خبریں

اے ایم یو میں جامعہ سے بھی زیادہ بربریت سے اسٹوڈنٹ کو پولیس نے پیٹا: فیکٹ فائنڈنگ ٹیم

فیکٹ فائنڈنگ ٹیم نے ‘دی سیز آف علی گڑھ  مسلم یونیورسٹی’ نام سے یہ رپورٹ 24 دسمبر کو جاری کی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ اے ایم یو میں پولیس اور ریپڈ ایکشن فورس کے جوان طلبا کی پٹائی کرتے وقت ‘بھارت ماتا کی جئے’اور ‘جئے شری رام’ کے نعرے لگا رہے تھے۔

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، فوٹو بہ شکریہ ٹوئٹر/@SyedAzhars

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، فوٹو بہ شکریہ ٹوئٹر/@SyedAzhars

نئی  دہلی: شہریت قانون کو لے کر اتر پردیش کی علی گڑھ  مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) میں ہوئے تشدد کے بعد پولیس کی کارروائی کو لے کرفیکٹ فائنڈنگ ٹیم نے ایک رپورٹ جاری کی ہے۔اس فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ شہریت قانون کی  مخالفت کر رہے اے ایم یو طلبا پر پولیس نے بربریت کا مظاہرہ کرتے  کارروائی کی تھی۔

واضح ہو کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی  میں گزشتہ 15 دسمبر کو شہریت قانون اور نئی دہلی واقع  جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبا پر پولیس کی کارروائی کے خلاف  مظاہرہ  ہو رہا تھا۔اس رپورٹ میں یونیورسٹی انتظامیہ، ضلع انتظامیہ اور ریاست کی یوگی آدتیہ ناتھ سرکار کو نہ صرف کیمپس اور طلبا کو محفوظ رکھنے میں ناکامیاب رہنے بلکہ کیمپس میں پولیس اہلکاروں کو گھسنے دینےکے لیے بھی ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔

فیکٹ فائنڈنگ ٹیم کی یہ رپورٹ ‘دی  سیز آف علی گڑھ  مسلم یونیورسٹی’ نام سے 24 دسمبر کو جاری کی گئی۔اس  ٹیم میں وکیلوں، ہیومن رائٹس کارکنوں ،صحافیوں  اورماہرین تعلیم  سمیت مختلف شعبے کے لوگ شامل تھے۔ انہوں نے 15 دسمبر کی رات اے ایم یو پر پولیس کی کارروائی کے بعد 17 دسمبر کو کیمپس کا دورہ کیا۔ہیومن رائٹس کارکن  ہرش مندر کی قیادت والی ٹیم کا کہنا ہے کہ ان کی ٹیم کے ممبران  نے فیکلٹی، طلبا، ڈاکٹروں ، رجسٹرار اور پراکٹر سمیت یونیورسٹی انتظامیہ کے کئی اراکین  سے بات کی۔

انہوں نے کہاکہ ، ‘سبھی لوگوں کی گواہی کی  بنیاد پر اس ٹیم نے بتایا کہ اتر پولیس اور ریپڈ ایکشن فورس کی بے رحم کارروائی سے طلبا کی ہڈیاں ٹوٹ گئیں، کئی شدید طور پرزخمی ہوئے اور کئی طلبا تو نفسیاتی ٹراما سے جوجھ رہے ہیں۔’اس فیکٹ فائنڈنگ ٹیم کا کہنا ہے کہ کیمپس میں پولیس کو گھسنے کی منظوری اصل میں اس تشدد کوجائز ٹھہرانے کے لیے دی گئی۔

رپورٹ  میں کہا گیا، ‘یونیورسٹی کے وائس چانسلر، رجسٹرار اور پراکٹر کا کہنا ہے کہ پتھراؤ اورتشدد کی دوسری وارداتوں  کی وجہ سے انہیں ریپڈ ایکشن فورس اور پولیس کو یونیورسٹی کیمپس میں گھسنے کی منظوری دینی پڑی تاکہ کیمپس میں امن کی  بحالی ہو سکے اور جان و مال کا نقصان  نہ ہو۔’رپورٹ میں سوال اٹھایا گیا ہے، ‘اگر حقیقت  میں ایسا تھا تو یہ ابھی تک صاف نہیں ہے کہ باب سید (گیٹ) اپنے آپ چار ٹکڑوں میں کیسے ٹوٹ گیا۔ لوہے کے بھاری گیٹ کے کونے کیسے اتنی باریکی سے کٹے ہوئے پاے گئے، جبکہ گیٹ کے تالے صحیح سلامت تھے۔’

طلبانے اس ٹیم کو بتایا کہ سادے کپڑوں میں کئی لوگوں نے گیٹ کے دونوں حصوں سے پتھراؤ کیا۔ یہ لوگ طلبا نہیں تھے اور انہوں نے اپنے چہرے ڈھکے ہوئے تھے۔رپورٹ  میں کہا گیا کہ پولیس نے مبینہ  طور پر طلبا کا پیچھا کیا اور ان پر اندھادھن لاٹھی چارج کیا۔ پولیس نے آنسو گیس کے گولے چھوڑے، اسٹن گرینیڈ اور گولیوں کا استعمال کیا۔

