خبریں

شہریت قانون کو لے کر حالیہ عوامی جذبات کو مسلمانوں سے جوڑ کر دیکھنا غلط ہوگا: عرفان حبیب

مؤرخ عرفان حبیب نے ملک کے الگ الگ حصوں میں مظاہرین  پر پولیس کارروائی کولے کر کہا کہ نوآبادیاتی زمانے میں بھی ہم نے مخالفت کا اس طرح استحصال نہیں دیکھا۔ مخالفت کو اس طرح کچلنے کی کوششوں کو لےکر لوگ کافی فکرمند ہیں کیونکہ مخالفت کا حق  جمہوری سماج کا حصہ ہے۔

فوٹو: وکی پیڈیا

فوٹو: وکی پیڈیا

نئی دہلی:مؤرخ  عرفان حبیب نے  کہا کہ شہریت قانون کو لےکر حالیہ عوامی جذبات کو صرف مسلمانوں سے جوڑکر دیکھنا غلط ہوگا کیونکہ آخرکار یہ سب پر اور جدید ملک کے طورپر ہندوستان کے تصور پر اثر ڈالےگا۔حبیب نے ملک کے الگ الگ حصوں میں مظاہرین  پر پولیس کارروائی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ نوآبادیاتی زمانے میں بھی ہم نے مخالفت کا اس طرح استحصال نہیں دیکھا۔ انہوں نے کہا کہ مخالفت کو اس طرح کچلنے کی کوششوں کو لےکر لوگ کافی فکرمند ہیں کیونکہ مخالفت کاحق جمہوری سماج کا حصہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ ملک  میں بڑی تعداد میں ہندو اور دوسری کمیونٹی کے لوگ اس مظاہرے میں شامل ہو رہے ہیں۔ اگر اس مظاہرے کو صرف ہندو مسلمان کے آئینے سے دیکھا جائے تو ممکنہ طور پریہ حکمراں  لوگوں کو مفید  لگےگا۔ یہ جدوجہد ہندوستان  کے بارے میں ہے اورجمہوریت کے مستقبل کے بارے میں ہے۔

حبیب نے کہا کہ شہریت قانون کے مطابق ہندو، سکھ، بودھ، جین، پارسی اور عیسائی جو مذہبی استحصال کی وجہ سے 31 دسمبر 2014 تک پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے ہندوستان آئے، انہیں غیر قانونی شہری نہیں مانا جائےگا اور انہیں ہندوستانی شہریت دی  جائےگی۔

انہوں نے کہا کہ مودی سرکار کی حال کی کچھ پالیسیاں ہندوتو امہم کے  دیرینہ منصوبے کا حصہ ہیں، جو زیادہ تر مخالفت کے استحصال کی پالیسی پر مبنی ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہندوستان  میں آج جو کچھ ہو رہا ہے، وہ بدقسمتی سے ویسا ہی ہے، جیسا بٹوارے کے بعد سے پڑوسی پاکستان میں ہو رہا ہے۔

 حبیب نے کہا کہ برطانیہ پولیس نے بھی مظاہرین  پر ایساغیرانسانی رخ  نہیں اپنایا تھا، جیسا پچھلے کچھ دنوں  سے ملک  کے کئی حصوں میں دیکھنے کو ملا ہے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں 1938 میں ہوئے ایک واقعہ  کا ذکر کرتے ہوئے حبیب نے کہا کہ اس وقت پرتشدد مظاہرہ ہوا اور پولیس سے تصادم بھی۔ اس وقت کا ایس پی انگریز تھا اورمظاہرہ کے دوران اسے طلبا نے بری طرح پیٹا لیکن اس کے باوجود اس نے پولیس کوکیمپس میں داخل  نہیں ہونے دیا کیونکہ اس نے محسوس کیا کہ وقت  کی مانگ یہی ہے کہ تحمل سے کام لیا جائے۔