خبریں

یونیورسٹی میں طلبا پر پولیس کارروائی ناقابل قبول، اعلیٰ سطحی جانچ ہو: جامعہ وائس چانسلر

جامعہ ملیہ اسلامیہ کی وائس چانسلر پروفیسر نجمہ اختر نے کہا کہ ہم کیمپس کے اندر پولیس کارروائی کو لےکر ایف آئی آر کرائیں‌گے۔ کیمپس میں پولیس کی موجودگی کو یونیورسٹی برداشت نہیں کرے‌گی۔

جامعہ ملیہ اسلامیہ کی وی سی نجمہ اختر (فوٹو : پی ٹی آئی)

جامعہ ملیہ اسلامیہ کی وی سی نجمہ اختر (فوٹو : پی ٹی آئی)

نئی دہلی: دہلی کی جامعہ ملیہ اسلامیہ کی وائس چانسلر پروفیسر نجمہ اختر نے سوموار کو کہا کہ یونیورسٹی کیمپس  میں پولیس کی موجودگی کو یونیورسٹی برداشت نہیں کرے‌گی۔ انہوں نے یونیورسٹی کے طالب علموں پر ہوئی کارروائی کی اعلیٰ سطحی جانچ کی مانگ کی۔ اختر نے سوموار کو پریس کانفرنس میں کہا، ‘ پولیس بنا اجازت کے کیمپس میں داخل ہوئی تھی۔ ہم کیمپس میں پولیس کی موجودگی کو برداشت نہیں کریں‌گے۔ انہوں نے اپنی بربریت سے طلبا-طالبات کو ڈرایا۔ یونیورسٹی کی جائیداد کو بہت زیادہ نقصان پہنچا ہے۔ ‘

انہوں نے کہا، ‘ جائیداد کو نقصان پہنچانے اور طلبا-طالبات پر پولیس کی کارروائی کے بارے میں ہم ایف آئی آر درج کرائیں‌گے۔ ہم اعلیٰ سطحی جانچ چاہتے ہیں۔ میں ایم ایچ آر ڈی کے وزیر کے سامنے حقائق  کو پیش کروں‌گی۔ ‘ انہوں نے کہا کہ یونیورسٹی کو نشانہ نہیں بنایا جانا چاہیے اور اس کی امیج کو نقصان نہیں پہنچانا چاہیے۔

پروفیسر اختر نے کہا، ‘ ہم نے ہماری ایگزیکٹو کونسل کا اجلاس بلایا، جس میں تمام حقائق کو دھیان میں رکھ‌کر کچھ نتائج  پر پہنچے ہیں۔ پہلا ہماری یونیورسٹی کی جائیداد کو نقصان ہوا ہے، بہت چیزیں توڑی گئی ہیں۔ بہت نقصان ہوا ہے۔ اس کی بھرپائی کیسے ہوگی؟ دوسرا، ہمارا اموشنل لاس ہوا ہے، ہمارے بچوں پر جذباتی اثر پڑا ہے؟ اس کا ذمہ دار کون ہے؟ ‘

انہوں نے کہا، ‘ کچھ افواہیں سننے کو مل رہی ہیں۔ ہمارے پاس ساری حقیقت ہیں، ہم ان حقائق کو اعلی اہلکاروں کو سونپیں‌گے۔ ہماری درخواست ہے کہ افواہوں پر دھیان نہیں دیا جائے۔ جامعہ کی شہرت کو نقصان  نہ پہنچائیں، جامعہ کو بدنام نہیں کیا جائے۔ ‘ وائس چانسلر نے کہا، ‘ ہماری یونیورسٹی سب سے پرامن یونیورسٹی رہی ہے۔ جامعہ کے باہر جو ہو رہا ہے، محمد علی جوہر روڈ پر جو مظاہرہ ہو رہا ہے، اس کو جامعہ کا نام نہ دیں۔ اس سے ہماری امیج خراب ہوگی۔ ‘

انہوں نے کہا، ‘ ہم کیمپس کے اندر پولیس کی کارروائی کو لےکر ایف آئی آر کرائیں‌گے۔ کیمپس میں ہماری جس جائیداد کا نقصان ہوا ہے، اس کی تو بھرپائی کی جا سکتی ہے لیکن بچوں کو جو جذباتی ٹھیس پہنچی ہے، اس کی بھرپائی کیسے ہوگی۔ ‘

وہ کہتی ہیں، ‘ ہماری مانگ ہے کہ اس واقعہ کی اعلیٰ سطحی جانچ ہو۔ کیمپس میں خاص طورپر لائبریری میں بیٹھے بچوں کے ساتھ مارپیٹ کرنا۔ یہ ناقابل قبول ہے۔ اس کی اعلیٰ سطحی تفتیش کی مانگ کرتے ہیں کہ غلطی کس کی تھی؟ کیا ہر یونیورسٹی میں بھی ایسا ہو رہا ہے کہ پولیس ایسے ہی بنا اجازت کے کیمپس میں داخل ہو جائے؟ باہر 10000 لوگ بھاگ رہے تھے لیکن کیمپس کے اندر آکر پڑھ رہے بچوں پر ظلم کرنا ٹھیک ہے؟ ‘

