خبریں

شہریت قانون پر ہنگامے کے بیچ این پی آر اپ ڈیٹ کو ملی کابینہ کی منظوری، این آر سی کی سمت میں پہلا قدم

وزیراعظم مودی کی صدارت والی مرکزی کابینہ نے نیشنل پاپولیشن رجسٹرکو اپ ڈیٹ کرنے کی منطوری دے دی ہے۔ اپوزیشن نے اس کو ملک گیر این آر سی کی سمت میں حکومت کا پہلا قدم بتایا ہے۔

فوٹو: پی ٹی آئی

فوٹو: پی ٹی آئی

نئی دہلی:این آر سی کو لے کر پورے ملک میں ہو رہی مخالفت کے بیچ وزیراعظم مودی کی صدارت والی مرکزی کابینہ نے نیشنل پاپولیشن رجسٹر(این پی آر)کو اپ ڈیٹ کرنے کی منطوری دے دی ہے۔ساتھ ہی کابینہ نے مردم شماری 2021 کا پروسیس  شروع کرنے کو بھی منظوری دے دی ہے۔ ملک کی پوری آبادی مردم شماری پروسیس کے دائرے میں آئےگی جبکہ این پی آر اپڈیشن  آسام کو چھوڑکر سبھی ریاستوں اور یونین ٹریٹری میں کیا جائے گا۔

مردم شماری پروسیس پر 8754.23 کروڑ روپے اور این پی آر اپڈیشن کے لیے 3941.35 کروڑ روپے کے خرچ کو منظوری دی گئی ہے۔ این پی آر کی قواعد اگلے سال اپریل سے شروع ہوگی۔کابینہ  کے فیصلوں کے بعد مرکزی وزیر پرکاش جاویڈکر نے بتایا، ‘ہندوستان میں ابھی برٹش زمانے کے حساب سے مردم شماری ہوتی ہے۔ اس میں سبھی لوگوں کی گنتی مدعا ہوتا ہے۔ اس بار اپریل ستمبر 2020 تک لاکھوں لوگوں کے گھر -گھر جاکر 2021 تک تکنیک کے استعمال سے پورے پروسیس کو آسان کیا جائےگا۔ ایپ تیار کیا گیا ہے۔ ایپ پر دی گئی جانکاری میں کوئی بھی پروف یا کاغذ یا کسی بایومیٹرک کی ضرورت نہیں ہوگی۔’

انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ کچھ نیا نہیں کر رہے ہیں۔ اس کا اپڈیشن پہلی بار 2010 میں یو پی اے کی منموہن سنگھ حکومت نے کیا تھا۔ ملک کےعام شہریوں  کی وسیع پیمانے پر  شناختی ڈیٹابیس بنانا اس کا اہم مقصد ہے۔ تب 2011 میں مردم شماری کے پہلے اس پر کام شروع ہوا تھا۔ اب پھر 2021 میں مردم شماری ہونی ہے۔ ایسے میں این پی آر پر بھی کام شروع ہو رہا ہے۔

اس سے پہلے ایک افسر نے بتایا تھا کہ این پی آر ملک کے  شہریوں  کی لسٹ ہے۔ اس بارے میں اعداد و شمار کو اپ ڈیٹ کرنے کا کام 2015 میں گھر گھر سروے کے ذریعے  ہوا تھا۔ اپ ڈیٹ کیے گئے اعداد و شمار کے ڈیجٹلائزیشن کا کام پورا ہو گیا ہے ۔شہریت قانون 1955 اور شہریت ضابطہ  2003 کے تحت این پی آر پہلی بار 2010 میں تیار کیا گیا تھا۔ آدھار سے جوڑے جانے کے بعد 2015 میں اس کا اعلان  کیا گیا تھا۔

بتا دیں کہ اس بار این پی آر کے پرروسیس میں لوگوں کو اپنے والدین کی یوم پیدائش  اور جائے پیدائش بتانا ہوگا، جو پچھلے این پی آر میں نہیں پوچھا جاتا تھا-پورے ملک میں مجوزہ  این آرسی کے تناظر  میں اس پہلو کی اہمیت  بڑھ جاتی ہے۔

ذرائع  نے آگے بتایا کہ این پی آر اپ ڈیٹ کرنے کے لیے 21 پوائنٹس  کی جانکاری مانگی گئی ہے۔ اس میں والدین  کی یوم پیدائش اور جائے پیدائش، پچھلا رہائشی پتہ، پین نمبر، آدھار (اپنی مرضی کے مطابق) ووٹر آئی ڈی کارڈ نمبر، ڈرائیونگ لائسنس نمبر اور موبائل نمبر شامل ہوگا۔

