خبریں

دہلی: مکھرجی نگر میں کوچنگ اور ہاسٹل بند ہو نے کی وجہ کیا ہے؟

گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر وائرل ہوئےایک خط میں کہا گیا تھا کہ دہلی پولیس نے 24 دسمبر سے 2 جنوری تک مکھرجی نگر واقع سبھی کوچنگ سینٹر، ہاسٹل اور پی جی بند کرنے کا حکم دیا ہے۔ دہلی پولیس کے ذریعے  اس بات کی تردید کے باوجود پورے علاقے میں سناٹے پسرا ہے اور طلبہ و طالبات اپنے گھر لوٹ چکے ہیں۔اس کے باوجود لوگو ں کا کہنا ہے کہ معاملے کے طول پکڑنے کے بعد اپنی ناک بچانے کے چکر میں پولیس اس خط اور ویڈیو کو فرضی بتا رہی ہے۔

 مکھرجی نگر (فوٹو دی وائر)

مکھرجی نگر (فوٹو دی وائر)

نئی دہلی:گزشتہ دنوں دہلی پولیس کا ایک خط وائرل ہوا، جس میں دہلی واقع مکھرجی نگر کے سبھی کوچنگ سینٹر، پی جی، ہاسٹل اور لائبریری کو 24 دسمبر سے دو جنوری تک بند رکھنے کاحکم دیا گیا تھا۔اس خط کی سچائی  کو لےکر اسٹوڈنٹ میں خدشہ  بنا ہی ہوا تھا کہ اسی بیچ دہلی پولیس کے ایک کانسٹبل کا ایک ویڈیو بھی وائرل ہوا، جس میں وہ اسٹوڈنٹ سے مکھرجی نگر خالی کرنے اور انہیں دو جنوری کے بعد لوٹنے کی بات کہتے نظر آ رہے ہیں۔

دہلی پولیس کے اس خط اور ویڈیو کو فرضی بتایا جا رہا ہے، خود دہلی پولیس نے بھی اسے فرضی بتاکر نامعلوم  لوگوں کے خلاف ایف آئی آر درج کرکے جانچ کی بات کہی ہے لیکن مکھرجی نگر کے مقامی  لوگوں اور کوچنگ سینٹر اور ہاسٹل مالکوں کا کہنا ہے کہ پولیس نے زبانی طور پر کوچنگ سینٹر، پی جی، ہاسٹل اور لائبریری کو بند کرنے کو کہا ہے۔ معاملے کے طول پکڑنے کے بعد اپنی ناک بچانے کے چکر میں پولیس اس خط اور ویڈیو کو فرضی بتا رہی ہے۔

واضح  ہو کہ دہلی کامکھرجی نگر سول سروس اوردوسرے سرکاری امتحانات کی تیاری کا گڑھ مانا جاتا ہے۔ ملک بھر سے طلبایہاں امتحانات کی تیاری کے لیے آتے ہیں۔ لیکن عالم یہ ہے کہ اسٹوڈنٹ سے ہمیشہ کھچاکھچ بھری رہنے والی مکھرجی نگر کی سڑکیں خالی پڑی ہیں۔علاقے کےتقریباًسبھی کوچنگ سینٹر بند پڑے ہیں۔ جو کھلے ہیں ان میں کلاس نہیں ہو رہی ہیں۔ پی جی، ہاسٹل لگ بھگ خالی ہو چکےہیں، دہلی کے باہر کے طلبااپنے گھر لوٹ گئے ہیں اور علاقے میں بنی لائبریری بھی تین دنوں کے بعد گزشتہ جمعہ  کو کھلی ہے۔

کئی کوچنگ سینٹر کے مالکوں کا کہنا ہے کہ پچھلے سوموار یعنی23 تاریخ کو خودپولیس کے جوان ان کے یہاں آکر کوچنگ بند کرنے کو کہہ گئے ہیں۔پولیس نے زبانی طور پر کوچنگ سینٹر کو بند کرنے اور پی جی اور ہاسٹل خالی کرانے کو کہا  ہے۔

یہ پوچھنے پر کہ آخر کیا وجہ ہے کہ پولیس کوچنگ کو بند کرا رہی ہے اور ہاسٹل خالی کرا رہی ہے؟

اس پر مکھرجی نگر میں ایک کوچنگ  چلانے والے امر کہتے ہیں، ‘اس کے تار دو سال مکھرجی نگر میں ہوئے ایک معاملےسے جڑے ہیں۔ 31 دسمبر 2017 کو کسی بات پر کچھ اسٹوڈنٹ کا یہاں کے مقامی لوگوں  سے کچھ جھگڑا ہو گیا تھا۔ نشہ میں دھت اسٹوڈنٹ نے لڑکیوں سے بھی چھیڑ چھاڑ کی تھی۔’

