خبریں

جے این یو پر حملے کی کہانی، چشم دیدوں کی زبانی

اتوار کو دیر شام جے این یو میں باہر سے بڑی تعداد میں آئے نقاب پوش لوگوں نے جے این یو کے طالبعلموں اور اساتذہ پر حملہ کیا۔ اس دوران جےاین یو طلبہ یونین صدر آئشی گھوش سمیت کئی طالبعلموں اور اساتذہ کو سنگین چوٹیں آئیں۔

جے این یو کا سابرمتی ہاسٹل(فوٹو : پی ٹی آئی)

جے این یو کا سابرمتی ہاسٹل(فوٹو : پی ٹی آئی)

نئی دہلی: اتوار کو دیر شام جواہرلال نہرو یونیورسٹی(جے این یو)میں باہر سے بڑی تعداد میں آئے نقاب پوش لوگوں نے جے این یو طلبہ یونین صدر آئشی گھوش سمیت طالبعلموں اور اساتذہ پر حملہ کیا۔ اس دوران آئشی گھوش اور دو-تین اساتذہ سمیت 30 سے زیادہ طالبعلم زخمی ہو گئے۔جے این یو طلبہ یونین کا دعویٰ ہے کہ یہ حملہ اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد (اے بی وی پی)کے لوگوں کے ذریعے کیا گیا ہے۔ اس سے پہلےسنیچر کو بھی کیمپس میں طالبعلموں کے درمیان کشیدگی  کی خبریں سامنے آئی تھیں۔

وہیں، اتوار دیر رات ہوئے تشدد کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کے لئے سموار کو جے این یو کے طالبعلم یونیورسٹی کی مشرقی گیٹ کے سامنے جمع ہوگئے۔ اس کو دیکھتے ہوئے دہلی پولیس فورسز کے دستے کو وہاں تعینات کر دیا۔

جے این یو میں سابرمتی ہاسٹل کے گیٹ پر کانچ کے ٹکڑے بکھرے ہوئے تھےاور لائٹ نہیں جل رہی تھی۔ کچھ کمروں کو چھوڑ‌کر زیادہ تر پر حملہ بولا گیا، آئرن راڈ اور ہاکی اسٹک سے دروازوں کو توڑنے کی کوشش کی گئی۔ دروازوں کے اوپر لگے کانچ کی کھڑکیوں کو توڑ دیا گیا۔ ہاسٹل میں چاروں طرف کانچ کے ٹکڑے پھیلے ہوئے تھے۔

سی ایس آر ڈی کے اسٹوڈنٹ چندرمنی نے بتایا،’پچھلے دومہینے سے ہم فیس اضافے کی مخالفت کر رہے تھے۔ اس دوران جے این یو انتظامیہ نےرجسٹریشن کرانے کے لئے الگ الگ وقت پر نوٹیفکیشن نکالا تھا،جبکہ طالبعلموں نےاس کا بائیکاٹ کیا تھا۔ اے بی وی پی کے لوگ زبردستی چاہتے تھے کہ رجسٹریشن ہو اورکلاس چلے۔ وہ خود کا رجسٹریشن کروا سکتے تھے اور باقی لوگوں سے آرام سے بات کرسکتے تھے لیکن وہ متشدد ہو گئے۔ انہوں نے صرف اور صرف رجسٹریشن نہ کرانے کی وجہ سے ہمارے جےاین یوایس یو صدر اور جنرل سکریٹری کی پٹائی کی۔ ‘

