ادبستان

فیض احمد فیض کی نظم: کیا لفظ ’اللہ‘ ہندو مخالف ہے؟

جو لوگ’’ہم دیکھیں‌گے‘‘کو’ہندو مخالف‘کہہ رہے ہیں، وہ ایشور کی پوجا کرنے والے بت پرست  نہیں، سیاست کو پوجنے والے بت پرست ہیں۔

فیض احمد فیض(فوٹو بہ شکریہ: ٹوئٹر)

فیض احمد فیض(فوٹو بہ شکریہ: ٹوئٹر)

آئی آئی ٹی کانپور میں اس بات کی جانچ ہوگی کہ فیض کی نظم ’ہم دیکھیں‌گے‘ ہندومخالف ہے یا نہیں۔ کوئی بھی نظم/ادب ہندو مخالف ہے یا نہیں؟یا اس کے مندرجات کیا ہیں؟ اس کو سمجھنے اورجانچنے کا طریقہ کیا ہو سکتا ہے؟یہ سوچتے ہوئے مجھے اچانک اس کلاس روم کی یاد آئی، جہاں اساتذہ  شعر کی قرأت کے بعد اپنی بات عام طور پر اس طرح شروع کرتے تھے کہ …شاعر اس شعرمیں یہ کہنا چاہتا ہے، یا شاعر ہمیں یہ بتانا چاہتا ہے…

مجھے یہ طریقہ کارہمیشہ سے بچکانہ لگتا رہا کیونکہ مجھے اس طریقےمیں شاعر کو ملزم بنانے کی سازش کی بو آتی رہی ہے۔ لیکن اب مجھے اپنے ان تمام اساتذہ پر بےحد پیارآ رہا ہے جنہوں نے شاعری کی ٹانگیں توڑ‌کر سارا الزام شاعر کو دے دیا کہ شاعر یہ کہنا چاہتا ہے… اور آج مجھے یقین بھی دلا دیا کہ ایسے نامطلوب اور سیاسی مواقع پر وہ بھی میرے کام آ سکتے ہیں۔جاننے والی بات یہ ہے کہ فیض کے جیتے جی پہلے ہی کئی بار پاکستان میں فیض کی وجہ سے اسلام خطرے میں آ چکا تھا اور اب ان کی  وفات کے بعد ان پر ہندو مخالف ہونے کا الزام ہے۔ خدا جانے یہ نام نہاد مذہبی لوگ الگ الگ وقت میں بھی ایک ہی لکیر کو ایک ہی طرح سے کیسے پیٹ لیتے ہیں۔

حالانکہ اس نظم میں ایسا کچھ نہیں ہے جس کو تعبیر وتصریح کی ساری کوششوں کے باوجود ہندو مخالف کہا جا سکے، لیکن فیکلٹی ممبر کو بالخصوص نظم کے بت اٹھوائے جائیں‌گےاورنام رہے‌گا اللہ کاوالے حصے میں ایسا کچھ نظر آ گیا جو ان کی تصریح میں ہندو مخالف  ہے یا ہو سکتا ہے۔فیض کی نظم کو لےکر اس جاری تنازعے کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہوں تو لگتا ہے کہ یہ بھی کلاس روم والی نوع  کی سازش ہے۔ یہاں شاعر نے کیاکہا،نظم کیا کہنا چاہتی ہے، سیاق وسباق کیا ہے-سب ایک طرف، بس ایک فیکلٹی ممبر کو لگاکہ شاعر یہ کہنا چاہتا ہے یا اس میں درج لفظوں کے معنی ہندو مخالف ہیں اس لئے ایک کمیٹی اس کی جانچ کرے‌گی۔