امر نے آگے بتایا، اس کےبعد تنازعہ بڑھنے پرپولیس موقع پر پہنچی۔ بڑی تعدادمیں موجود اسٹوڈنٹ نے موقع پر پہنچی پولیس کے ساتھ مارپیٹ کی، جس کے بعدپولیس نے اسٹوڈنٹ پر لاٹھی چارج کیا تھا۔ اس میں پولیس اہلکاروں سمیت کئی طلبا زخمی ہوئے تھے۔ اس ہنگامہ کے بعد اگلے سال یعنی 2018 میں بھی دسمبر میں نئے سال  کے آس پاس تین چار دنوں کے لیے کوچنگ  بند کرائے گئے اور پی جی، ہاسٹل خالی کرا دیے، گئے تھے۔’

مکھرجی نگر کے کوچنگ، ہاسٹل بندکروانے کا حکم والا دہلی پولیس کی مبینہ نوٹس، فوٹو: ٹوئٹر

مکھرجی نگر کے کوچنگ، ہاسٹل بندکروانے کا حکم والا دہلی پولیس کی مبینہ نوٹس، فوٹو: ٹوئٹر

بترا سنیما کے پاس چائے کی دکان لگانے والے کشور کہتے ہیں، ‘دہلی پولیس جھوٹ بول کر اب اس معاملے سے اپنا پلہ جھاڑ رہی ہے۔ ہمارے سامنے ہی پولیس والے کئی کوچنگ  میں گئے ہیں اور دو جنوری تک کوچنگ بند کرنے کو کہا ہے۔ 2017 کے جھگڑے کے بعد سےپولیس ہر سال کوچنگ بند کرا دیتی ہے۔’

مکھرجی نگر میں کریئر پلس نام سے کوچنگ  چلانے والے انج اگروال کہتے ہیں، ‘پولیس ہر سال زبانی طور پر کوچنگ بند کرنے اور ہاسٹل خالی کرانے کو کہتی ہے، اس میں کچھ نیا نہیں ہے۔ پچھلے سال بھی پانچ دنوں کے لیے کوچنگ بند کرا دیےتھے لیکن اس سال سیدھے ایک ہفتے کے لیے بند کرنے کا حکم دیا گیا ہے، جس کو لےکر لوگوں اور اسٹوڈنٹ کے ردعمل سامنے آئے ہیں۔

وہ  آگے کہتے ہیں،‘آپ دیکھیے، دہلی پولیس کا جو لیٹر بھی وائرل ہوا ہے، اس میں کسی بھی افسر کےدستخط نہیں ہیں۔ لیٹر اور ویڈیو کی سچائی پر میں کچھ نہیں کہوں گا لیکن اتنا سچ ہے کہ پولیس نے کوچنگ  بند کرنے کے لیےزبانی طور پر کہا تھا۔ ایسا پچھلے سال بھی ہوا تھا۔’

مکھرجی نگر کے مقامی دکاندار دہلی پولیس کی اس سرگرمی کوملک کے موجودہ حالات سے جوڑکر دیکھ رہے ہیں۔ ایک اسٹیشنری چلانےوالے رام کشن کا کہنا ہے کہ جس طرح سے ملک میں ماحول بنا ہوا ہے، اسٹوڈنٹ اورپولیس میں ایک طرح کا ڈر ہے۔پولیس کو ڈر ہے کہ کہیں کچھ ایسا نہ ہو جائے کہ حالات ہمارے ہاتھ سے نکل جائیں اور ہماری فضیحت ہو۔

اس  بیچ 27 تاریخ سے ایس ایس سی کے امتحانات شروع ہو گئےہیں، جس وجہ سے اچانک سے ایک ہفتہ کے لیے کوچنگ بند کرانے کی وجہ سے اسٹوڈنٹ میں غصہ اور مایوسی ہے۔وہیں، پرٹنگ پریس چلانے والے نول سنگھ کہتے ہیں کہ بےشک ابھی ملک کے حالات ٹھیک نہیں ہیں۔ سرکار اور انتظامیہ کو لےکر لوگوں میں غصہ ہے اور کچھ شرپسند عناصر اس کا فائدہ اٹھانے کی فراق میں ہیں۔

وہ کہتے ہیں، ‘کالج کے اسٹوڈنٹ کے ساتھ مارپیٹ ہو رہی ہے، مخالفت کرنے پر ان کی آواز دبانے کے لیے لاٹھی چارج اور آنسو گیس کے گولے چھوڑے جا رہے ہیں۔ اسٹوڈنٹ میں بھی ایک طرح کا غصہ ہے، جس سےپولیس بھی واقف ہے۔پولیس نے پچھلے سال بھی پی جی ہاسٹل سب خالی کرا دیے تھے، اس بار سوشل میڈیا پر لیٹر کے وائرل ہونے سے ہنگامہ مچ گیا، نہیں مچتا تو میڈیا کو بھی پتہ نہیں چلتا کہ کوچنگ بند ہے۔ پچھلے سال میڈیا کہاں تھا؟’

