خبریں

امن کے لیے خطرہ بتاتے ہوئے یوپی پولیس نے 6 سال پہلے گزر چکے شخص کو بھیجا نوٹس

اترپردیش پولیس نے شہریت ترمیم قانون کو لے کر ریاست میں ہو رہے مظاہروں کے مد نظر امن و امان کو نقصان پہنچانے والے لوگوں کی فہرست تیار کی تھی۔ فیروزآباد میں 20 دسمبر کو ہوئے مظاہرے اور تشدد کے بعد پولیس نے ایسے 200 لوگوں کو نشان زد کر نوٹس بھیجے، جن میں ایک مرحوم شخص اور شہر کے کچھ بزرگوں کے بھی نام ہیں۔

فوٹو: پی ٹی آئی

فوٹو: پی ٹی آئی

نئی دہلی:اتر پردیش کے فیروز آباد  میں شہریت ترمیم  قانون کے خلاف ہوئے مظاہرے اور تشدد  کے بعد پولیس نے امن و امان  کو خطرہ پہنچانے والے لوگوں کو نشان زد کیا ہے اور انہیں نوٹس بھیجا گیا ہے۔دی  ٹیلی گراف کی رپورٹ کے مطابق، فیروز آباد  میں ایسا نوٹس ایک ایسے شخص بنے خان کے گھر پہنچا، جن کی چھ سال پہلے موت ہو چکی ہے۔

ان کے بیٹے محمد سرفراز خان نے اس اخبار کو بتایا، ‘میرے والد ، جو چھ سال پہلے گزر چکے ہیں، لیکن پولیس نے سی آر پی سی کی دفعہ  107 اور 116 کے تحت معاملہ درج کیا ہے کیونکہ انہیں لگتا ہے کہ وہ امن و امان میں خلل ڈال  سکتے ہیں۔’گزشتہ سوموار کو پولیس سرفراز کے گھر پہنچی اور انہیں نوٹس دیا۔ سرفراز بتاتے ہیں، ‘انہوں نے کہا کہ میرے والد  کو مجسٹریٹ کے سامنے پیش ہونا ہوگا اور سات دن کے اندر ضمانت لینی ہوگی ورنہ انہیں گرفتار کر لیا جائے گا۔ جب میں نے انہیں میرے والد  کا ڈیتھ سرٹیفیکٹ دکھایا تو انہوں نے مجھے ڈانٹ دیا۔’

سرکار اس طرح کے قدم شہریت قانون کو لے کر ہو رہے پرمظاہروں  کے مد نظر اٹھا رہی ہے۔ پولیس کے ذریعے  امن و امان کو نقصان پہنچانے والے لوگوں کو لسٹڈ کیا ہے۔ ان لوگوں پر سی آر پی سی کی دفعات  کے تحت معاملہ درج ہوتا ہے اور انہیں نجی مچلکے پر ضمانت لینی ہوتی ہے۔ اس کی خلاف ورزی ہونے پر انہیں فائن بھرنا ہوتا ہے۔

20 دسمبر کو شہریت قانون کے خلاف ہو رہے مظاہرے  کے بعد ہوئے  تشدد  کے بعد شہر میں پولیس نے ایسے 200 لوگوں کی پہچان کی، جن سے فیروزآباد  کے امن  کو خطرہ ہے۔ ان لوگوں میں بنے خان  کا نام بھی شامل ہیں۔ان کے علاوہ شہر کے کوٹلہ محلہ کے 93 سال کے فصاحت میر خان اور کوٹلہ پٹھان کے 90 سالہ  صوفی انصار حسین کو بھی اسی طرح کا نوٹس ملا ہے۔ رشتہ داروں کے مطابق، یہ دونوں بزرگ بنا مدد کے چل پھر بھی نہیں سکتے ہیں۔

حسین شہر کے جانےمانے سماجی کارکن  ہیں اور 58 سالوں تک فیروز آباد  جامع مسجد کے سکریٹری رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے، ‘آپ فیروز آباد  میں کسی سے بھی ہندو ہو یا مسلم، میرے بارے میں پوچھ لیجیے اور وہ آپ کو بتائے گا کہ کیسے میں نے اکیلے فرقہ وارانہ فسادات  ٹالے ہیں۔ آج مجھے لگ رہا ہے کہ میری پوری زندگی ہی بے کار چلی گئی۔’

انہوں نے آگے کہا، ‘میں اپنے بچوں سے کہوں گا کہ مجھے جلد سے جلد مجسٹریٹ کے پاس لے کر جائیں جس سے میں ضمانت کے لیے عرضی  تو دے  سکوں۔ مجھے اب اس سسٹم سے کوئی امید نہیں رہ گئی ہے۔’ان کو ملی سات دن کی مدت جمعرات  کو ختم ہوگی، جبکہ فصاحت میر کو بدھ تک کا وقت  ملا تھا۔ حالانکہ انہوں نے ضمانت نہیں لی ہے اور اب تک ان کی گرفتاری نہیں ہوئی ہے۔

60 سال  کے محمد طاہر فصاحت کے بیٹے ہیں۔ وہ  بتاتے ہیں، ’23 دسمبر کو دو پولیس والے ہمارے گھر آئے اور میرے والد  کے بارے میں پوچھا۔ میں انہیں اندر اپنے والد  کے بستر کے پاس لے گیا۔ تب انہوں نے کسی کو کال کیا اور کہا فصاحت بہت بزرگ آدمی ہے۔ اس کے بعد وہ  چلے گئے۔ پھر 25 دسمبر کو دو اور پولیس والے آکر میرے والد  کے خلاف نوٹس چپکاکر چلے گئے۔’

امن و امان کو نقصان پہنچانے والے ممکنہ  لوگوں کو خفیہ جانکاری کی بنیاد  پر نشان زد  کیا جاتا ہے، جو اکثر بیٹ کانسٹیبلوں کے ذریعے  دی جاتی ہے۔وہیں اس بارے میں سٹی مجسٹریٹ پنکج سنگھ نے کہا کہ 20 دسمبر کو فیروزآباد  میں ہوئے تشدد  کے بعد ہمارے اوپر بہت دباؤ تھا۔ جن لوگوں کے نام غلط طریقے سے دفعہ  107 اور 116 کے تحت لسٹڈ  ہیں، ہم انہیں ہٹا سکتے ہیں۔