کہیں کسی نظم میں اللہ درج کر دینے سے یا کسی کےبول دینے سے یہ کیسے ثابت ہوگا کہ وہ متن ہندو مخالف ہے؟ کہیں آپ یہ تو نہیں کہناچاہتے کہ لفظ اللہ ہی ہندو مخالف ہے؟ پھر گاندھی جی‌کے پسندیدہ بھجن رگھوپتی راگھو راجا رام کےایشور اللہ تیرو نام والےاللہ میاں کا کیا کیا جائے‌گا؟شاید آپ کو یہ بات اچھی نہ لگے لیکن شاعری مذہب سےزیادہ مقدس ہوتی ہے۔ اتنی مقدس کہ ایشور-اللہ کا فرق مٹ جاتا ہے۔ شاید اسی فرق کومٹتا دیکھ کچھ لوگ فیض اور حبیب جالب جیسے شعراء سے بدگمان نظرآتےہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ فیض کی یہ بے چاری نظم ہمیشہ سےتنازعات کا شکار رہی ہے۔ ایک ذرا سا گوگل کیجئے تو پتہ چلے‌ کہ اس نظم کی صرف ایک سطر’ہم دیکھیں‌گے‘ کو دیوار پر لکھ دینے کی وجہ سے بھی طالبعلموں کو نوٹس تھمایا جا چکا ہے۔بہانےبہانے سے اس طرح کی نظموں پر اعتراض کا مطلب بہت صاف ہے کہ تمام طرح کے احتجاج اور مظاہرے میں لوگوں کی آواز بننے والے ترانے کو کبھی مذہب کے نام پر راندۂدرگاہ کرنے کی کوشش کی جائے، تو کبھی اسکول میں بچوں کے ترانےمیں بھی مذہب تلاش‌کر لیا جائے۔

فیض کو ہندو مخالف قرار دینے والوں کو جاننا چاہیے کہ وہ ہمیشہ جمہوری‎قدروں کے لئے کھڑے رہے، ایک طرف جہاں اپنے ملک پاکستان میں انہوں نے عوامی حقوق کے لئے آواز بلند کی وہیں ہندوستان میں ایک وقت میں نہرو اور اندرا گاندھی کے پیارے اس شاعر نے اندرا تک کی تنقید میں کسی لاگ لپیٹ سے کام نہیں لیا۔سابق وزیر اعظم اور وزیر اندر کمار گجرال راوی  ہیں کہ ؛ایمرجنسی کے زمانے میں فیض نے کہا، یہ خوب کیا، پاکستان کو جمہوری راہ پر لانے کے بجائے تم لوگ خودہی لڑھک گئے۔

جمہوریت کے لئے لڑنے والا شاعر بھلا کسی بھی مذہب کی توہین کیسے کر سکتا ہے۔ پھر سوال یہ ہے کہ فیض اصل میں کیا تھے؟

اس کا کوئی آسان اور سادہ سا جواب ممکن نہیں ہے، لیکن مذہب کی بات کریں تو وہ شدت پسند نہیں تھے، انہوں نے اکثر یہ کہا کہ میں صوفی-سوشلسٹ مسلمان ہوں اور رومی میرے مرشد ہیں۔ میری شاعری بھی اس سے الگ نہیں ہے۔ان کا عقیدہ تھا کہ صوفی ہی اپنے وقت کے سب سے بڑےکامریڈ ہوتے ہیں۔ ایک بار ان سے پوچھا گیا کہ کچھ لوگ اپنی ذات  کے حوالے سےمذہب کو دیکھتے ہیں۔ تو ان کا جواب تھا،بڑی خوشی سے دیکھیں مگر ان کو کچھ نظرآئے‌گا تبھی تو دیکھیں‌گے۔ اہم دیکھنے والی نظر ہوتی ہے۔

اپنی اہلیہ کے ساتھ فیض ،فوٹو بہ شکریہalchetron.com

اپنی اہلیہ کے ساتھ فیض ،فوٹو بہ شکریہalchetron.com

فیض کو سمجھنے کی سعی میں یاد آتی ہے وہ بات بھی جب ان کی اہلیہ ایلس نے امرتا پریتم کو ایک سوال کے جواب میں کہا تھا،

میں فیض سے امرتسر میں ملی، امرتسر ہندوستان بن گیا اور ہندوستان فیض۔

جی ایک زمانہ وہ تھا جب ہندوستان کا مطلب فیض ہوتا تھا۔ بات فیض اور ہندوستان کی ہی کریں تو جب جب ان دو ممالک کے مابین حالات  کشیدہ ہوئے فیض نے اس کوکم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ یہاں تک کہ ان کو پاکستان میں ملک کا دشمن اورہندوستان نواز تک کہا گیا۔ لیکن وہ اپنی کرنی کر گزرنے میں یقین رکھتے تھے۔یہاں کرشن چندر اور فیض کا ایک واقعہ بھی یاد آ رہا ہے، جو ماسکو میں پیش آیا تھا۔دراصل  ماسکو میں دنیا بھر‌کے تخلیق کاروں کی کانگریس تھی، جس میں فیض اور کرشن چندر بھی مدعو تھے۔ وہاں ہر مہمان کی میز پر اس کے ملک کاجھنڈا لگا ہوا تھا۔ہندوستان کے ترنگے والی میز سے کوئی 30 میز کی دوری پرپاکستان کا پرچم لگا تھا۔ کچھ دیر بعد وہاں فیض آئے اور ادھر ادھر دیکھنے لگے۔ پھران دونوں کی نظریں ملیں اور دونوں اپنے-اپنے ملک کا پرچم لےکر آگے بڑھے اور ایک دوسرے کے گلے لگ گئے۔سارا ہال تالی پیٹنے لگا۔ اور پھر وہاں کہا گیا،