نول کہتے ہیں،‘کچھ لوگ اس معاملے کو شہریت قانون اور این آرسی سے جوڑکر دیکھ رہے ہیں لیکن اس کا ان معاملوں سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ یہ صاف طور پر دہلی پولیس کی کام چوری کا معاملہ ہے۔ وہ نظم ونسق  بنائے رکھنے کے اپنے کام سے پیچھے ہٹ کر مکھرجی نگر خالی کرا رہی ہے تاکہ انہیں کسی طرح کی محنت ہی نہ کرنی پڑے۔’

پولس کے ذریعے مکھرجی نگر کی لائبریری بند کرائے جانے کو لےکر بھی اسٹوڈنٹ اور مقامی  لوگوں میں ناراضگی ہے۔

ایک اسٹوڈنٹ وکرم کہتے ہیں،‘یہ سچ ہے کہ پولیس نے کوچنگ بند کرائے ہیں، ہاسٹل خالی کرا لیے گئے ہیں۔ یہاں کی لائبریری کو بھی پولیس نے بند کرا دیا تھا۔ تین دن بند ہونے کے بعدجمعہ  کو ہی لائبریری کھلی ہے۔ دہلی پولیس کو لائبریری کے کھلنے سے بھی دقت ہے، شراب کے ٹھیکے تو رات دس بجے تک کھلے رہتے ہیں لیکن پولیس لائبریری کو رات آٹھ بجے کے بعد کھلنے نہیں دیتی۔ یہ پولیس کی من مانی ہے۔’

وہ آگے کہتے ہیں، ‘میں سمجھتاہوں کہ دو سال پہلے یہاں جو حادثہ ہوا، اگر اس کی وجہ سےپولیس کوچنگ بند کرا رہی ہے تو یہ اس کی سب سے بڑی ناکامی ہے۔ امتحانات شروع ہونے والے ہیں، اسٹوڈنٹ کے پورے سال کی محنت ہے، جس وقت اسے کوچنگ، لائبریری کی سب سے زیادہ ضرورت ہے، اسی وقت آپ ہڑدنگ کے ڈر سے سب کچھ بند کرا رہے ہو! کیاپولیس کو اپنی قابلیت پر شک ہے؟ نظم ونسق  درست کرناپولیس کا کام ہے، نہ کہ حالات بگڑنے کے صرف ڈر سے کرفیو لگا دینا!’

مکھرجی نگر کی ‘کےڈی لائبریری’ کے کیئرٹیکرارمان کہتے ہیں، ‘سوچنے والی بات ہے کہ سبھی کوچنگ بنا کسی وجہ کے بند تو نہیں ہوں گے۔ ہاسٹل میں رہنے والے طلبا بنا کسی وجہ کے اپنے گھر نہیں لوٹے ہیں۔پولیس کی طرف سے ایسا کہا گیا تبھی تو کوچنگ کو بند کیا گیا ہے۔ یہ تو کوچنگ کی بات ہے،پولیس کو لائبریری کے کھلنے سے بھی دقت ہے۔ تین دنوں سے لائبریری بند تھی۔ اسٹوڈنٹ کےاحتجاج کے بعد اب لائبریری کو کھلنے دیا گیا ہے۔

 (فوٹو دی وائر)

(فوٹو دی وائر)

پولیس  کی اس مبینہ کارروائی سے یہاں کے پی جی اور ہاسٹل مالک بھی خوش نہیں ہیں۔ ایک پی جی چلانے والے منوہر گپتا کہتے ہیں، ‘میں اس بحث میں نہیں جاؤں گا کہ پولیس کاخط فرضی تھا یا نہیں لیکن اس طرح کی افواہوں سے کاروباری سرگرمیوں میں رکاوٹ پیداہوتی ہیں۔’

میگھ دوت ہاسٹل لڑکیوں کا ایک ہاسٹل ہے۔ یہاں بھی سناٹا پسرا ہے۔ گیٹ کے باہر بیٹھےسکیورٹی اہلکار پوچھنے پر بتاتے ہیں کہ یہاں رہنے والی لگ بھگ سبھی طالبات اپنے اپنے گھر لوٹ گئی ہیں۔ اس طرح کے ماحول میں کوئی نہیں رہنا چاہتا۔ کئی طالبات کے گھروالوں نے انہیں فون کرکے گھر بلا لیا، جس کے بعد وہ  چلی گئیں۔

دہلی پولیس کی جانب سے اس طرح کا کوئی حکم دینے کی بات سے انکار کیا گیا ہے، لیکن ان کے رویے اور اس بارے میں ہو رہی غفلت کو لےکر لوگ سوال اٹھا رہے ہیں۔