انہوں نے کہا، ‘اے بی وی پی پوری طرح سے انتظامیہ کاحصہ ہو گیا ہے اور ان کی چاپلوسی میں لگا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ صرف لیفٹ کے طالبعلموں کو مارا گیاہے بلکہ عام طالبعلموں کو بھی نہیں بخشا گیا۔ وہ ایک ایک طالبعلم سےپوچھ رہے تھے کہ رجسٹریشن کرایا ہے؟ اور جب طالبعلم کہتے تھے کہ وہ بائیکاٹ کررہے ہیں تو وہ ان کی پٹائی کرنے لگ جاتے تھے۔ ایڈمن بلاک کے سامنے دونوں گروپس میں تصادم ہوا جس میں اے بی وی پی کے طالبعلم بھی پیٹے گئے اور لیفٹ کے بھی طالب علم۔لیکن اس چکر میں ان لوگوں نے باہر سے 150-200 لوگوں کو بلا لیا۔ ‘

وہ کہتے ہیں،’باہر سے آنے والے لوگوں نے پیشہ ورانہ طریقےسے چہرے پر رومال باندھ‌کر بہت مارا ہے سب کو۔ جو اے بی وی پی کے نہیں تھے، ان کونشانہ بنایا گیا۔ انہوں نے ہر کسی کو نشانہ بنایا یہاں تک کہ ٹیچرس کو بھی نہیں چھوڑا۔ انہوں نے دو فیکلٹی ممبرس کی پٹائی کی جس میں سے ایک کے سر پر گہری چوٹ آئی ہے۔ ایک ٹیچر کو تو انہوں نے پہلے کئی تھپڑ مارے اور پھر ڈنڈے سے پٹائی کی۔ ان کی سائیکل توڑ دی گئی اور وہ جان بچاکر بھاگے ہیں۔ باہری لوگوں نے آکر جب پتھراؤ کیاتب ہم لوگ بھاگ‌کر کہیں چھپ گئے۔ ‘

دیر رات ڈرکی وجہ سے سابرمتی ہاسٹل کےطلبہ وطالبات اپنے کمرے میں تالا لگاکر دوسرے ہاسٹلوں میں چلے گئے تھے۔ نقاب پوش بھیڑ کےحملے کا شکار ہونے والے زیادہ تر طالب علم میڈیا سے بات کرنے کے دوران اپنی پہچان نہیں اجاگر کرنا چاہتے تھے۔نقاب پوش لوگوں کے ہاتھ پٹنے والے جے این یو کے ایک طالبعلم نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر دی وائر سے بات کی۔ انہوں نے کہا، ‘ جب ہم پر ان نقاب پوش لوگوں نے حملہ کیا تب ہم لوگ جے این یو ٹیچر یونین کے ذریعے منعقدایک میٹنگ میں حصہ لے رہے تھے۔ پہلے تو ہم نے سوچا کہ ہم ان کا سامنا کریں‌گےلیکن وہ ممکن نہیں تھا اور ہم بھاگ‌کر اپنے-اپنے ہاسٹلوں میں چھپ گئے۔

وہ کہتے ہیں حالانکہ یہ غنڈے ہاسٹل میں بھی گھس گئے اور انہوں نے ہمارے کمروں کے دروازے توڑے، دروازے کےاوپر لگے کانچ کو بھی توڑا۔ اس دوران وہ بہت ہی بیہودہ طرح کی نعرے بازی کر رہےتھے جس میں وہ گولی ماروں سالوں کو، جیسے نعرے کا استعمال کر رہے تھے۔ ‘

انہوں نے کہا، ’15-20 منٹ بعد مجھے لگا کہ وہ چلے گئےہیں اور میں کمرے سے باہر نکلا لیکن میں جیسے ہی باہر نکلا ان لوگوں نے مجھے پیٹناشروع کر دیا۔ سب سے خراب  بات یہ ہے کہ ایڈمنسٹریشن کے کئی پروفیسروں نے اے بی وی پی کیڈرس کو حملے کے لئے بھڑکایا۔ یہ پوری طرح سے صاف ہے کہ انہوں نے باہر سےلوگوں کو بلایا اور جے این یو کے کچھ طالبعلموں اور اساتذہ نے ان کی مدد کی۔ مجھےلگتا ہے کہ جب تک وائس چانسلر جگدیش کمار یہاں ہیں ہم محفوظ نہیں ہیں۔ ‘