کیاسمجھتے ہیں یہ لوگ، ہم لوگ بھی کیا متعصب  سیاستدانوں کی طرح ایک دوسرے کے دشمن ہیں؟ ادب میں یہ دشمنی نہیں چلتی اور کاش کہیں بھی نہ چلے۔

 ہندوستان میں اسی فیض کی مقبولیت کے بارے میں پاکستان میں کہا گیاکہ وہ تو اشوک کمار بنے پھرتے ہیں۔ اس طرح کی بہت سی باتیں ہیں جو فیض کے لئے پیش کی جا سکتی ہیں، لیکن نفرت کی بھی اپنی ایک حکمرانی  ہے جو فیض کی نظم کی جانچ کرنا چاہتی ہے۔ اقتدار اور سیاسی آب و ہوا ہمیشہ سے یہی کرتے آئے ہیں۔اچھی بات یہ ہے کہ فیض اور فیض کی اس نظم سے ڈرنے والےدونوں ملکوں میں اپنی-اپنی نفرت والی سیاسی دکان چلا رہے ہیں۔ فیض وہاں اسلام کے دشمن تھے تو یہاں ہندو مخالف۔

اشارہ پاکستان کی سیاست، جنرل ضیاء الحق کی تاناشاہی اوران کے فرمان کی طرف ہے۔ خیر سے فیض اس سماج اور عوام کے شاعر رہے، جہاں جمہوریت کی بحالی اور عوامی حقوق کے لئے ان کا جیل آناجانا لگا رہا۔فیض نے جمہوریت کی سلامتی کے لئے کیا نہیں لکھا اور کس طرح کی  نافرمانی نہیں کی، شاید اس لئے ہندوستان اور پاکستان تو ایک طرف، ان کی آواز کو دنیا بھر میں مظلوموں نے اپنے گلے سے لگایا۔

اسی وجہ سے یہ بھی کہا گیا کہ کیا فیض صرف اس پاکستان کےشہری ہیں جہاں وہ رہے یا ہر اس مظلوم دنیا کے جہاں اقتدار اپنی جابرانہ پالیسی کے سہارے عوام پر ظلم کرتی ہے۔جواب دینے کی ضرورت نہیں ہے کہ ان کی نظمیں جہاں فلسطینی بچوں کو لوری سناتی ہیں وہیں ویت نام کے مظلوموں کے ساتھ بھی کھڑی ہو جاتی ہے۔ فیض کی اہمیت اور ضرورت پر کبھی اور بات کی جائے‌گی، فی الحال اس نظم کو سامنے رکھتے ہیں جس کو  ہندو مخالف کہا گیا اور فیض جیسے انسان پرست شاعر کو گالی دینے کی بیہودہ کوشش کی گئی۔

تو اس نظم سے متعلق  ایک دلچسپ قصہ ہے۔ جب جنرل ضیاء الحق نے پاکستان میں ہر طرح-بولنے، لکھنے، پڑھنے یہاں تک کہ عورتوں کے ساڑی پہننے پربھی پابندی لگا رکھی تھی، ایسے وقت میں اقبال بانو جیسی فنکارہ نے سیاہ ساڑی پہن‌کر احتجاج درج کرتے ہوئے لاہور کے ایک اسٹیڈیم میں نافرمانی کو اپنا حق سمجھا اور اس کے اظہار کے لیے اسی نظم کو وسیلہ بنایا۔کہتے ہیں تقریباً پچاس ہزار لوگوں نے اس وقت بھی فیض کی اس نظم کو اپنی آواز دی، جب اقتدار کے اشارے پر اسٹیڈیم کی لائٹ بند کر دی گئی۔یاد کرنے والی بات یہ بھی ہے کہ وہاں عوام نے انقلاب زندہ باد کے نعرے لگائے۔