2010 میں ہوئے پچھلے این پی آر میں 15 پوائنٹس  کی جانکاری مانگی گئی تھی۔ ان  میں  والدین  کی یوم پیدائش اور جائے پیدائش، پچھلا رہائشی پتہ، پاسپورٹ  نمبر، آدھار ،پین، ووٹر آئی ڈی ، ڈرائیونگ لائسنس اور موبائل نمبر شامل نہیں تھے۔

اس بار ماں  کا نام، باپ  کا نام اورہم سفر کے نام کو ایک ہی پوائنٹ  میں شامل کر دیا گیا ہے۔

گزشتہ دنوں مغربی  بنگال کے بعد کیرل حکومت  نے بھی ریاست  میں این پی آر سے جڑے سبھی کام روکنے کے حکم  دیے تھے۔ وزیراعلیٰ پنارئی وجین کے آفس  کی طرف  سے جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ حکومت  نے این پی آر کو ملتوی  رکھنے  کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ خدشہ ہے کہ اس کے ذریعے این آرسی نافذ کی جائےگی۔ یہ قدم اس لیے اٹھایا گیا ہے کیونکہ این پی آر آئینی اقدار سے دور کرتا ہے اور یہ معاملہ سپریم کورٹ میں زیر غور ہے۔

اس سے پہلے مغربی  بنگال نے بھی سی اے اے  کے خلاف بڑھے غصے کے بیچ این پی آر کو تیار اور اپ ڈیٹ کرنے سے متعلق  سبھی سرگرمیوں کو روک دیا تھا۔ مغربی  بنگال سکریٹریٹ کے ذریعے  جاری ایک حکم میں کہا گیا تھا کہ ‘این پی آر سے متعلق  سبھی سرگرمیون  پر روک رہےگی۔ اس بارے  میں مغربی بنگال حکومت  کی منظوری کے بنا آگے کوئی کام نہیں ہوگا۔’

کیا ہے این پی آر

 آفس آف دی رجسٹرار جنرل اینڈ سنسس کمشنر آف انڈیا کی ویب سائٹ کے مطابق، این پی آر کا مقصد ملک  کے عام شہریوں کا وسیع  پہچان ڈیٹابیس بنانا ہے۔ اس ڈیٹا میں مردم شماری کے ساتھ بایومیٹرک جانکاری بھی ہوگی۔اگلے سال مردم شماری کے ساتھ لائے جانے والے این پی آر کے بارے میں افسر نے کہا کہ کوئی بھی ریاست  اس قواعد سے انکار نہیں کر سکتا کیونکہ یہ شہریت  قانون کے مطابق کیا جائےگا۔

این پی آر ملک  کے عام شہریوں  کا رجسٹر ہے۔ اس کو شہریت ایکٹ 1955 اور شہریت (شہریوں کا رجسٹریشن اور قومی شناختی کارڈوں کا جاری کیا جانا)ضابطہ2003 کے اہتماموں  کے تحت مقامی(گاؤں/قصبہ)،ضلع، ریاست اور قومی سطح پر تیار کیا جا رہا ہے۔ہندوستان کے ہر شہری  کے لیے این پی آر کے تحت رجسٹرڈہونا ضروری ہے۔ این پی آر کے مقاصد کے لیے عام شہریوں کی تعریف ایک ایسے فرد کے طور پر کی گئی ہے، جو کسی مقامی  حلقے میں گزشتہ  چھ مہینے تک یا زیادہ وقت  تک رہا ہو یا جو اس حلقے میں اگلے چھ مہینے یا زیادہ وقت  تک رہنے کا ارادہ رکھتا ہو۔

کیوں اٹھ رہے ہیں سوال

ملک بھر میں این آر سی اورشہریت ترمیم قانون کے بیچ این پی آر لانے کے فیصلے پر سوال اٹھ رہے ہیں۔ کہا جا رہا کہ یہ ملک گیر سطح  پر این آر سی لانے کا پہلا قدم ہے۔

واضح  ہو کہ مختلف  مواقع پروزیر داخلہ  امت شاہ اور بی جے پی  کے رہنماؤں کے ذریعے پورے ملک میں این آر سی لانے کی بات کہی گئی ہے، لیکن گزشتہ اتوار کودہلی میں ہوئی ایک ریلی میں وزیر اعظم نریندر مودی نےاس سے انکار کیا تھا۔