وہیں، سوموار کو اس معاملے پر بیان دیتے ہوئے جے این یووائس چانسلر ایم جگدیش کمار نے کہا، سبھی طلبہ تنظیموں  سے امن بنائے رکھنے کی اپیل ہے۔ تعلیمی سرگرمیوں کو آگے بڑھانے میں مدد کرنے کے لئے یونیورسٹی تمام طالب علموں کے ساتھ کھڑی  ہے۔ ہم یہ یقینی بنائیں ‌گے کہ ونٹر سیمسٹر کے رجسٹریشن بناکسی رکاوٹ کے ہو جائیں۔ ان کو اس کے پروسس کو لےکر خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔یونیورسٹی کی ترجیحات میں  ہمارے طالبعلموں کے تعلیمی مفادات کی حفاظت کرنا ہے۔

حالانکہ، طالب علموں اور اساتذہ پر وحشیانہ حملے کے بعدجے این یو ایس یو نے وائس چانسلر ایم جگدیش کمار کو اس تشدد کے لئے ذمہ دارٹھہرایا ہے۔ جے این یو ایس یو نے بیان جاری کر جگدیش کمار کو ‘ غنڈہ ‘ بتایا ہے،جو یونیورسٹی میں تشدد بھڑکا رہے ہیں۔ طلبہ یونین نے وائس چانسلر جگدیش کمار کےاستعفیٰ کی مانگ کی ہے۔طالبعلموں اور اساتذہ کے ساتھ ہوئے تشدد کے بعد زیادہ تر طالب علم اور اساتذہ  جے این یو کیمپس میں ٹی پوائنٹ پر اجمع  ہوئے تھے۔ وہاں پروہ پر امن طریقے سے جٹے ہوئے تھے۔

وہاں موجود جے این یو اسٹوڈنٹ شیوانی نے کہا، ‘ آج شام کوجے این یو کیمپس میں ایک بھیڑ نے حملہ کیا۔ 100-150 کی تعداد میں گھسی اس بھیڑ کےپاس لاٹھیاں، بلا، ہتھوڑا اور کئی طرح کے ہتھیار تھے۔ کل سے چل رہے تشدد کے خلاف ہم لوگ یہاں پر جے این یو ٹی اے کے ذریعے بلائے گئے امن مارچ کے لئے جمع  ہوئےتھے۔ اسی وقت حملہ آور بھیڑ آگئی  تھی۔

وہ کہتے ہیں ،انھیں روکنے کے لئے ہمارے پروفیسرز جب ان کے سامنے جاکرکھڑے ہو گئے تو ان کو بھی مارا گیا۔ یہاں کھڑے لوگوں کو بھگا بھگاکر مارا جاتا ہے۔ایک جگہ ہم لوگ پھنس گئے تھے اور میری آنکھوں کے سامنے ہی آئشی گھوش کو مارا گیا۔گاڑیوں کے شیشہ توڑے گئے۔ ڈھابوں کی کرسیوں اور دیگر چیزوں کو توڑا گیا۔ بہت سارےطالبعلموں کو میری آنکھوں کے سامنے مارا گیا تھا۔ ‘

انہوں نے بتایا،’اس کے بعد بھیڑ ہاسٹل میں گھستی ہے۔ہاسٹل میں گھس‌کر لوگوں کے کمرے توڑ گئے۔ دروازوں کے باہر لگے پوسٹروں کی پہچان کرکے نشانہ بنایا گیا۔ ان کو بہت سارے کمروں کے نمبر دیے گئے تھے اور ان کی پہچان‌کرحملہ کیا گیا۔ ایک بینائی سے محروم  طالب علم کے کمرے کے باہر امبیڈکر کا پوسٹر لگا ہے، اس طالب علم کے کمرے کا دروازہ توڑا گیا اور اس کو بھی پیٹا گیا۔ ایک طالب علم کےکمرے کے باہر باب مارلے (امریکی گلوکار)کا پوسٹر لگا تھا اور اس لئے اس کو کمیونسٹ سمجھ‌کرحملہ کیا گیا۔ وہ لڑکیوں کے ہاسٹلوں میں بھی گھس گئے اور کیمپس میں دہشت کا ماحول پیدا کر دیا۔ ‘

