خبریں

سی اے اے: یوپی میں مظاہرہ  کے بعد گولی کے زخم کے ساتھ علاج کے لیے دہلی آئے تین لوگوں کی موت

اس سے پہلے متنازعہ شہریت  قانون کے خلاف ہوئے مظاہرےمیں ملک  بھر میں 25 لوگوں کی موت ہو چکی تھی۔ اس میں سے کم سے کم 18 لوگوں کی موت اکیلے اتر پردیش میں ہوئی تھی۔

فوٹو : پی ٹی آئی

فوٹو : پی ٹی آئی

نئی  دہلی: متنازعہ شہریت  قانون کے خلاف اتر پردیش میں تشدد کے بعد گولیوں کےزخم کے ساتھ دہلی کے ہاسپٹل میں بھرتی کرائے گئے ریاست  کے تین لوگوں کا علاج کے دوران موت ہو گئی۔ ڈاکٹروں نے گزشتہ جمعرات کو یہ بات کہی۔ فیروزآبادکے ہاسپٹل سے تقریباً40 سال کے محمد شفیق اور 20 سال کے مقیم کو 24 دسمبر اور 22 دسمبر کوصفدرجنگ ہاسپٹل میں بھرتی کرایا گیا تھا۔ تیس سال کے محمد ہارون کو بدھ کو ایمس ٹراما سینٹر میں بھرتی کرایا گیا تھا۔

ایمس  کے ٹراما سینٹر کے ایک ڈاکٹر نے بتایا،‘ہارون کو گردن پر گولی لگی تھی اور انہیں فیروزآباد کے ایک ہاسپٹل سے یہاں لایا گیا تھا۔ جمعرات کو علاج کے دوران ان کی موت ہو گئی۔’بہرحال، انہوں نے اسکی تصدیق نہیں کی کہ ہارون اتر پردیش میں مظاہرے  کے دوران زخمی ہوئے تھے یا نہیں۔

ہاسپٹل کے ایک سینئر حکام  نے بتایا کہ انہیں اس کی کوئی جانکاری نہیں ہے کہ شفیق اور مقیم کو اتر پردیش میں مظاہرے کے دوران ہی گولی لگی ہے یا نہیں۔ انہوں نے اس پر بھی تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا کہ دونوں کے زخم  گولیوں کے ہیں یا نہیں۔صفدر جنگ  ہاسپٹل کے ایک ڈاکٹر نے کہا، ‘ہاسپٹل کی کاپی میں لکھا ہے کہ ان دونوں کو فیروزآباد کے ایک ہاسپٹل سے ٹرانسفرکیا گیا ہے اور ‘مشتبہ گولی کے زخم’ کا علاج ہوا۔ دونوں ہی طبی قانونی معاملے ہیں۔ شفیق کی موت آج صبح  ہو گئی جبکہ دوسرے کی موت 23 دسمبر کو ہو گئی۔’

فیروزآباد میں شہریت  قانون کے خلاف درجنوں لوگوں نے مظاہرہ کیا اورمبینہ  طور پرزخمی ہوئے۔ دی وائرنے ان تین مہلوک میں سے ایک محمد شفیق کے اہل خانہ  سے دہلی میں بات کی تھی۔

فیروزآبادکے نینی قلعہ علاقے میں رہنے والے 38 سالہ شفیق کی 33 سالہ بیوی  رانی نے بتایا تھا، ‘میرے شوہر چوڑی کے کارخانے میں کام کرتے ہیں۔ 20 دسمبر کو تقریباً چار بجے کے آس پاس وہ  کام سے واپس آ رہے تھے۔ راستے میں پولیس کی جپسی کھڑی تھی، انہوں نے دو موٹرسائکل کو گرا دیا۔ اسی دوران بھگدڑ ہوئی۔ ایک ساتھ ڈھیر ساری گولیاں چلنے لگیں اور اسی میں ان کے دماغ پر گولی ماری گئی۔ انہیں پولیس کی گولی لگی۔ وہ  وہیں پر گر گئے۔ میرے دیور نے یہ سب دیکھز اور وہ فوراً موٹر سائیکل سے انہیں ٹراما سینٹر لے گئے اور وہاں سے انہیں آگرہ بھیج دیا گیا۔’

یہ بھی پڑھیں: شہریت  قانون: ‘پولیس نے سیدھے سر میں گولی ماری تاکہ وہ بچ نہ سکیں’

اس سے پہلے متنازعہ شہریت  قانون کے خلاف ہوئے مظاہرے میں ملک بھر میں 25 لوگوں کی موت ہو چکی تھی۔ اس میں سے کم سے کم 18 لوگوں کی موت اکیلے اتر پردیش میں ہوئی تھی۔ ظاہر ہے اب اتر پردیش میں موت کا اعداد وشمارا 18 سے بڑھ کر 21 ہو چکا ہے۔

بتا دیں کہ ریاست کے ڈی جی پی او پی سنگھ سمیت تمام اعلیٰ حکام نے دعویٰ کیا تھا کہ کسی کی بھی موت پولیس کی گولی سے نہیں ہوئی ہے۔ حالانکہ ایک مہلوک محمد سلیمان کے معاملے میں بجنورکے سینئر پولیس حکام نے قبول کیا ہے کہ ان کی موت پولیس کے ذریعے اپنی دفاع میں چلائی گئی گولی سے ہوئی۔

(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)