خبریں

شہریت قانون: ’بیٹا ہاسپٹل میں گھنٹوں پڑا رہا، لیکن کسی نے چیک نہیں کیا کہ وہ زندہ بھی ہے یا نہیں‘

گراؤنڈ رپورٹ : اتر پردیش کے رام پور ضلع میں گزشتہ 21 دسمبر کو شہریت ترمیم قانون کے خلاف  مظاہرہ پر تشدد ہو گیا تھا۔ اس دوران فیض خان نام کے ایک نوجوان کی موت ہو گئی تھی۔ رشتہ داروں کا الزام ہے کہ فیض کو وقت پر میڈیکل سہولت نہیں دی گئی اور جب فیملی نے ان کی لاش لینا چاہا تو پولیس نے ان کو پیٹا۔

اتر پردیش کے رام پور شہر میں شہریت ترمیم قانون کےخلاف ہوئے مظاہرہ کے دوران گولی لگنے سے مارے گئے فیض خان۔

اتر پردیش کے رام پور شہر میں شہریت ترمیم قانون کےخلاف ہوئے مظاہرہ کے دوران گولی لگنے سے مارے گئے فیض خان۔

رام پور: اتر پردیش میں رام پور شہر کے رہنے والے 25 سالہ فیض خان کو آنے والی 11 فروری کو دبئی جانا تھا۔ ان کی وہاں نوکری لگ گئی تھی۔ فیض اور ان کی فیملی والے کافی خوش تھے۔ اسی سلسلے میں 21 دسمبر کو وہ اپنے کچھ ڈاکیومینٹس کی فوٹوکاپی کرانے کے لئے تقریباً 10 بجے گھر سے نکلے تھے۔ تقریباً ڈھائی کلومیٹر دور رام پور کے ہاتھی خانہ چوراہا آنے پر انہوں نے دیکھا کہ وہاں کافی بھیڑ اکٹھا ہوئی ہے اور لوگ شہریت ترمیم قانون کےخلاف نعرے بازی کر رہے تھے۔ پولیس نے چاروں طرف سے بیریکیڈنگ کر رکھی تھی تو تجسس میں وہ بھی دیکھنے کے لئے وہاں کھڑے ہو گئے۔

اتنےمیں پولیس نے مظاہرین پر ٹیئر گیس مارنا شروع کیا۔ وہاں افراتفری مچ گئی اور جس کو جہاں موقع ملا وہ چھپنے کی کوشش کرنے لگا۔ فیض نے دیکھا کہ ایک بزرگ آدمی ٹیئر گیس کے دھنوئیں سے بےہوش ہو گئے۔ فیض ان کو اٹھانے کے لئے آگے بڑھے اور جیسے ہی وہ بزرگ کو کھینچ‌کر ایک گلی میں لانے کی کوشش کر رہے تھے، اسی دوران ایک گولی آکر اس کے گلے میں لگی اور وہ فوراً وہیں گر پڑے۔

رشتہ داروں اور چشم دید گواہ نے دی وائر کے ساتھ بات چیت میں یہ دعویٰ کیا ہے۔ فیض کے جڑوا بھائی فراز خان نے کہا، ‘ اگر ہمیں کسی  مظاہرہ میں جانا ہوتا تو میں اس کے ساتھ جاتا۔ میں اس دن گھر پر ہی تھا۔ ‘ گزشتہ 21 دسمبر کو سنیچر کے دن رام پور شہر میں شہریت ترمیم قانون کےخلاف بڑا  مظاہرہ ہوا تھا، جس میں فیض خان کی موت ہو گئی۔ رشتہ داروں کا کہنا ہے کہ پولیس نے گولی چلائی تھی حالانکہ پولیس کا کہنا ہے کہ بھیڑ میں سے ہی کسی نے ان کو گولی ماری ہے۔

شہر کے علما نے چار-پانچ دن پہلے ہی اعلان کیا تھا کہ 21 دسمبر کے دن پر امن مظاہرہ کیا جائے‌گا۔ اس سے ایک دن پہلے  جمعہ کی نماز سے پہلے علمائے کرام نے بھی طے کیا تھا کہ اگلے دن مظاہرے کیے جائیں گے۔ حالانکہ جمعرات  کی رات انتظامیہ اور علما میں بات چیت ہوئی اور مظاہرہ کو سرکاری طور پر رد کر دیا گیا تھا۔