انہوں نے کہا، ‘اس کیمپس میں پچھلے دو مہینے سے احتجاجی مظاہرہ چل رہا ہے۔ کل سے سبھی سینٹر کو بند کرنے کی بھی تیاری ہے کیونکہ انتظامیہ ہماری مانگیں پوری نہیں کر رہا ہے۔ ہم نے پہلے ہی رجسٹریشن کا بائیکاٹ کر رکھا ہے۔کل کیمپس کے اے بی وی پی کے طالبعلموں نے بہت سے طالبعلموں کو رجسٹریشن نہ کرانے کی وجہ سے پیٹاتھا۔ انتظامیہ کی حمایت والے کچھ اساتذہ نے بھی طالب علموں کی پٹائی کی۔

ان کا کہنا ہے ،اتوار کودن بھر ایڈمن بلاک میں 50-60 لوگ لاٹھی-ڈنڈے لےکر بیٹھے ہوئے تھے۔ ادھر سےگزرنے والوں کو دہشت زدہ کرکے پیٹا جا رہا تھا۔ اس طرح کا ماحول پچھلے دو-تین دنوں سے بناکر رکھا گیا تھا۔ آج شام کو پیریار ہاسٹل کے باہر ایک جھڑپ  ہوا۔اس کےبعد تشدد کی مخالفت میں یہاں پر لوگ اکٹھا ہونا شروع ہوئے۔ ہمارا کیمپس پر امن اور صحیح طریقے سے مظاہرہ کے لئے جانا جاتا ہے۔ یہاں اکٹھی ہوئی بھیڑ پر حملہ کیاجاتا ہے۔ ‘

(فوٹو: پی ٹی آئی)

(فوٹو: پی ٹی آئی)

بتا دیں کہ، رات میں کیمپس کا معائنہ کرنے کے لئے دہلی پولیس کے اعلیٰ افسر پہنچے۔ حالانکہ، طالب علموں نے مخالفت کرتے ہوئے ان کوواپس جانے کے لئے مجبور کر دیا۔ اس دوران طالب علموں اور پولیس کے درمیان زورداربحث ہوئی اور طالب علموں نے پولیس کے خلاف نعرے بازی کی۔

سینٹر فار سوشل ہیلتھ اینڈ کمیونٹی سینٹر کے پروفیسرریتو پریہ نے کہا، ‘ نقاب پوش لوگوں کی بھیڑ لوہے کا راڈ اور دیگر ہتھیاروں کے ساتھ آئی تھی۔ طالب علموں کے کمرے اور میس میں گھس‌کر ان کے ساتھ مارپیٹ کی گئی۔ میں نےخود دیکھا کہ ایک طالب علم کو پہلی منزل سے نیچے پھینک دیا گیا اور اس کو فریکچرہو گیا ہے۔ یہ بہت ہی وحشیانہ اور منصوبہ بند حملہ تھا۔ پولیس نے طالب علموں کی مددنہیں کی۔ جے این یو وی سی نے حملے کی مذمت تو کی ہے لیکن تحفظ کے لئے انہوں نے کیاکیا یہ پتہ نہیں چلا ہے۔ ‘

