فکر و نظر

جھارکھنڈ : کیا اسمبلی انتخاب کے نتائج سی اے اے اور این آر سی کے خلاف ریفرنڈم ہے؟

سال 2000 میں جھارکھنڈ رکی تشکیل  کے بعد یہ پہلاانتخاب ہے جب کسی غیربی جے پی اتحاد کو واضح اکثریت ملی ہے۔ ایسے میں بڑا سوال یہ ہے کہ کیا جھارکھنڈ مکتی مورچہ کی قیادت  والا اتحاد  ایک مستقل حکومت دے پائے‌گا؟

جھارکھنڈ انتخابی تشہیر کے وقت وزیر اعظم نریندر مودی کےساتھ رگھوبر داس(فوٹو : پی ٹی آئی)

جھارکھنڈ انتخابی تشہیر کے وقت وزیر اعظم نریندر مودی کےساتھ رگھوبر داس(فوٹو : پی ٹی آئی)

گزشتہ23 دسمبر کو جھارکھنڈ اسمبلی انتخاب کا جو نتیجہ آیا ہے وہ کئی معنوں میں اہم ہے اور اس طرح کے نتیجے کے کئی اسباب ہیں۔ یادرہے کہ سال 2000 میں ریاست کی تشکیل کے بعد یہ پہلا انتخاب ہے جب کسی غیربی جے پی اتحاد کو واضح اکثریت ملی ہے۔اور ایسا لگ رہا ہے کہ آنے والے پانچ سالوں کے لئےجھارکھنڈ مکتی مورچہ کی رہنمائی والا اتحاد جس میں کانگریس اور راشٹریہ جنتادل(آرجے ڈی)بھی شامل ہیں، ایک مستقل حکومت دے پائے‌گا۔ یہ بھی یاد رہے کہ ریاست بننے کے بعد گزشتہ19 سالوں میں 16 سال براہ راست یا بالواسطہ طور پر بی جے پی نےحکومت کی ہے۔

اس کے باوجود حالیہ انتخاب میں پچھلے انتخابی نتائج کےبرعکس بی جے پی کے مقابلے جھارکھنڈ مکتی مورچہ  سب سے بڑی پارٹی بن‌کر ابھری ہے۔ اس نتیجے میں جھارکھنڈ مکتی مورچہ کو 30، بی جے پی کو 25 اور کانگریس کو 16 سیٹیں ملی ہیں۔جھارکھنڈ اسمبلی میں کل 81 سیٹیں ہیں، باقی سیٹیں دوسری پارٹیوں کے حصے میں گئی ہیں۔ ہر اعتبار سے یہ انتخابی نتیجہ بی جے پی کے لئے ایک بڑا جھٹکا ہے۔

ہریانہ اسمبلی انتخاب میں خراب مظاہرہ، مہاراشٹر میں سب سے بڑی پارٹی بن‌کر ابھرنے کے بعد مطلوبہ  تعداد کے بغیر آناً فانًا حکومت بنانے کے بعد اقتدار چھوڑنا اور اس سے پہلے مدھیہ پردیش، راجستھان اور چھتیس گڑھ میں ہارنے کے بعد جھارکھنڈ کا حالیہ انتخابی نتیجہ بی جے پی کے لئے خطرے کی گھنٹی کی طرح لگنے لگے ہیں۔

ایسا لگ رہا ہے کہ جھارکھنڈ انتخابی نتیجہ کا اثر آنےوالے دنوں میں دہلی اور بہار میں ہونے والے انتخابات پر بھی پڑ سکتا ہے۔ دہلی میں آنے والے فروری اور بہار میں اکتوبر 2020 میں اسمبلی کے انتخاب ہونے والے ہیں۔

شہریت ترمیم قانون اور این آر سی کے خلاف ریفرنڈم ؟

انتخابی نتیجہ آنے کے بعد ایک سوال جو بار بار پوچھا جارہا ہے وہ یہ کہ کیا ان نتائج کو شہریت ترمیم قانون (سی اے اے) اور این آر سی کے خلاف ریفرنڈم سمجھا جائے؟میری سمجھ میں ایسا کرنا سب سے بڑی بھول ہوگی۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ بی جے پی کے رہنما، خاص طور پر ان کے اسٹار رہنما اور صف اول کی قیادت، جیسے وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امت شاہ نے جھارکھنڈ انتخابی تشہیر کے آخری مرحلوں میں اس کی بھرپور کوشش کی تھی کہ سی اے اے اور این آر سی مدعابن جائے۔ لیکن  تب تک بہت دیر ہو چکی تھی اور رائےدہندگان یہ تقریباً طے کر چکے تھےکہ کس کو اور کن-کن مدعوں پر ووٹ کرنا ہے۔

یہاں یہ بات بھی یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ مبینہ قومی مدعوں پر عوام بی جے پی کو لوک سبھا انتخاب میں بھاری ووٹ سے جتا چکی تھی۔ انتخابی تشہیر کے دوران زیادہ تر رائےدہندگان کا یہی کہنا تھا کہ اس انتخاب میں وہ مقامی مدعوں پر ووٹ کریں‌گے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ مودی جی‌کے اچھے کاموں کے لئےوہ ان کو پہلے ہی جتا چکے ہیں۔ ساتھ میں یہ بات بھی یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ اپوزیشن نے یہ انتخاب مقامی مسائل کو مدعا بناکر لڑا اور جیتا۔

