خبریں

گزشتہ 5 سال میں ہندوستان میں صحافیوں پر 200 سے زیادہ سنگین حملے ہوئے: رپورٹ

’گیٹنگ اوے ود مرڈر‘نامی اسٹڈی کے مطابق 2014 سے 2019 کے بیچ ہندوستان  میں 40 صحافیوں  کی موت ہوئی، جن میں سے 21 صحافیوں  کے قتل کی وجہ ان کے کام سے جڑی تھی۔

فوٹو: رائٹرس

فوٹو: رائٹرس

نئی دہلی:گزشتہ پانچ سالوں میں ہندوستان میں صحافیوں  پر 200 سے زیادہ سنگین حملے ہوئے ہیں۔ ایک نئے مطالعے میں یہ بات سامنے آئی ہے۔‘گیٹنگ اوے ود مرڈر’ نام کی اس اسٹڈی کے مطابق، 2014 سے 2019 کے بیچ 40 صحافیوں  کی موت ہوئی، جن میں سے 21 صحافیوں  کا قتل  ان کی صحافت  کی وجہ سے ہوئی۔

سال 2010 سے لےکر اب تک 30 سے زیادہ صحافیوں  کی موت کے معاملے میں صرف تین کو مجرم ٹھہرایا گیا ہے۔ 2011 میں صحافی جے ڈے، 2012 میں صحافی راجیش مشرا اور 2014 میں صحافی ترون آچاریہ کے قتل  کے معاملے میں ہیں۔مطالعے کے مطابق ان قتل اور حملوں کے مجرموں میں سرکاری ایجنسیاں، سکیورٹی فورس، سیاسی رہنما، مذہبی گرو،  اسٹوڈنٹ یونین کے رہنما، کرائم  گینگ سے جڑے لوگ اور مقامی  مافیا شامل ہیں۔

مطالعے میں کہا گیا کہ 2014 کے بعد سے اب تک ہندوستان  میں صحافیوں  پر حملے کے معاملے میں ایک بھی ملزم  کو مجرم  نہیں ٹھہرایا گیا۔مطالعے کے نتائج کے مطابق، ‘صحافیوں  کا قتل  اور ان پر حملے کے مجرم  پولیس کی خستہ حال جانچ کی وجہ سے بچ جاتے ہیں۔ عام طور پر پولیس صحافیوں  کے قتل  کے لیے صحافی ، ان کی فیملی اورساتھیوں  کے الزام کو جھٹلا دیتی ہے۔

یہ بھی پتہ چلا ہے کہ پچھلے کچھ وقت میں فیلڈ رپورٹنگ کرنے والی خاتوں صحافیوں  پر حملے بھی بڑھے ہیں۔ اس میں سبری مالا مندر میں عورتوں  کے داخلے کو کور کرنے والی خاتون صحافیوں  پر حملے شامل ہیں۔ اس مطالعے کے مطابق اس دوران 19 خاتون صحافیوں  پر حملے کئے گئے۔مطالعے  کے مطابق میڈیا کے اندر بڑھ رہاپولرائزیشن  بھی تشویش کی وجہ  ہے۔ سیاسی پارٹیوں کے ذریعے چلائے جا رہے یا ان کے قریبی میڈیا اداروں  کا رخ بہت ہی واضح  ہوتا ہے، جو ہندوستان  میں صحافیوں  پر حملے میں بڑارول ادا کرتا ہے۔

مطالعے  کے مطابق، بنگلور میں ایڈیٹر گوری لنکیش، سرینگر میں شجاعت بخاری کا قتل  اور چھتیس گڑھ میں سکیورٹی فروسز پر ماؤوادیوں کے حملے میں دوردرشن کے کیمرہ پرسن اچیتانند ساہو کی موت کے علاوہ صحافیوں  کے قتل  کے دیگر  معاملے کسی علاقائی  زبان  کے پبلی کیشن کے لیے کام ریگولر  یاا سٹرنگر کے طور پر کام کر رہے یا ملک  کے دوردراز کے کسی علاقے میں جرائم  اور کرپشن کو لےکر رپورٹنگ کر رہے صحافیوں  کے ہیں۔

سات معاملے ریت مافیا، غیر قانونی  شراب کی تسکری، لینڈمافیا، پانی  مافیاسمیت  غیر قانونی سرگرمیوں  کی رپورٹنگ کر رہے صحافیوں  کے قتل  کے ہیں۔ یہ مطالعے  صحافیوں  اور میڈیا ریسرچ اسکالر ز نے کیا ہے اور اس کو ٹھاکر فیملی فاؤنڈیشن نے جاری کیا ہے۔ شہریت  قانون اور این آرسی کی مخالفت  میں ہو رہے مظاہروں  کے مد نظر صحافیوں  پر تازہ حملوں کو لے کر ریسرچ اسکالرز  کا ریسرچ  کہتا ہے، ‘اس نا انصافی  کی جوابدہی طے کرنے اور اس میں ختم  کرنے کی تھوڑے بہت ہی امکانات  ہیں ۔ گزشتہ  چھ سالوں میں اس بارے  میں انصاف  نہیں ملنے کا قابل رحم  ریکارڈ ہے۔’

میڈیا رپورٹس کے مطابق، ملک  بھر میں 11 سے 21 دسمبر کے بیچ پولیس کے ذریعے  14 صحافیوں  پر حملہ کیا گیا، انہیں دھمکایا گیا اور ان کا استحصال  کیا گیا۔ ان میں سے ایک بڑی تعداد  مسلم کمیونٹی  سے جڑی ہے۔

وہیں ، کچھ دنوں پہلے یونیسکو نے ایک رپورٹ جاری کی تھی، جس میں بتایا گیا تھا کہ گزشتہ  دو سال میں 55 فیصدی صحافیوں  کا قتل  پر امن علاقوں  میں ہوئی سیاست ، جرائم  اور کرپشن  پر رپورٹنگ کے لیے ہوا ہے۔یونیسکو نے بتایا کہ 2006 سے 2018 تک دنیا بھر میں 1109 صحافیوں  کے قتل  کے لیے ذمہ دار لوگوں میں سے تقریباً 90 فیصدی کو مجرم  قرار نہیں دیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق، پچھلے دو سالوں  (2017-2018) میں 55 فیصدی صحافیوں  کی موت پر امن علاقوں  میں ہوئی۔