خبریں

کیا جےاین یو میں حملے کی پلاننگ کر رہے وہاٹس ایپ والے نمبر اے بی وی پی کارکنان کے ہیں؟

سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہے وہاٹس ایپ پیغامات اس جانب اشارہ کرتے ہیں کہ جو لوگ نقاب پہن‌کر جے این یو کیمپس میں گھسے تھے وہ اے بی وی پی کے رہنما اور کارکن ہو سکتے ہیں۔

جے این یو کا سابرمتی ہاسٹل، جہاں پر سب سے زیادہ توڑپھوڑ کی گئی تھی۔ (فوٹو : دی وائر)

جے این یو کا سابرمتی ہاسٹل، جہاں پر سب سے زیادہ توڑپھوڑ کی گئی تھی۔ (فوٹو : دی وائر)

نئی دہلی: گزشتہ اتوار کی دیر رات کو کچھ نامعلوم لوگ نقاب پہن‌کر جواہرلال نیہر یونیورسٹی کے کیمپس میں گھس آئے اور انہوں نے کئی ہاسٹل میں توڑ-پھوڑ کی اور کئی طالب علموں کو وحشیانہ طریقے سے پیٹا۔ اس دوران کل 26 لوگ زخمی ہوئے، جس میں کچھ استاتذہ بھی شامل ہیں۔اس واقعہ کے بعد سے ہی سوشل میڈیا پر کئی وہاٹس ایپ پیغامات وائرل ہو رہے ہیں، جس میں جے این یو میں گھس‌کر بچوں کو پیٹنے کی پلاننگ کی جا رہی ہے۔لیفٹ گروپوں نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ پیغامات اے بی وی پی اوررائٹ ونگ تنظیموں سے جڑے لوگوں کے ہیں۔ وہیں دوسری طرف رائٹ ونگ  گروپ اس کےبرعکس دعویٰ کر رہا ہے۔

اتوار کو یونٹی اگینسٹ لیفٹ نام کے ایک گروپ میں بات چیت کے دوران شام 7:03 بجے ایک پیغام آیا،’ سالوں کو ہاسٹل میں گھس‌کے توڑے ‘۔ اس کےجواب میں اگلے آدمی نے جواب دیا، ‘ بالکل… ایک بار صحیح سے آرپار کرنے کی ضرورت ہے۔ ابھی نہیں ماریں‌گے سالوں کو تو، کب ماریں‌گے۔ گندھ مچا رکھا ہے کومیوں نے ۔’اس طرح مارپیٹ کی پلاننگ کرتے کئی سارے پیغامات سامنے آئےہیں۔ انڈین ایکسپریس اور اسکرال نے ان میں سے کچھ نمبرات پر بات کی اور پایا کہ کئی سارے نمبر اے بی وی پی کارکنان سے جڑے ہوئے ہیں۔ فی الحال یہ نمبرسوئچ آف آرہے ہیں۔

اسکرال نے موبائل نمبر کی پہچان کرنے والے ایپ’ٹروکالر’ اور ‘ فیس بک ‘ کی مدد سے تشدد کرنے والوں کی پہچان اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔وہیں انڈین ایکسپریس نے اس طرح کا پیغام بھیجنے والے چھ لوگوں سے بات کی ہے، جس میں سے تین نے کہا کہ ان کے نمبر کا غلط استعمال کیا گیا ہے۔”بالکل…ایک بار صحیح سے آرپار کرنے کی ضرورت ہے۔ ابھی نہیں ماریں‌گے سالوں کو تو، کب ماریں‌گے۔ گندھ مچا رکھا ہے کومیوں نے ‘، یہ پیغام بھیجنے والے آدمی سے جب انڈین ایکسپریس نے بات کی تو انہوں نے کہا، ‘میں جے این یو کے اسکول آف انٹرنیشنل اسٹڈیز سے پی ایچ ڈی کر رہا ہوں۔ ہاں، میں اے بی وی پی سے ہوں۔ صحافی جے این یو کی امیج خراب کر رہے ہیں۔ ‘

 کچھ دیر بعد انہوں نے کہا، ‘ میں جے این یو سے ہوں لیکن میں نے یہ پیغام نہیں بھیجا تھا۔ کسی نے میرے نمبر کا غلط استعمال کیا ہے۔ ”سالوں کو ہاسٹل میں گھس‌کے توڑے ‘، یہ پیغام  لکھنے والے آدمی کا نام سوربھ دوبے ہے۔ ان کے فیس بک پروفائل پر لکھا ہے کہ یہ دہلی یونیورسٹی کے شہید بھگت سنگھ ایوننگ کالج میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ دوبے ‘ جےاین یوآئٹس فار مودی (JNUites for MODI) ‘ نام کا ایک گروپ چلاتے ہیں۔