انہوں نے  کہا کہ پچھلے پانچ سالوں کی ان کی حکومت میں این آر سی پر کوئی چرچہ نہیں ہوئی ہے۔ لیکن گزشتہ  9 دسمبر کو شہریت قانون2019 پر لوک سبھا میں چرچہ کے دوران وزیر داخلہ نے واضح طورپرکہا کہ ہندوستان  میں این آر سی نافذ کیا جائےگا۔

انہوں نے کہا تھا، ‘ہمیں این آر سی کے لیے کوئی بیک گراؤنڈ تیار کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم پورے ملک میں این آر سی لائیں گے۔ ایک بھی گھس پیٹھ کو چھوڑا نہیں جائےگا۔’ ان کےعلاوہ وزیر وفاع  راجناتھ سنگھ اوربی جےپی کے جےپی نڈا نے بھی کہا ہے کہ پورے ملک میں این آر سی نافذ کیا جائےگا۔

این پی آر  کو منظوری ملنے کے بعد سرکار نے کہا کہ یہ این آر سی سے جڑا ہوا نہیں ہے، لیکن ایسا نہیں ہے۔

اگست 2019 میں رجسٹرار جنرل آف انڈیا اور رجسٹرار جنرل اینڈ سنسس کمشنر آف انڈیا وویک جوشی نے این پی آر پر بات کرتے ہوئے کہا تھاکہ آسام کے علاوہ پورے ملک میں این پی آرپر کام شروع کیا جائےگا۔ سرکار نے ملک بھر میں شہریوں  کا رجسٹربنانے کو لےکر اس کی بنیادتیار کرنے کے لیے ستمبر 2020 تک ایک قومی آبادیاتی رجسٹرپیش کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ تب ایک حکام کے حوالے سے کہا گیا تھاکہ این پی آر ملک میں رہنے والے شہریوں  کی ایک مفصل فہرست ہوگی۔ این پی آر کے پورا ہونے اور شائع ہونے کے بعد این آرسی تیار کرنے کے لیے اس کے ایک بنیاد بننے کی امید ہے۔

منگل  کو این پی آر کو کابینہ  کی منظوری کے بعدکانگریس رہنما اجے ماکن نے بھی یہی بات کہی ہے۔

ماکن  نے وزارت داخلہ  کی سالانہ رپورٹ2018-19 کے 15ویں باب کا حوالہ دیتے ہوئے سرکار کے این پی آر کے این آر سی سے نہ جڑے ہونے کے دعوے کی تردیدکی۔ ان کے ذریعے شیئر کیے گئے  رپورٹ کے حصہ میں کہا گیا ہے کہ این پی آر ملک بھر میں ہونے والےاین ارسی کا پہلا قدم ہے۔

 سی پی آئی ایم کے جنرل سکریٹری سیتارام یچوری نے بھی اس پر سوال اٹھاتے ہوئے مرکزی حکومت پر جھوٹ بولنے کاالزام  لگایا ہے۔ یچوری نے مرکز کی مودی سرکارکے ذریعے جولائی2014 میں راجیہ سبھا میں دیے گئے ایک جواب کا حوالہ دے کر کہا کہ سرکار جھوٹ بول رہی ہے کہ این آر سی اور این پی آر میں رشتہ نہیں ہیں۔

مودی سرکار کی پہلی مدت کار میں23 جولائی 2014 کو کانگریس ایم پی  بی کے ہری پرساد نےوزیر مملکت برائے داخلہ  سے آدھار کارڈ کو این پی آر سے جوڑ نے کے کو لےکر سوال کیا تھا۔ اس کے جواب میں اس وقت کے وزیر نے جواب دیا تھا کہ بایومیٹرک جانکاری اور ڈپلی کیشن سے بچنے کے لیے آدھار کو این پی آرپروسس  سے جوڑا جائےگا۔

جواب میں یہ بھی کہا گیا تھا، ‘سرکار نے این پی آر منصوبے میں ملنے والی جانکاری کی بنیاد پر ملک میں رہنے والے سبھی عوام  کی شہریت  کو ویری فائی کرتے ہوئےاین پی آر تیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔’

سی پی آئی ایم کی طرف سے جاری ایک بیان میں شہریت قانون 1955 میں ہوئے ایک ترمیم  اور10 دسمبر 2003 کو اس وقت کی واجپائی سرکارکے ذریعےضابطے میں کی گئی تبدیلیوں  کے بارے میں بتایاگیا ہے کہ این پی آر کی بنیاد پر این آر سی تیار کیا جائے گا۔

(خبررساں ایجنسی  بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)