اس قصہ کو دوہراتے ہوئے اگر میں تھوڑی دیر کےلئے سیاسی عینک لگا لوں تو آپ کو بتا سکتا ہوں کہ اس وقت پاکستان میں جو انقلاب زندہ باد کے نعرے لگائے گئے وہ ہندوستانی نعرہ ہے۔ آپ جانتے ہی ہوں‌گے کہ یہ نعرہ مولانا حسرت موہانی نے دیا تھا جس کو بھگت سنگھ اور ان کے دوستوں نے بھی انگریزوں کے خلاف اپنا ہتھیار بنایا۔اب اس اتفاق پر کیا کہیے کہ پاکستانی عوام، فیض کی نظم اور ہندوستانی نعرہ۔ پھر آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ نعرہ اسلام مخالف تو نہیں ہے نہ۔بالکل صحیح بات ہے کہ یہ نعرہ اسلام مخالف نہیں ہے تو آپ نے یہ کیسے مان لیا کہ فیض یا فیض کی نظمیں ہندو مخالف ہیں؟

میں کلاس روم والے استاد کی طرح فیض کی اس نظم پر بات کروں اس سے پہلے دو ایک باتیں یاد کروا دینا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ فیض کون تھے؟ آپ چاہیں تو اس طرح کہہ لیجیے کہ فیض آپ کے لئے کیا ہیں؟ پاکستانی شاعر،مسلمان شاعر یا صرف مسلمان اس لئے ہندو مخالف ہیں؟آپ نے صحیح پڑھا میں نے فیض کو کمیونسٹ اور شوسلسٹ نہیں کہا، مسلمان لکھا ہے اور فیض ایسے مسلمان تھے جن کو ان کی زندگی میں اسلام مخالف کہا گیا۔ یہ جان‌کر شاید اچھا لگے کہ فیض کو اسلام مخالف کہنے والے اتنے ہی مسلمان تھے جتنا ان کو کوئی ہندو مخالف کہنے والا ہندو ہو سکتا ہے۔

دراصل جو لوگ ان کو ہندو مخالف کہہ رہے ہیں، وہ ایشور کی عبادت کرنے والے بت پرست  نہیں، سیاست کو پوجنے والے  بت پرست  ہیں۔ داغ نےکہا تھا؛

 زمانہ بتوں پر فدا ہو رہا ہے

خدا کی خدائی میں کیا ہو رہا ہے

بت یوں تو اردو شاعری میں محبوب کو کہا گیا ہے، لیکن یہاں فیض نے ان گونگے، بہرےاور اندھے سیاسی رہنماؤں کو بت کہا ہے جو اقتدار کی سنک میں عوام پر ظلم کرتےہیں۔ یہ بت نہ تو اردو شاعری والی محبوبہ ہے اور نہ ہی ہندوؤں کے عقیدہ میں دخل دیتے ہوئے کسی بھگوان یا ایشور کی مورتی کا تذکرہ۔

اگر آئی آئی ٹی کے شکایت کرنے والے فیکلٹی ممبر کی طرح لفظ ،علامت یا استعارہ کو لغت کے حساب سے پڑھنے کی کوشش کی جائے، تو فیض کیا پوری اردوشاعری صرف اس لئے ہندو مخالف ہو جائے‌گی کہ اس میں کافر، پرستش، صنم، بتکدے جیسےلفظوں کی کوئی کمی نہیں ہے۔ حالانکہ اسی وقت یہ شاعری اسلام مخالف بھی ہوجائے‌گی۔

یوں تو ادب کی تھوڑی سی بھی سمجھ رکھنے والوں کے لئے فیض کی اس نظم کو تصریح  کی چنداں  ضرورت نہیں ہے۔ اس کے باوجود نظم کو کچھ حصوں میں توڑ‌کردیکھ لیتے ہیں کہ نظم کیا کہنا چاہتی ہے۔ پہلا حصہ ملاحظہ کیجئے؛’ہم دیکھیں‌گے‘

لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں‌گے

وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے

جو لوحِ ازل میں لکھا ہے

یہاں سب سے پہلی بات یہ ہے کہ اس نظم کی فرہنگ اور بہت حد تک اس کا ٹون-آئیڈیا فیض کا اپنا یا طبع زاد خیال نہیں ہے۔ انہوں نے بہت کچھ قرآن سے لیا ہے۔ اس کے باوجود یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ صرف ترجمہ ہے۔دراصل مذکورہ نظم ان کے شعری مجموعہ مرے دل مرے مسافرمیں و یبقیٰ وجہ ربک کے عنوان سے شامل  ہے، یہی نظم عوام میں ’’ہم دیکھیں‌گے‘‘ کے عنوان سے رائج ہوچکی ہے۔نظم کا عنوان قرآن کی سورت  رحمٰن سے لیا گیا ہےاورنظم کے مندرجات بھی قرآن میں مذکور قیامت کے مناظر سے ماخوز ہیں۔

ان کی اس نظم پرجنوری 1979درج ہے اور عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے یہ نظم اس وقت لکھی تھی جب وہ امریکہ میں تھے۔ بتا یا جاتا ہے کہ ان دنوں پاکستان میں جنرل ضیاء الحق کا مارشل لا نافذتھا اور جلد ہی  ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی جانے والی تھی۔

شعری مجموعہ مرے دل مرے مسافر سے مقتبس

شعری مجموعہ مرے دل مرے مسافر سے مقتبس

دراصل فیض نے ہم عصر سماج اور سیاست کو دیکھتے ہوئے تمام الفاظ اور علامتوں کو ایک نئے معنی میں ڈھال دیا اور یہ سب انہوں نے شعوری طورپر کیا۔ اس لئے یہ نظم عوامی شعور کا بھی حصہ بن گیا۔مثلاً’وعدہ ‘ اور ‘ لوحِ ازل ‘ جیسی خالص مذہبی اصطلاح بھی اس اقتدار کے خلاف عوام کی آواز بن گئی ہیں جس میں عوام کا حصہ نہیں ہے۔ فیض خود مانتے رہے کہ لوحِ ازل پر لکھا یعنی اللہ یا ایشور کی خواہش بھی یہی ہے کہ اقتدار وہی ہے جس میں عوام شامل ہوں اور یہ انقلاب آکر رہے‌گا۔

صاف لفظوں میں کہیں تو اس میں تاناشاہی کے خلاف جمہوریت کی جیت کا یقین دلایا جا رہا ہے۔

یہ جاننا دلچسپ ہے کہ ،ایک بار جب فیض سے انقلاب کے مذہبی ہونے کو لےکر سوال کیا گیا تو ان کا دو ٹوک جواب تھا،

انقلاب اسلامی اور غیراسلامی نہیں ہوا کرتے۔جب لوگ تخت و تاج کو اُلٹنے اور بادشاہی نظام کو تاراج کرنے کے لئے سڑکوں اورگلیوں میں نکل آئیں تو پھر یہ عوامی انقلاب بن جاتا ہے۔

 اس طرح دیکھیے تو یہ عوامی انقلاب کا ترانہ ہے۔ نظم کااگلا حصہ ملاحظہ کریں؛

جب ظلم و ستم کے کوہِ گراں

روئی کی طرح اڑ جائیں‌گے

ہم محکوموں کے پاؤں تلے

جب دھرتی دھڑ-دھڑ دھڑکے‌گی

اور اہلِ حَکم کے سراوپرجب بجلی کڑ-کڑ کڑکے‌گی

اس حصے میں فیض نے صاف طور پر تاناشاہی کے ظلم و ستم کوعوامی انقلاب کے سامنے روئی کی طرح اڑ جانے کی بات ایک خاص ٹون میں کہی ہے، جوقرآن سے لیا گیا ہے۔اسی طرح نظم کے اگلے حصے میں فیض نے مذہبی اصطلاحات کا خوب سہارا لیا ہے۔ مثلاًارضِ خدا، کعبہ، اہلِ صفا، مردودِحرم۔

جب ارضِ خدا کے کعبے سے

سب بت اٹھوائے جائیں‌گے

ہم اہلِ صفا مردودِ حرم

مسند پہ بٹھائے جائیں‌گے

سب تاج اچھالے جائیں‌گے

سب تخت گرائے جائیں‌گے

فیض جس ارضِ خدا یعنی خدا کی زمین پر کعبے کی بات کر رہےہیں وہ تو لغوی معنی اور جغرافیہ کے مطابق عرب میں ہے۔ اگر اس تناظر میں بھی کعبےکی بات کی جائے تو تاریخ کی اپنی گواہی یہ ہے کہ اس کعبہ سے پیغمبر ابراہیم کے ہی وقت میں’ بت’ ہٹا دئے گئے تھے۔ پھر فیض کس کعبے سے بت اٹھوانے کی بات کر رہے ہیں؟ادب کے قارئین سمجھ سکتے ہیں کہ جس طرح شاعر اپنی شاعری میں دیومالا کا استعمال کرتے ہوئے عصر ی تناظر میں اپنی بات کہتا ہے ویسے ہی وہ اسلامی اصطلاحات(تلمیح)کا استعمال کرکے بھی ہم عصر دنیا کی بات کرتا ہے۔