اس سے پہلے اتوار کو شام 5:39 بجے ‘ فرینڈس آف آر ایس ایس ‘نام کے ایک وہاٹس ایپ گروپ میں ایک آدمی کا پیغام آتا ہے، ‘ برائے مہربانی اس گروپ میں لیفٹ ٹیرر کے خلاف یونٹی کے لئے شامل ہوں۔ ان لوگوں کو مار لگنی چاہیے۔بس ایک ہی دوا ہے۔ ‘اس کے جواب میں ایک آدمی نے پیغام ارسال کیا، ‘ ڈی یو کے لوگوں کی انٹری آپ کھجان سنگھ سوئمنگ سائیڈ سے کروائیے۔ ہم لوگ یہاں 25-30 لوگ ہیں۔ ‘

یہاں پر ڈی یو کا ذکر ممکنہ طورپر دہلی یونیورسٹی کے لئےہے اور کھجان سنگھ سوئمنگ اکیڈمی جے این یو کے اندر واقع ہے اور اس کا ایک الگ گیٹ ہے۔ یونیورسٹی کے مین گیٹ پر کیمپس  میں داخل ہونے سے پہلے آنے والوں کی جانچ کی جاتی ہے۔اس پیغام  کو بھیجنے والے کا نمبر ٹروکالر پر چیک کرنے سےپتہ چلا کہ یہ وکاس پٹیل کے نام پر رجسٹرڈ ہے۔ وکاس پٹیل نے اپنے فیس بک پروفائل پر لکھا ہے کہ وہ اے بی وی پی کے ایگزیکٹو کمیٹی کے ممبر ہیں اور جے این یو میں اےبی وی پی کے نائب صدر رہ چکے ہیں۔

یہ کئی سارے پیغامات اس لئے عام ہو پائے ہیں کیونکہ ان گروپس میں کئی لیفٹ اور غیر-اے بی وی پی تنظیموں کے لوگ جڑ گئے تھے۔یونٹی اگینسٹ لیفٹ نام کے گروپ میں شام 8.41 بجے ایک آدمی نے پوچھا، ‘ پولیس تو نہیں آ گیا؟ ‘اگلے نے جواب دیا، ‘ بھائی اس گروپ میں بھی لیفٹسٹ آ گئے۔ ‘ ایک دوسرےنے جواب دیتے ہوئے کہا، ‘ لنک کیوں شیئر کیا جا رہا۔’ پولیس آنے کےمتعلق ایک نے جواب دیا، ‘ نہیں۔ وی سی نے انٹری منع کیا ہے۔ اپنا وی سی ہے۔ ‘

ٹروکالر پر پتہ چلتا ہے کہ یہ نمبر اونکار شریواستو نام کے ایک آدمی سے جڑا ہے۔ انہوں نے اپنے فیس بک پروفائل پر لکھا ہے کہ وہ دہلی میں اے بی وی پی کے کئی ریاستی عاملہ کے ممبر ہیں اور 2015-16 میں جے این یو میں اے بی وی پی کے نائب صدر رہ چکے ہیں۔

وہیں رائٹ ونگ تنظیموں کا الزام ہے کہ اس گروپ میں لیفٹ کے کئی لوگ شامل تھے اور تشدد کی پلاننگ میں تھے۔ حالانکہ اس کے جواب میں کچھ لوگوں نے کہا کہ بعد میں مسلمانوں اور لیفٹ کے طالب علموں کو ٹارگیٹ کرنے کے لئےکئی لوگوں کے نام کو جان بوجھ کر اس میں شامل کر لیا گیا۔سیاسی تجزیہ کار شوم شنکر نے کہا کہ تشدد کے لئےمسلمانوں اور لیفٹ حامیوں کو ذمہ دار ٹھہرانے کے لئے نئے نمبر اس طریقے سے جوڑےگئے تھے۔

اس میں سے ایک نمبر آنند منگنلے نام کے ایک شخص کا تھا جوکہ پہلے کانگریس پارٹی کے ساتھ کام کر چکے ہیں۔ اس کی وضاحت میں انہوں نے بتایا کہ وہ ‘جان بوجھ کر ‘اس گروپ میں جڑے تھے تاکہ اندر کی جانکاری حاصل کر سکیں۔

کانگریس نے بھی ٹوئٹ کرکے واضح کردیا ہے کہ کانگریس نےمنگنلے کے ساتھ لوک سبھا انتخاب کے دوران کچھ وقت کے لئے ہی کام کیا تھا، اب اس کےساتھ پارٹی کا کوئی تعلق نہیں ہے۔