لیکن یہ بات عوام تک پہنچی ہی نہیں۔ فراز نے کہا، ‘ اگر پبلک کو یہ پتہ ہوتا تو یہ لوگ وہاں جمع  ہی نہیں ہوتے۔ ‘ چشم دید گواہ کے مطابق، اس دن رام پور کے ہاتھی خانہ چوراہے پر تقریباً دو سے تین ہزار لوگوں کی بھیڑ تھی۔ مظاہرہ میں شامل ہوئے لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ ڈی ایم تک جاکر ایک میمورنڈم سونپنا چاہتے تھے۔ لیکن پولیس نے راستے میں ہی بیریکیڈنگ کر دی اور کسی کو جانے کی اجازت نہیں دی۔

فیض کے بہنوئی شیراز ضمیر خان نے کہا، ‘ اس کو دیکھ‌کر لوگ بھڑک گئے۔ ان کو لگا کہ وہ ایک میمورنڈم  ہی تو دینا چاہتے ہیں، ایسا کیا غیر قانونی ہے اس میں کہ یہ بھی نہیں دینے دیا گیا۔ ‘ رام پور پولیس نے آئی پی سی کی دفعہ 307 سمیت کل 17 دفعات میں اب تک 30 سے زیادہ لوگوں کو گرفتار کیا ہے اور 116 لوگ نامزد ہیں۔ اس میں ہزاروں آدمی نامعلوم ہیں۔

شیراز کہتے ہیں، ‘ فیض لوگوں کی مدد کرنے میں ہمیشہ آگے رہتا تھا، چاہے اس کو اپنا نقصان کرکے ہی ایسا کرنا پڑے۔ پچھلے تین مہینے میں اس نے دو بار اپنے پڑوسیوں کو خون دیا، جو کہ اس کا خرچ برداشت کرنے کی حالت میں نہیں تھے۔ ‘ وہ کہتے ہیں، ‘ اس نے 12ویں تک کی پڑھائی کی تھی۔ تب سے وہ اپنے بھائی کے ساتھ مل‌کر تھوک میں سرجیکل کا سامان بیچنے کا کام کر رہا ہے۔ اس کی منگنی ہو چکی تھی اور شادی میں  ڈیڑھ سال رہ گئے تھے۔ ‘

فیض کے بھائی فراز کہتے ہیں، ‘ وہ مجھ سے صرف ایک منٹ کا بڑا تھا۔ ‘ فیض کے والد عاصم خان اور ان کے تین بھائی مل‌کر شہر میں مٹھائی کی ایک دوکان چلاتے ہیں۔ گھر کا  خرچ اسی سے چلتا تھا۔ فیملی والوں کے مطابق، اس دن دوپہر میں تقریباً 12 بجے کے بعد عاصم خان کے پاس کسی کا فون آیا اور بتایا گیا کہ ان کے بیٹے کو گولی مار دی گئی ہے۔

ان کے مطابق، فیض کو چھوڑ‌کر اس وقت سبھی گھر میں تھے۔ فیض کو گولی لگنے کی اطلاع ملنے کے بعد جلدی سے فیملی کے لوگ ضلع ہاسپٹل گئے، جہاں پر فیض کی لاش رکھی گئی تھی۔ والد عاصم خان نے کہا، ‘ اس کو گلے میں گولی لگی تھی، جہاں سے آکسیجن پائپ گزرتی ہے۔ خون بالکل باہر نہیں آ رہا تھا۔ بس چھوٹا سا چھید دکھائی دے رہا تھا۔ ایسا لگا کہ اس وقت وہ سانسیں لے رہا ہے۔ ہاسپٹل میں ڈھائی گھنٹے فیض پڑا رہا، کسی ڈاکٹر نے دیکھا تک نہیں کہ اس میں جان ہے بھی یا نہیں۔ لوگ چلا رہے تھے کہ ہاسپٹل اسٹاف کہاں پر ہیں۔ رونے پر بھی کسی نے مدد نہیں کی۔ وہاں کوئی اسٹاف دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ ‘