محسن زیدی کے ساتھ فیض(فوٹو : وکی میڈیا کامنس)

محسن زیدی کے ساتھ فیض(فوٹو : وکی میڈیا کامنس)

یہاں بھی فیض کسی عرب دنیا اور اس کے کعبے کی بات نہیں کر رہے بلکہ ان کے لئے خدا کی زمین اور اس کا کعبہ وہ ہے جس پر ہماری گُونگی، بہری اور اندھی سیاست نے قبضہ کرکے جمہوریت کی قدروں کو پامال کر دیا ہے۔اسی سیاسی بت کو اٹھوانے کی بات کرتے ہوئے فیض عوام کواہلِ صفا مردودِحرم یعنی نیک اور معصوم عوام، جس کو اقتدار نے خارج دیا ہے جیسےاوصاف کے ساتھ یاد کر رہے ہیں۔ اور بتا رہے ہیں یہی عوام تاناشاہی کے تاج کو اچھالے‌گی اور حکومت کرے‌گی۔

اب اگر اللہ والے حصے پر بات کریں تو یہاں بھی کسی مذہب کی حمایت یا مخالفت کی کوئی آواز نہیں ہے، بلکہ فیض نے یہاں’اللہ ‘ کو اس سچائی اور ایشور کی علامت کے طور پر پیش کیا ہے، جس کو مٹایا نہیں جا سکتا۔

بس ’ نام رہے‌گا اللہ کا‘

جو غائب بھی ہے حاضر بھی

جو منظر بھی ہے ناظر بھی

اٹھےگا اناالحق کا نعرہ

جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو

اور راج کرے‌گی خلقِ خدا

جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو

سچائی ہر حال میں موجود ہوتی ہے خواہ وہ نظر آئے نہ آئے۔اور اس سچائی کا یقین دلانے کے لئے فیض نے ‘ اناالحق ‘کی بات کی ہے، اور شاید آپ واقف ہی ہو کہ اس نعرہ کو اپنے وقت کے صوفی منصور حلاج نے بلند کیا تھاجس کی وجہ سے ان کو پھانسی دی گئی تھی۔یاد رکھنے والی بات ہے کہ منصور نے اس اقتدار کے خلاف یہ نعرہ دیا تھا جس نے خود کو خدا کا نائب کہہ‌کر عوام پر اپنی خدائی چلا رکھی تھی۔

ایسے میں ایک غریب دھنیا یا جلاہے کے بیٹے کا ‘ اناالحق’ کہنا ہی تاناشاہی کے خلاف عوام کی حکومت کا اعلان تھا۔اس نعرہ کو کچھ لوگ ہندی فلسفہ(अहं ब्रह्मास्मि)کے معنی میں بھی پیش کرتے ہیں حالاں کہ اس کا لغوی معنی ہے میں حق  ہوں۔میں اور تم کی تمیز مٹا دینے والی اس نظم کی صحیح تصویرآپ ہر اس مظاہرہ میں دیکھ سکتے ہیں، جہاں لوگوں کو ان کے کپڑوں سے نہیں پہچانا جاسکتا۔

آپ ان کو صرف عوام کہہ سکتے ہیں ہندو اور مسلمان نہیں،جن کو ڈرانے کے لئے اقتدار کچھ بھی کر سکتی ہے اور کر رہی ہے۔ اور فیض جیسے شاعرحکومت کی اسی جابرانہ پالیسی کے مخالف ہیں۔تو صرف اس بنیاد پر کہ کچھ الفاظ کے معانی کو لےکر آپ کی سوچ صاف نہیں ہے اس کو ہندو مخالف یا کچھ اور کہہ دیا جائے بہت ہی مضحکہ خیز ہے۔اور فیض کے لفظوں میں کہیں تو؛

 وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا

وہ بات ان کو بہت ناگوار گزری ہے

اس مضمون کو ہندی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کیجیے۔