خبریں

شہریت ترمیم قانون: ہندوستان باہری لوگوں کی دھرم شالہ نہیں ہے؛ راج ٹھاکرے

راج ٹھاکرے نے کہا کہ ،میں امت شاہ کو مبارکبا ددیتا ہوں کہ انہوں نے اقتصادی بحران سے دھیان ہٹانے کے لیے یہ کھیل کھیلا ۔ا س ملک میں عوام کو پہلے ہی بنیادی سہولیات نہیں مل رہی ہیں ایسے میں باہری لوگوں کو بلانا ٹھیک نہیں ہے۔

راج ٹھاکرے/ فوٹو: پی ٹی آئی

راج ٹھاکرے/ فوٹو: پی ٹی آئی

نئی دہلی : مہاراشٹر نونرمان سینا کے صدر راج ٹھاکرے نے کہا کہ بھارت کوئی دھرم شالہ نہیں ہے۔ یہاں باہری لوگوں کو لانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ یہاں تو پہلے سے ہی کافی آبادی ہے۔ شہریت  کو لےکر بی جے پی  اور دوسری پارٹیوں کو سیاست نہیں کرنی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ، حکومت  لوگوں کی تشویش دور کرے۔ انہوں نے کہا کہ لوگوں کے اندر اس قانون کو لے کر بھرم  ہے۔ ان کو صحیح جانکاری نہیں ہے۔ اس لئے وہ تشدد پر آمادہ ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ، اگر حکومت کو یہی کرنا تھا تو آدھار کا ڈراما کیوں کیا؟ اتنی آبادی کے بعد بھی باہرسے لوگوں کو لانے کی کیا ضرورت  ہے؟ انہوں نے کہا کہ ووٹنگ کے لیے آدھار کارڈ چل سکتا ہے تو شہریت ثابت کرنے کے لے آدھار کارڈ کیوں نہیں ۔ آدھار کارڈ کے لیے قطار میں لگے لوگوں کا کیا فائدہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ مجھے سمجھ نہیں آرہا ہے کہ انسانیت کے نام پر لوگ سڑک پر کیوں اتر رہے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ میں امت شاہ کو مبارکبا ددیتا ہوں کہ انہوں نے اقتصادی بحران سے دھیان ہٹانے کے لیے یہ کھیل کھیلا ۔انہوں نے کہا کہ ، ا س ملک میں عوام کو پہلے ہی بنیادی سہولیات نہیں مل رہی ہیں ایسے میں باہری لوگوں کو بلانا ٹھیک نہیں ہے۔

پونے میں سنیچر کو اپنی پارٹی کی ایک میٹنگ کو خطاب کرتے ہوئے راج ٹھاکرے نے کہا کہ ،اقتصادی بحران  سے دھیان بھٹکانے کے لیے شہریت ترمیم قانون لایا گیا اور اس میں امت شاہ کو کامیابی ملی ہے، ان کو مبارکباددیتا ہوں۔ملک کی پولیس کو پتہ ہے کہ کون باہری ہے اور کون یہاں کا ہے، لیکن اس کے ہاتھ بندھے ہیں۔ وہ کارروائی نہیں کر سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ باہری لوگوں کو یہاں پناہ  دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ بنگلہ دیش اور پاکستان سے آنے والے لوگوں کو نکالا جانا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ یہاں کا سسٹم کافی خراب ہے۔ یہاں رہ رہے مسلمانوں کو غیر محفوظ محسوس کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن ہمیں دیکھنا چاہیے کہ کتنے مسلمان بنگلہ دیش، پاکستان اور نیپال سے یہاں آ رہے ہیں۔ اس طرح کے قانون لانے میں بھرم کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ کچھ سخت قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔ نہیں تو ملک  ہاتھ سے نکل جائےگا۔انہوں نے کہا کہ صرف قانون بنانے سےملک نہیں چلے گا، قانون پر عمل کرنا ہوگا۔ لیکن لوگوں کو بھرم میں ڈال کر نہیں، انہیں قانون کے بارے میں صحیح ڈھنگ سے بتاکر ہی بات بنےگی۔

انہوں نے کہا کہ یہاں کے مسلمان کو ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ انہیں کوئی نہیں نکال سکتا ہے۔ لیکن کچھ لوگ ان کو بہکا رہے ہیں۔ ان کو گمراہ کر رہے ہیں۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ  ان کی چال میں نہ پھنسے۔ وہ  ان کو مظاہرہ کی آگ میں جھونک کر اپنی روٹیاں سینک رہے ہیں۔ اس سے نہ تو مسلمانوں کی  کوئی ترقی ہوگی اور نہ ہی ان کی دقتیں ہی دور ہوں گی۔ لیکن سیاسی رہنماؤں کو ضرور فائدہ ہو جائےگا۔

قابل ذکر ہے کہ اس قانون میں افغانستان، بنگلہ دیش اور پاکستان سے مذہبی استحصال کی وجہ سےہندوستان  آئے ہندو، سکھ، بودھ، جین، پارسی اور عیسائی کمیونٹی کے لوگوں کو ہندوستانی شہریت دینے کااہتمام کیا گیا ہے۔اس ایکٹ میں ان مسلمانوں کوشہریت دینے کے دائرے سے باہر رکھا گیا ہے جو ہندوستان میں پناہ لینا چاہتے ہیں۔اس طرح کے امتیازکی وجہ سے اس کی تنقید کی جا رہی ہے اور اس کو ہندوستان  کی سیکولرفطرت کو بدلنے کی سمت میں ایک قدم کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ ابھی تک کسی کو اس کے مذہب کی بنیاد پر شہریت  دینے سے منع نہیں کیا گیا تھا۔