رشتہ داروں کو آپریشن تھیٹر کے پاس جانے نہیں دیا گیا تھا۔ سبھی اس کے باہر ہی کھڑے تھے۔ کچھ دیر میں پولیس والے وہاں اکٹھا ہونے لگے۔ بھائی فراز نے کہا، ‘ ہم پولیس والوں سے کہہ رہے تھے کہ ذرا دیکھ لیجئے جسم میں جان ہے بھی یا نہیں۔ لیکن انہوں نے ہمیں جانے نہیں دیا۔ کسی بھی اسٹاف نے   نہیں دیکھا کہ وہ زندہ ہے بھی یا نہیں۔ ‘

اس بیچ پولیس والوں نے آپس میں بات چیت کی اور کہا کہ وہ فیض کو مرادآباد لے جائیں‌گے اور وینٹی لیٹر پر رکھیں‌گے۔ فیملی کے لوگوں نے کہا کہ پہلے یہ تو دیکھ لیجیے کہ اس میں جان ہے بھی یا نہیں۔ اگر جان نہیں ہے تو آپ وینٹی لیٹر پر کیسے رکھیں‌گے۔ اس بات کو لےکر وہاں تنازعہ بڑھ گیا اور ایک طرف سے پولیس اور دوسری طرف سے فیملی والے باڈی لینے کے لئے اسٹریچر کھینچنے لگے۔

فراز نے کہا، ‘ وہ لوگ میرے بھائی کو جانور کی لاش کی طرح کھینچ رہے تھے۔ جب میں نے اعتراض کیا تو انہوں نے مجھے بہت پیٹا اور زبردستی بھائی کو گھسیٹ‌کر لے گئے۔ ‘ فیملی والوں کے مطابق، جب پولیس والے فیض کے جسم کو زبردستی ایمبولنس میں ڈال رہے تھے اور دوسری طرف فراز کو دھکیلتے ہوئے پیٹ رہے تھے، اسی دوران فراز نے اپنے بھائی فیض کو اپنی طرف کھینچا تو ان کا جسم زمین پر گر گیا اور فراز بھی وہیں گر پڑے۔

اس وقت وہاں پر تقریباً 60-70 پولیس والے تھے۔ ساتھ ہی میں کھڑے والد نے روکر کہا کہ میرے بیٹے کو چھوڑ دیجیے، اس میں کچھ نہیں بچا ہے۔ فراز نے کہا، ‘ ہم اس کو گھر لے جاکر اس کی رسومات کے مطابق تدفین کرنا چاہتے تھے۔ ‘ فراز آگے کہتے ہیں، ‘ پولیس نے کہا کہ وہ فیض کو مرادآباد لے جائیں‌گے کیونکہ یہاں پبلک اکٹھا ہو سکتی ہے، کوئی  فساد ہو سکتا ہے، اس لئے انہوں نے زبردستی فیض کے جسم کو اسٹریچر سے کھینچا۔ ‘

والد عاصم نے کہا، ‘ میں پولیس سے گزارش کرتا رہا کہ میں اس کو کہیں نہیں لے جانا چاہتا۔ میں اس کو گھر لے جانا چاہتا ہوں۔ مجھے کسی سے کوئی شکایت نہیں ہے۔ میں نے اپنا بیٹا کھو دیا۔ میں کسی کے خلاف مقدمہ نہیں  درج کرا رہا ہوں۔ لیکن وہ زبردستی اس کو مرادآباد ہاسپٹل لے گئے۔ ‘ رشتہ داروں کی گزارش کرنے پر پولیس نے صرف والد کو ایمبولنس میں بیٹھنے دیا۔ کسی اور کو ساتھ جانے کی اجازت نہیں دی۔ حالانکہ اس افراتفری میں والد کا فون وہیں کہیں گر گیا۔ فیض کی لاش کا مرادآباد میں پوسٹ مارٹم کیا گیا اور مقامی رہنما فیصل لالہ کے ذریعے مدد کرنے پر رام پور میں دفنانے کی اجازت دی گئی۔

