر-بینکنگ مالی کمپنیوں (این بی ایف سی) اورریئل اسٹیٹ فرموں کو شامل کرنے والا ایک بڑا واقعہ ہے۔ انہوں نے کہا، ‘ نوٹ بندی کے بعد، بینکوں میں بڑی تعداد میں نوٹ پہنچے جس کا بڑا حصہ قرض کے طور پر این بی ایف سی کے پاس گئے۔ ان پیسوں کو این بی ایف سی نے ریئل اسٹیٹ سیکٹر کو دیا۔2017-18 تک، این بی ایف سی تقریباً 500000 کروڑ روپے کا بقایا غیر منقولہ جائیداد قرض کے تقریباً آدھے کے لئے ذمہ دار تھے۔ ‘

سبرامنیم کے مطابق، ‘ستمبر 2018 میں آئی ایل اینڈ ایف ایس کا زوال ایک ہلچل پیدا کرنے والا واقعہ تھا۔وہ ہلچل نہ صرف 90000 کروڑ روپے سے زیادہ کے قرض کی وجہ سے تھی، بلکہ پورے این بی ایف سی سیکٹر کی تشخیص کرنے کے لئے بھی تھی۔ ‘انہوں نے کہا، ‘موجودہ بحران صرف اس لئے باعث تشویش نہیں ہے کہ 2019-20 کی دوسری سہ ماہی میں جی ڈی پی شرح نمو 4.5 فیصدی رہی۔ اس سے زیادہ فکر والی بات یہ ہے کہ اس کےاعداد و شمار الگ الگ ہیں۔ ‘

اس سے پہلے ایک رسالہ میں شائع ایک مضمون میں ریزرو بینک آف انڈیا(آر بی آئی)کے سابق گورنر رگھو رام راجن نے کہا تھا کہ ہندوستانی معیشت اس وقت ‘ سستی ‘ کے چنگل میں پھنسی ہے اور اس میں بےچینی اور بیماری کے گہرے اشارے دکھائی دے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ اس وقت ہندوستانی معیشت میں تمام اختیارات وزیر اعظم دفتر کے تحت مرکوز ہیں اور وزیروں کے پاس کوئی اختیارنہیں ہے۔

انہوں نے لگاتار سست پڑتی معیشت میں اصلاح لانے کے لئے سرمایہ کے شعبے، زمین اور مزدور بازاروں میں اصلاحات کو آگے بڑھانے کی اپیل بھی کی۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے سرمایہ کاری اورترقی کو بڑھانے پر بھی زور دیا۔ وہیں، سابق وزیر خزانہ پی چدمبرم نے پچھلے ہفتے کہا تھا کہ بی جے پی حکومت کا ماننا ہے کہ اس مالی سال کےسات مہینہ بعد بھی معیشت کے سامنے آ رہے مسائل سائیکلک  ہیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ حکومت کو معیشت کی کوئی خبر نہیں ہے۔ وہ نوٹ بندی، ناقص جی ایس ٹی، ٹیکس دہشت گردی جیسی خوف ناک غلطیوں کا بچاؤ کرنے پر اڑی ہوئی ہے۔

 وہیں، پچھلے مہینےسابق وزیر اعظم منموہن سنگھ نے جی ڈی پی کی 4.5فیصد کی شرح نمو کو ناکافی اور تشویشناک بتایا تھا۔ معیشت پر ایک قومی کانفرنس میں سنگھ نے کہا کہ معیشت کی حالت بےحد تشویشناک ہے لیکن میں یہ بھی کہوں‌گا کہ ہمارے سماج کی حالت زیادہ تشویشناک ہے۔انہوں نے کہا تھا کہ جی ڈی پی کے اعداد و شمار 4.5 فیصد کی سب سےکم سطح پر ہے۔ یہ صاف طور پر ناقابل قبول ہے۔ ملک کی توقع 8-9 فیصد کی شرح نمو ہے۔ پہلے سہ ماہی کی 5.1 فیصد جی ڈی پی سے دوسری سہ ماہی میں 4.5 فیصد پر پہنچنا تشویشناک ہے۔ اقتصادی پالیسیوں میں کچھ تبدیلی کر دینے سے معیشت کو زندہ کرنے میں مدد نہیں ملے‌گی۔

پچھلے مہینے ہی آر بی آئی کے سابق گورنر سی رنگ راجن نے کہا تھا کہ معیشت کی حالت ٹھیک نہیں ہے۔ اس کےساتھ ہی انہوں نے کہا تھا کہ موجودہ شرح نمو سے 2025 میں 5000 ارب ڈالر کی معیشت بننے کا سوال ہی نہیں ہے۔

(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)