خبریں

نیشنل پاپولیشن رجسٹر کے لیے بتانی ہوگی والدین کی جائے پیدائش اور اس کی تاریخ

نیشنل پاپولیشن رجسٹر کو لے کر ریاستوں کی مخالفت کے باوجود وزارت داخلہ نے اس کو اپ ڈیٹ کرنے کے لیے کابینہ سے تقریباً چار کروڑ کروڑ روپے مانگے ہیں۔ ساتھ ہی اب سے اس کارروائی میں والدین کی جائے پیدائش اور اس کی تاریخ  بھی بتانی ہوگی، جو پچھلے این پی آر میں نہیں پوچھا جاتا تھا۔

فوٹو: پی ٹی آئی

فوٹو: پی ٹی آئی

نیشنل پاپولیشن رجسٹر (این پی آر)کے خلاف ریاستوں کی مخالفت کے بیچ مرکزی وزارت داخلہ نے اس کو اپ ڈیٹ کرنے کے لیے تقریباً چار کروڑ کروڑ روپے مانگے ہیں۔ ساتھ ہی اب سے اس کارروائی  میں والدین کی جائے پیدائش اوراس کی تاریخ بھی بتانی ہوگی۔انڈین ایکسپریس کے مطابق،ذرائع نے بتایا کہ وزارت داخلہ  نے کابینہ  سے 2021 کی مردم شماری کے لیے 8754 کروڑ روپے اور این پی آر اپ ڈیٹ کرنے کے لیے 3941 کروڑ روپے مانگے ہیں۔کابینہ  کے صدر وزیر اعظم  نریندر مودی ہیں، جو اس تجویز کو 24 دسمبر کو منظوری دے سکتے ہیں۔

ایک ذرائع نے بتایا، ‘این پی آرڈیٹا کو مردم شماری کے پہلے مرحلے کے ساتھ اپ ڈیٹ کیا جائےگا… اپڈیشن کی کارروائی  کے دوران کوئی بایومیٹرک ڈیٹا نہیں لیا جائےگا۔’این پی آر کی اس کارروائی میں لوگوں کو اپنے والدین  کی پیدائش کی تاریخ  اورجائے پیدائش بتانی ہوگی، جو پچھلے این پی آر میں نہیں پوچھا جاتا تھاملک  بھر میں مجوزہ  این آرسی کے تناظر میں اس پہلو کی اہمیت  بڑھ جاتی ہے۔

ذرائع نے آگے بتایا کہ این پی آر اپ ڈیٹ کرنے کے لیے 21 نکات کی جانکاری مانگی جائے گی۔ اس میں والدین  کی پیدائش کی تاریخ  اورجائے پیدائش، پچھلی  رہائش گاہ، پین نمبر، آدھار ،ووٹر آئی ڈی کارڈ نمبر، ڈرائیونگ لائسنس  اور موبائل نمبر شامل ہوگا۔2010 میں ہوئے پچھلے این پی آر میں 15 نکات کی جانکاری مانگی گئی تھی۔ ان 15 میں والدین  کی پیدائش کی تاریخ  اورجائے پیدائش، پچھلی رہائش، پاسپورٹ نمبر، آدھار، پین، ڈرائیونگ لائسنس ، ووٹر آئی ڈی اور موبائل نمبر شامل نہیں تھے۔

اس بار ماں کا نام، والد کا نام اور ہم سفر کے نام کو ایک ہی خانےمیں شامل کر دیا گیا ہے۔

کیا ہے این پی آر

 آفس آف دی رجسٹرار جنرل اینڈ سنسس کمشنر آف انڈیا کی ویب سائٹ کے مطابق، این پی آر کا مقصد ملک  کے عام شہریوں کا وسیع  پہچان ڈیٹابیس بنانا ہے۔ اس ڈیٹا میں مردم شماری کے ساتھ بایومیٹرک جانکاری بھی ہوگی۔اگلے سال مردم شماری کے ساتھ لائے جانے والے این پی آر کے بارے میں افسر نے کہا کہ کوئی بھی ریاست  اس قواعد سے انکار نہیں کر سکتا کیونکہ یہ شہریت  قانون کے مطابق کیا جائےگا۔