انہوں نے کہا، ‘ پولیس جن بھی طالب علموں کو لےکر گئی تھی، ان کو رات میں چھڑا لیا گیا ہے۔ پوری رات ہمارے افسر کام کر رہے تھے۔ ہر بچہ اپنے ہاسٹل میں واپس آ گیا ہے یا اپنے ماں باپ کے پاس گھر چلے گئے تھے۔ کچھ طالب علم ہمارے یہاں کے نہیں تھے، وہ باہری تھے۔ اس واقعہ میں دو طالب علم کی موت کی افواہ پر انہوں نے وضاحت دیتے ہوئے کہا، ‘ اس واقعہ میں ہمارے کسی بھی طالب علم کی موت نہیں ہوئی ہے۔ اس واقعہ میں تقریباً 200 لوگ زخمی ہوئے ہیں، جن میں کچھ کی حالت نازک ہے۔ زیادہ تر طالب علم لائبریری کے اندر زخمی ہوئے ہیں۔

جامعہ کیمپس میں اتوار کو ہوئی دہلی پولیس کی کارروائی کے خلاف سوموار کو یونیورسٹی کے طالب علموں نے بنا قمیص کے مظاہرہ کیا (فوٹو : پی ٹی آئی)

جامعہ کیمپس میں اتوار کو ہوئی دہلی پولیس کی کارروائی کے خلاف سوموار کو یونیورسٹی کے طالب علموں نے بنا قمیص کے مظاہرہ کیا (فوٹو : پی ٹی آئی)

انہوں نے کہا، ‘ ہماری ایک مانگ ہے کہ جامعہ کو بدنام نہیں کیا جائے۔ یہ سب سے پرامن یونیورسٹی میں سے ایک ہے، تحریک سے نکلی یونیورسٹی ہے۔ یہاں پورے ملک سے آکر بچے پڑھتے ہیں اس لئے اس کو بدنام نہیں کریں۔ جامعہ علاقے میں جو مظاہرے ہو رہے ہیں یا محمد علی جوہر روڈ پر جو مظاہرے ہو رہے ہیں، ضروری نہیں کہ وہ جامعہ کے ہوں۔ اس لئے ہماری مانگ رہی ہے کہ اس پوری سڑک کو جامعہ کو دے دیا جائے اور ایک بائی پاس بنا دیا جائے تاکہ ہمارا کیمپس محفوظ رہے۔ یہ تحریک پورے ملک میں ہو رہی ہے لیکن نام صرف جامعہ کا آ رہا ہے۔ ‘

اس دوران جامعہ کے رجسٹرار  اے پی صدیقی نے کہا کہ جمعہ کو یونیورسٹی کے طالب علموں کے مظاہرے میں باہری عناصر بھی تھے اور اتوار کے واقعہ میں بھی باہری طالب علم شامل تھے لیکن پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے یہ نہیں سوچا کہ طالب علموں کے ساتھ باہری عناصر بھی ہیں۔ پولیس کی کارروائی میں طالب علم اس کی زد میں آ گئے اور شرپسند عناصر بھاگ گئے۔ اس وجہ سے یونیورسٹی کا نام بدنام ہوا۔

رجسٹرار نے کہا، ‘ ہم نے دہلی پولیس کمشنر سے بھی ملاقات کی۔ انہوں نے یقین دلایاکہ اگر اس دوران بےقصور لوگوں  کو پکڑا گیا ہے تو ان کو چھوڑا جائے‌گا تو اس طرح رات میں ہدایت دی۔ پولیس نے میڈیکل کے بعد کالکاجی پولیس تھانے سے 35 اور این ایف سی تھانے سے 16 بچوں کو رہا کیا گیا۔

کیمپس کے اندر پولیس کی طرف سے فائرنگ کئے جانے کے سوال پر انہوں نے کہا، ‘ بھیڑ پر پولیس کی کارروائی جنگ جیسے حالات لگتے ہیں کیونکہ ہرطرف آنسو گیس کے گولے چھوڑے جا رہے ہوتے ہیں لیکن ہم نے پولیس کے جوائنٹ کمشنر اور دیگر سینئر افسروں سے بات کی اور انہوں نے کیمپس کے اندر فائرنگ کی افواہوں سے انکار کیا ہے۔ ‘

اس سے پہلے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے چیف پراکٹر وسیم احمد خان نے اتوار کو دعویٰ کیا تھا کہ دہلی پولیس کے اہلکار بغیر اجازت کے جبراً یونیورسٹی میں گھس گئے اور ملازمین‎ اور طالب علموں کو پیٹا اور ان کو کیمپس  چھوڑنے کے لئے مجبور کیا۔

حالانکہ، پولیس کا کہنا تھا کہ ساؤتھ دہلی میں نیو فرینڈس کالونی کے نزدیک مظاہرین کے تشدد میں ملوث ہونے کے بعد وہ (پولیس اہلکار) صرف حالات قابو میں کرنے کے لئے یونیورسٹی کیمپس  میں گھسے تھے۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)