والد نے کہا، ‘ وہاں میں فیض کی لاش کے ساتھ تنہا تھا۔ میں سارے لوگوں سے ہاتھ جوڑ‌کر کہتا رہا کہ مجھے فیملی کو جانکاری دینے کے لئے کوئی فون دے دو۔ لیکن کسی نے کوئی فون نہیں دیا۔ پھر پوسٹ مارٹم کیا گیا اور لاش چھ بجے شام کے آس پاس دی گئی۔ ‘

غور طلب ہے  کہ پولیس نے اب تک فیملی والوں کو پوسٹ مارٹم رپورٹ نہیں دی ہے۔ عاصم خان نے کہا، ‘ ہم خود چاہتے تھے کہ کوئی تنازعہ نہ ہو، اس لئے ہم نے جلدہی اس کو سپردخاک کر دیا۔ ‘ خان اپنے بیٹے کی موت کو لےکر کوئی ایف آئی آر یا کوئی شکایت نہیں کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا، ‘ ہم نے تو اللہ کے اوپر چھوڑ دیا ہے۔ وہ ہی سب سے اوپر ہے، وہی انصاف کرے‌گا۔ ہم نے کہیں شکایت نہیں کی ہے۔ جہاں سامنے سے پولیس والے گولی چلاتے ہوئے دیکھے گئے ہیں، وہاں کوئی کارروائی نہیں ہوئی تو ہمارے معاملے میں کیا ہوگا؟ ‘

والد عاصم خان نے رام پور کے ڈی ایم سے ملاقات کر کے ان کو بتایا ہے کہ وہ اس معاملے میں کوئی شکایت درج نہیں کرانا چاہتے، اگر انتظامیہ اپنی سطح پر کچھ کرنا چاہتا ہے تو وہ کارروائی کر سکتا ہے۔ حالانکہ والد اور فیملی والے بار بار یہ دوہراتے ہیں کہ اگر کوئی تفتیش ہوتی بھی ہے تو کوئی بے قصور نہ پھنسے۔ یہ نہ ہو کہ جلدبازی میں انصاف دلانے کے لئے وہ کسی کو بھی پکڑ‌کر اندر ڈال دیں۔

فیملی نے کسی بھی طرح کی سیاسی مدد لینے سے بھی منع کر دیا ہے اور انتظامیہ کے کسی بھی آدمی کو گھر پر تسلی وغیرہ دینے کے لئے آنے سے بھی منع کر دیا ہے۔ بیٹے کی موت کا پورا واقعہ بتاتے-بتاتے والد عاصم خان جذباتی ہو جاتے ہیں اور آنسو پونچھتے ہوئے کہتے ہیں، ‘ فیض اس بار نئے سال پر منالی جانا چاہتا تھا۔ ‘ ادھر، فیض کی ماں بیٹے کی موت کے بعد سے گہرے صدمے میں ہیں اور بات چیت کرنے کی حالت میں نہیں ہیں۔

دی وائر نے رام پور کے ایس پی اجئے پال شرما کو اس معاملے کو لےکر سوالوں کی فہرست بھیجی ہے۔ انہوں نے اب تک کوئی جواب نہیں دیا ہے۔ اگر کوئی جواب آتا ہے تو اس کو اس رپورٹ میں شامل کر لیا جائے‌گا۔ واضح ہو کہ ملک کے مختلف حصوں میں شہریت ترمیم قانون کےخلاف لگاتار  مظاہرے ہو رہے ہیں۔ 20-21 دسمبر کے درمیان اتر پردیش میں ایک ساتھ کئی ضلعوں میں ایسے مظاہرے ہوئے تھے۔

اس قانون میں افغانستان، بنگلہ دیش اور پاکستان سے بھاگ‌کر ہندوستان آئے ہندو، سکھ، بودھ ، جین، پارسی اور عیسائی کمیونٹی کے لوگوں کو ہندوستانی شہریت دینے کا اہتمام کیا گیا ہے۔