این پی آر ملک  کے عام شہریوں  کا رجسٹر ہے۔ اس کو شہریت ایکٹ 1955 اور شہریت (شہریوں کا رجسٹریشن اور قومی شناختی کارڈوں کا جاری کیا جانا)ضابطہ2003 کے اہتماموں  کے تحت مقامی(گاؤں/قصبہ)،ضلع، ریاست اور قومی سطح پر تیار کیا جا رہا ہے۔ہندوستان کے ہر شہری  کے لیے این پی آر کے تحت رجسٹرڈہونا ضروری ہے۔ این پی آر کے مقاصد کے لیے عام شہریوں کی تعریف ایک ایسے فرد کے طور پر کی گئی ہے، جو کسی مقامی  حلقے میں گزشتہ  چھ مہینے تک یا زیادہ وقت  تک رہا ہو یا جو اس حلقے میں اگلے چھ مہینے یا زیادہ وقت  تک رہنے کا ارادہ رکھتا ہو۔

مغربی  بنگال کے بعد کیرل سرکار نے روکا این پی آر کا کام

مغربی  بنگال کے بعد کیرل سرکار نے بھی ریاست  میں این پی آر سے جڑے سبھی کام روکنے کے حکم  دیے ہیں۔ یہ فیصلہ لوگوں کے بیچ پیدا اس خدشے کے مد نظر لیا گیا کہ متنازعہ شہریت  قانون کے بعد این پی آر کے ذریعے این آر سی کو نافذ کیا جائےگا۔وزیر اعلیٰ دفتر(سی ایم او) کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ سرکار نے این پی آر کوملتوری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ خدشہ ہے کہ اس کے ذریعے این آرسی نافذ کی جائےگی۔

وزیر اعلیٰ پنرائی وجین کے دفترنے کہا کہ یہ قدم اس لیے اٹھایا گیا ہے کیونکہ این پی آر آئینی قدروں  سے دور کرتا ہے اور یہ معاملہ سپریم کورٹ میں زیرغور ہے۔سی پی آئی (ایم)کی قیادت والی ریاستی سرکار کی طرف سے یہ فیصلہ ریاست  کے مختلف حصوں میں شہریت قانون کے خلاف ہو رہے مظاہرےکے بیچ لیا گیا ہے۔

کیرل کے چیف سکریٹری کی طرف سےجاری ہدایت کے مطابق،شہریت قانون کے بیچ عام لوگوں میں این پی آرسے متعلق  سرگرمیوں کے بعد این آرسی نافذ ہونے کا خدشہ تھا۔ اسی وجہ سے این پی آر کا کام روکا گیا ہے۔اس سے پہلے مغربی بنگال نے بھی شہریت قانون  کے خلاف بڑھے غصے کے بیچ این پی آر کو تیار اور اپ ڈیٹ کرنے سے متعلق  سبھی سرگرمیوں و روک دیا تھا۔مغربی نگال سکریٹریٹ کے ذریعے  جاری ایک حکم  میں کہا گیا تھا کہ ‘این پی آر سے متعلق  سبھی سرگرمیوں  پر روک رہے گی۔ اس بارے  میں مغربی  بنگال سرکار کی منظوری کے بنا آگے کوئی کام نہیں ہوگا۔’

قابل ذکر  ہے کہ سی ایم پنرائی وجین نے شہریت قانون  کی تنقیدکرتے ہوئے اس کو لوگوں کی آزادی  کو دبانے کی کوشش قرار دیا تھا اور وہ سوموار کو کانگریس کی قیادت میں اپوزشین یو ڈی ایف کے مشترکہ مظاہرے میں شامل ہوئے تھے۔مرکزی وزارت داخلہ  کے ایک سینئرافسرنےجمعہ کو کہا کہ ریاستی  سرکاروں کو شہریت قانون  کو خارج کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے کیونکہ اس کو  آئین  کی ساتویں فہرست کے تحت لایا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ریاستی  سرکاریں این پی آر کو بھی نافذ کرنے سے انکار نہیں کر سکتیں، جو اگلے سال لایا جانا ہے۔ ان کا بیان مغربی  بنگال، پنجاب، کیرل، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑ کے وزارائے اعلیٰ  کے اس اعلان  کے بعد آیا، جس میں انہوں نے شہریت قانون  کوغیر آئینی  قرار دیا اور کہا کہ ان کی  ریاستوں میں اس کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔

آبادی کنٹرول کے لیے روڈمیپ تیار کرےگا نیتی آیوگ

یوم آزادی  کے خطاب میں وزیر اعظم نریندر مودی کے ذریعےاٹھائے گئے آبادی کے مدعے پر کام کرتے ہوئے نیتی آیوگ ملک  میں ‘آبادی کنٹرول’کے لیے مسودہ تیار کر رہا ہے۔جمعہ20 دسمبر کو دہلی میں نیتی آیوگ نے پاپولیشن فاؤنڈیشن آف انڈیا (پی ایف آئی) کے ساتھ کروائی گئی ایک میٹنگ منعقدکروائی تھی، جس کاموضوع‘آبادی کنٹرول  کو لےکرنظریہ’ تھا۔

ادارے کی طرف سے بھیجے گئے بیان کے مطابق اس بیٹھک میں پی ایف آئی کے علاوہ موضوع  سے جڑے جان کار، ماہرین  اورحکام کے بیچ آبادی کنٹرول کی پالیسی  کو مضبوط کرنے اور اس سے متعلق  کے پروگرام  پر چرچہ کی جائےگی۔نیتی آیوگ کو امید ہے کہ اس بیٹھک سے نکلےمشوروں کو وہ آبادی کنڑول  پر جلد جاری کئے جانے والے ورکنگ پیپر میں شامل کرےگا۔

غورطلب ہے کہ  گزشتہ  یوم آزادی  پر لال قلعہ  سے دیے گئے خطاب  میں وزیر اعظم  نریندر مودی نے آبادی  پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے عوام  سے چھوٹا پریوار رکھنے کی اپیل کی تھی۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا تھا کہ ‘چھوٹے پریوار کی پالیسی  کی پیروی  کرنے والے ملک  کی ترقی  میں اپنی خدمات  دے رہے ہیں، یہ بھی حب الوطنی  کی ایک صورت ہے۔’

اس خطاب  کے چار مہینے بعد آیوگ کی طرف سے اس سمت  میں پہلا قدم بڑھایا گیا ہے۔ آیوگ نے بتایا، ‘ورکنگ پیپر سے ہندوستان  کے آبادی سے متعلق پروگرام  کی اہم خامیوں کو دور کرنے کی امید ہے۔ یہ نابالغوں  اور نوجوانوں، انٹر ڈپارٹمنٹل کنورجینس، مانگ بڑھنے، حمل روکنے کی تدابیر تک رسائی اور دیکھ بھال کے معیارکو دھیان میں رکھتے ہوئے علاقائی عدم مساوات کو دور کرنے کے لیے مشورے دیےگا۔’

حالانکہ ماہرین کا ماننا ہے کہ ‘آبادی’ کااصول متنازعہ ہے کیونکہ اس کے 1.37 ارب لوگوں کے باوجود ہندوستان میں پیدائش کی شرح  میں گراوٹ دیکھی جا رہی ہے۔ کچھ کا ماننا بھی ہے کہ اگر سرکار لوگوں کو ڈھنگ  سے استعمال کر سکے، تو بڑی آبادی کا ہونا بھارت کے لیے فائدےمند ثابت ہو سکتا ہے۔

حالانکہ پالیسی میکر اس بات کو لے کر زیادہ تشویش میں  ہیں کہ بھارت کی آبادی کا 30 فیصدنوجوان  ہیں جو ری پروڈکٹو ایج گروپ  میں آتے ہیں، ایسے میں آبادی بڑھتی ہی رہےگی۔

(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)