رپورٹ میں پولیس اور ریپڈ ایکشن فورس پر الزام  لگائے گئے کہ انہوں نے زخمی طلبا کو طبی سہولیات بھی فراہم نہیں کرایا۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ، ‘ہم نے ہیریٹیج مارسن بوائز ہاسٹل کا دورہ کیا، جہاں پولیس اہلکاروں نے گارڈز کو پیٹا تھا اور طلباکو کمروں سے بھگانے کے لیے آنسو گیس کا استعمال کیا تھا۔ اس سے ایک کمرے میں آگ لگ گئی تھی، جسے طلبا نے صحیح وقت پر بجھایا تھا۔ یونیورسٹی کے میڈیکل کالج کے ڈاکٹروں نے زخمی طلبا کو لانے کے لیے 10 سے زیادہ  ایمبولینس بھیجی لیکن پولیس اہلکاروں نے ایسا نہیں ہونے دیا اور یہاں تک کہ ایک ایمبولینس کے ڈرائیور کی پٹائی کی، جس سے اس کی ہڈی ٹوٹ گئی۔’

ٹیم کایہ بیان بھی چونکانے والا لگا کہ اتر پردیش پولیس کے ایک ان سروس افسر کو یونیورسٹی کے رجسٹرار کے عہدے پر تعینات کیا گیا ہے۔رپورٹ کہتی ہے، ‘اس رجسٹرار کاسلوک طلباکے کسٹوڈین کے بجائے اس کارروائی سے خوش ایک پولیس اہلکار جیسا لگا۔’رپورٹ کے مطابق، ‘اے ایم یو میں اسٹن گرینیڈ تک کا استعمال کیا گیا جبکہ ان کا استعمال صرف جنگی  حالات میں ہوتا ہے۔ اس طرح کی پولیس کارروائی بھی خطرناک دہشت گردوں  کے لیے ہوتی ہے، نہ کہ مظاہرہ کر رہے طلباکے لیے۔ یہاں تک کہ جنگ کے دوران بھی ایمبولینس کو زخمیوں  کو لے جانے کی منظوری ہوتی ہے لیکن یہاں ایسا نہیں تھا۔’

اے ایم یوطلبانے اس فیکٹ فائنڈنگ ٹیم کو بتایا کہ پولیس اور ریپڈ ایکشن فورس طلباکا پیچھا اور ان کی پٹائی کرتے وقت فرقہ وارانہ بیان بازی کر رہی تھی، ‘بھارت ماتا کی جئے’ اور ‘جئے شری رام’ کے نعرے لگا رہی تھی۔رپورٹ  میں ایک اسٹوڈنٹ کے حوالے سے کہا گیا، ‘ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے پولیس کے دل  میں ہمارے لیے گہری نفرت تھی، جو وہ اس بے رحمی  سے ہم پر نکال رہی تھی۔’

اے ایم یو میں ہوئے مظاہرے کے دوران پولیس نے تقریباً 100 اسٹوڈنٹ کو حراست میں لیا۔ اس دوران 100طلبا زخمی ہوئے جن میں سے 20 کی حالت نازک  ہے۔ٹیم  کا کہنا ہے کہ جب تک وہ  کیمپس پہنچے پولیس نے طلباکے سامان تباہ  کرنے کے سبھی ثبوت مٹا دیے تھے۔ ٹیم نے اس دوران طلباپر آنسو گیس کے گولے، ساؤنڈ بم، ربر بلیٹ، اسٹن گرینیڈ اور لاٹھی چارج کرنے کی تصدیق کی۔

رپورٹ  کے مطابق، ‘ڈاکٹروں نے تصدیق  کی ہے کہ ایک اسٹوڈنٹ کے برین ہیمریج سے پتہ چلتا ہے کہ ربر بلیٹ کا استعمال کیا گیا۔ اسٹن گرینیڈ پھٹنے سے پی ایچ ڈی کے ایک اسٹوڈنٹ کی  کلائی سے نیچے تک کا ہاتھ کاٹنا پڑا۔ اسٹن گرینیڈ سے دو اسٹونٹ کے ٹشیو ڈیمیج ہو گئے ہیں۔ اساتذہ نے بتایا کہ 16 دسمبر کی صبح جب کیمپس کو پوری طرح سے صاف کر دیا گیا تو انہیں سڑک پر ایک کٹا ہوا انگوٹھا ملا۔’

غیر سرکاری تنظیم کاروان محبت اور انڈین کلچر فورم نے یہ رپورٹ جاری کی ہے۔واضح  ہو کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں 15 دسمبر کی دیر رات طلبا اور پولیس اہلکاروں کی جھڑپ میں میں100 لوگ زخمی ہو گئے تھے۔ ان میں کچھ پولیس اہلکار بھی شامل تھے۔اس کے بعد ضلع میں احتیاط کے طور پر انٹرنیٹ خدمات بند کر دی گئی تھیں، جو اب تک جاری ہیں۔ اس کے علاوہ کیمپس  میں کشیدگی  کے مد نظر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کوپانچ جنوری تک کے لیے بندکر دیا گیا ہے۔