ایک  کوچنگ کے مالک جئےپریت نے کہا، ‘دہلی پولیس لوگوں کو گمراہ کر رہی ہے۔ ذمہ دار شہری  کو اس پورے معاملے کو جاننے کی ضرورت ہے۔ پہلی بات تو یہ کاروباری سرگرمیوں کو بند کرنے کی منظوری صرف ضلع  کلیکٹر ہی دے سکتا ہے۔ دہلی پولیس خود سے اس طرح کا فیصلہ نہیں دے سکتی اورکلیکٹر نے اس طرح کا کوئی حکم نہیں دیا ہے۔ دہلی پولیس کا جو لیٹر سوشل میڈیا پر وائرل ہوا، اس کی نہ کوئی سچائی ہے اور نہ ہی کوئی اہمیت۔پولیس صرف اپنی وردی کے دم پر ہرکوچنگ جاکرانہیں بند کرا رہی ہے۔’

وہ کہتے ہے، ‘دراصل پولیس کو اس بات کا اندازہ نہیں ہوگا کہ یہ معاملہ اتنا طول پکڑ لےگا۔پولیس نے سوچا ہوگا کہ جس طرح پچھلے سال وردی کے دم پر ڈانٹ ڈپٹ کر کوچنگ بند کرا دیے تھے، اس بار بھی کرا دیں گے لیکن اس بار معاملے نے طول پکڑ لیا اورپولیس کو اپنی ناک بچانے کے لیے سرکاری  طور پر انکار کرنا پڑا کہ انہوں نے کوچنگ بند نہیں کرائے ہیں۔’

اس طرح کی کارروائی کا خمیازہ طلبا کو بھگتنا پڑ رہا ہے اور وہ اس سے ناراض بھی ہیں۔

یہاں پڑھنے والی ایک اسٹوڈنٹ کہتی ہیں،‘اس طرح کی بھرم کی حالت میں نقصان اسٹوڈنٹ کا ہوتا ہے۔ میں آئی اے ایس کی تیاری کر رہی ہوں، دہلی پولیس کے اس لیٹر کی وجہ سے میرے بیچ کے سبھی اسٹوڈنٹ اپنے اپنے گھر لوٹ گئے ہیں، اب وہ جنوری میں ہی لوٹیں گے۔’

وہ آگے کہتی ہیں، ‘اگر کوچنگ میں پڑھائی ہوتی بھی ہے تو میں اکیلی تو پڑھ نہیں پاؤں گی۔ اس سے نقصان تو ہمارا ہی ہو رہا ہے۔ ہمیں لےکر کوئی سنجیدہ نہیں ہے۔ ہم کوچنگ کے لیے اچھی خاصی  فیس بھرتے ہیں۔ کوچنگ کا کیا ہے، انہیں کچھ خاص فرق نہیں پڑےگا، اس سے فرق تو ہم کو پڑےگا۔ جن کا 27 تاریخ کو امتحا ن ہے، جنہیں رویزن  کی ضرورت ہے، انہیں تو بہت بڑا لاس ہوا۔ یہاں پولیس اسی پر اٹکی ہوئی ہے کہ انہوں نے کوچنگ بند نہیں کرائے ہیں۔’

وہیں، اس پورے معاملے پر دہلی پولیس صاف طورپر پلہ جھاڑتے ہوئے کہتی ہے کہ انکے محکمے کی طرف سے کوچنگ سینٹر، پی جی اور ہاسٹلوں کو بند کرانے کے حکم نہیں دیے گئے ہیں۔

مکھرجی نگر تھانے کے ایک پولیس افسر نے کہا، ‘دہلی پولیس کے نام سے جو لیٹر سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہا ہے وہ فرضی ہے اور جو ویڈیو بھی وائرل ہوا، اس سے بھی چھیڑ چھاڑ کی گئی ہے۔ ہم نے نامعلوم  لوگوں کے خلاف ایف آئی آر درج کی ہے۔ ماحول خراب کرنے کے ارادے سے اس لیٹر کو دہلی پولیس کے نام سے جاری کیا گیا۔ ہم اس کی جانچ کر رہے ہیں۔’

نارتھ ویسٹ دہلی کی ڈی ایس پی نے ٹوئٹ کرکے ان افواہوں پر دھیان نہیں دینے کی اپیل کرتے ہوئے کہا، ‘مکھرجی نگر علاقے میں پی جی اور ہاسٹل بند کرانے کو لےکر سوشل میڈیا پر فیک پیغام نشر کئے جا رہے ہیں۔ ہم نے ان فیک پیغامات کو لےکر معاملہ درج کیا ہے۔ سبھی شہریوں سے ان افواہوں پر یقین نہ کرنے کی اپیل کی جاتی ہے۔’