پھر بی جے پی کیوں ہاری؟

گزشتہ  پانچ سالوں میں قبائلی حقوق پر حملہ، بھوک مری،بےروزگاری، ماب لنچنگ جیسے اہم مدعوں پر مقامی عوام میں زبردست غصہ دیکھا گیا تھا۔خاص طور پر آدیواسیوں میں ریاست کی رگھوبر حکومت کولےکر زبردست غصہ تھا۔ اور یہی وجہ ہے کہ تمام تر کوششوں کے باوجود رام مندر، تین طلاق، سی اے اے اور این آر سی جیسے مدعے مقامی مدعوں کے سامنے نہیں ٹک پائے۔

اس کے علاوہ اہم اپوزیشن پارٹیوں کا صحیح وقت پر ایک ساتھ آ جانا اور اتحاد بنا لینے نے بھی بی جے پی کے خلاف کام کیا۔ اس سے عوام میں یہ پیغام صاف ہو گیا کہ قومی سطح کے برعکس ریاستی سطح پر بی جے پی کے خلاف ایک مضبوطاختیار موجود ہے، جس کو ووٹ کیا جا سکتا ہے۔

ساتھ ہی یہ پیغام بھی گیا کہ رگھوبر داس کے مقابلے میں ہیمنت سورین ایک پاپولر رہنما کے طور پر ابھرے، جو اگلے پانچ سال کے لئے ریاست کی ذمہ داری سنبھال سکتے ہیں۔دوسری طرف آل جھارکھنڈ اسٹوڈنٹس یونین  پارٹی کےساتھ بی جے پی کا اتحاد ٹوٹنے سے پارٹی کو بڑا خمیازہ بھگتنا پڑا۔

یہ صحیح ہے کہ آل جھارکھنڈ اسٹوڈنٹس یونین حالیہ انتخاب میں صرف دو سیٹ جیت پائی لیکن چونکہ پارٹی نے 50 سے زیادہ سیٹوں پر اپنا امیدوار کھڑا کیا تھا اس کی وجہ سے بی جے پی کو بہت نقصان ہوا۔یہی نہیں بی جے پی نے جن ایم ایل اے کو ٹکٹ نہیں دیا تھاان کے آزاد امیدوار کے طور پر لڑنے یا دوسری جماعتوں (جیسے آل جھارکھنڈ اسٹوڈنٹس یونین)کے ٹکٹ پر لڑنےسے بھی پارٹی کو نقصان ہوا۔

اس کی سب سے بڑی مثال جمشیدپور میں دیکھنے کو ملی، جہاں بی جے پی مشرقی اور مغربی دونوں سیٹیں ہار گئی۔ مشرقی سیٹ پر سابق وزیراعلیٰ رگھوبر داس کو سابق بی جے پی رہنما اور رگھوبر حکومت میں وزیر سریورائے نے شکست دی۔ جبکہ مغربی سیٹ جہاں سے پچھلے انتخاب میں سریو رائے بی جے پی کےٹکٹ پر جیتے تھے، وہاں ان کی بغاوت کی وجہ سے اس بار وہ سیٹ کانگریس کے کھاتے میں چلی گئی۔

ہیمنت سورین کے سامنے چیلنجز

آنے والے 29 دسمبر کو ہیمنت سورین ریاست کے نئے وزیراعلیٰ کے طور پر حلف لیں‌گے۔ اگلا پانچ سال ان کے لئے شاید انتخاب جیتنے سے بھی زیادہ مشکل ہونے والا ہے۔لوگوں کی امیدوں پر کھرا اترتے ہوئے ایک مستقل حکومت دےپانا ان کے لئے سب سے بڑا چیلنج ہوگا۔ جو وعدے انہوں نے اور ان کی قیادت والےاتحاد نے کئے ہیں ان کی تعبیر ان کا پہلا چیلنج ہوگا۔

آج کے وقت میں ریاست کے اندر قبائلی حقوق پر لگاتارحملہ، بھوک مری، سماجی اور انسانی حقوق کارکنان کے خلاف فرضی مقدمے، بےروزگاری،ماب لچنگ، مذہبی اقلیتوں کے ساتھ زیادتی، دلتوں کا استحصال اورپانی،جنگل زمین کی لوٹ جیسے مسائل سے جوجھ رہا ہیں۔ اس بار کے انتخاب میں زیادہ تر لوگوں نے انہی مسائل کے حل کی امید کے ساتھ ووٹ کیا ہے۔

ایسے میں نئی حکومت کے سامنے آدیواسیوں کی خوداعتمادی اور عزتِ نفس کی دوبارہ بحالی ایک بڑا چیلنج ہوگا۔ ایسا کرنے کے لئے حکومت کو سب سے پہلے پتھل گڑھی تحریک میں حصہ لینے والے کارکنان کے علاوہ کھونٹی اور آس پاس کے آدیواسیوں پر لگائے گئے فرضی مقدمہ واپس لینے ہوں‌گے۔

اسی طرح بھوک مری اور ماب لنچنگ کی وجہ سے مارے گئے اورمتاثرہ  لوگوں کو انصاف دلوانا ایک اہم کام ہوگا۔ اور یہ بھی یقینی بنانا ہوگا کہ یہ واقعہ ان کی مدت کار میں نہ ہو۔اس کے علاوہ روزگار کے مواقع، پارا-اساتذہ کو مستقل کرناجیسے دوسرے اہم مدعوں پر بھی فوراً دھیان کے ساتھ ہی مذہبی اقلیتوں کے لئے تحفظ کاماحول فراہم  کرنا بھی نئی حکومت کو اپنی ترجیح میں شامل کرنا پڑے‌گا۔