انہوں نے کہا، ‘اے بی وی پی کے طالب علموں کے بارے میں صاف طور پر نہیں کہا جا سکتا ہے لیکن باہر سے لوگوں کو بلایا گیا اور وہ لوگ لیفٹ اور عام طالب علموں کو نشانہ بنا رہے تھے۔ جےاین یوٹی یو کی میٹنگ چل رہی تھی،وہاں پر اساتذہ کو نشانہ بنایا گیا، کاروں کو توڑا-پھوڑا گیا۔ یہ صاف ہے کہ پہچان کرکے لوگوں کو نشانہ بنایا جا رہا تھا۔ وہ کہتی ہیں ،اندر آنے کے بعد بھی پولیس باہری لوگوں سےطالب علموں کو بچا نہیں کر سکی، یہ بات پکی ہے۔ حملہ آوروں کے جانے کےبعد ہاسٹل کے سبھی طلبہ وطالبات نکل‌کر باہر سڑک پر آ گئے کیونکہ وہ ڈر گئے تھے۔ اس کے بعدطالب علموں کے پر امن مظاہرے کو دیکھ‌کرپولیس پیچھے ہٹ گئی لیکن پولیس کا کام دونوں طرف کے تشدد کو روکنے کا ہونا چاہیے۔ ‘

جے این یو کیمپس میں 1997 سے رہنے والے وجئے پرتاپ کی بیوی پروفیسر ہیں۔ انہوں نے کہا، ‘ ایک وہاٹس ایپ گروپ یونٹی اگینسٹ لیفٹ کا اسکرین شاٹ میں نے دیکھا جس میں 5.33 بجے کے ٹوئٹ میں لوگوں کو آئی آئی ایم سی، منیرکاسمیت الگ الگ گیٹوں سے آنے کو کہا جا رہا ہے۔ اس میں کہا گیا کہ اب پٹائی ہی ان کی صرف ایک دوا ہے۔ یہ پوری طرح سے منصوبہ بند طریقے سے کیا گیا۔ ‘

حالانکہ، دی وائر ان وہاٹس ایپ گروپ کی آزادانہ طورپرتصدیق نہیں کرتا ہے۔انہوں نے کہا، ‘میں نے جے این یو انتظامیہ کا بیان دیکھا اس میں اس کو دو گروپس کی لڑائی کہہ‌کر پیش کیا جا رہا ہے جو کہ سراسر جھوٹ ہے۔ سابرمتی میں ان کے گھسنے کے بعد طالب علموں نے ہمیں پیغام بھیج  کر بتایا کہ ہمیں پیٹا جا رہا ہے۔ ہم لوگ پہنچے تو وہ پٹائی کرکے جا چکے تھے۔ ہم نے دیکھا کہ ایک بوتل ٹوٹی ہوئی پڑی تھی جس میں تیزاب تھا، ہاکیاں تھیں، راڈ تھے، تمام دروازوں کےشیشے توڑ دئے گئے تھے۔ تمام لوگ دروازے بند کرکے اندر چھپے تھے۔ جن دروازوں پر اےبی وی پی نہیں لکھا تھا ان کو توڑنے کی کوشش کی گئی۔ 12 کے قریب دروازے توڑے گئےاور ان میں رہنے والوں کی پٹائی کی گئی۔ ‘

وجئے پرتاپ نے ایک بینائی سے محروم  طالب علم کی پٹائی اور ایک طالب علم کو پہلی منزل سے نیچے گرائے جانے کی تصدیق کی۔

انہوں نے کہا، ‘ میری بیٹی باہر سے آ رہی تھیں تو ان کی چیکنگ کی گئی لیکن یہ غنڈہ کہاں سے آ گئے ان کی چیکنگ نہیں کی گئی۔ ان کو الگ الگ طریقے گائیڈکیا جا رہا ہے۔’

(فوٹو: پی ٹی آئی)

(فوٹو: پی ٹی آئی)

طلبا اور اساتذہ پر حملے کی اطلاع پاکر ان کی حمایت میں سماجی کارکن بیجواڑا ولسن بھی جے این یو پہنچے۔ انہوں نے کہا، ‘واقعہ کے بارے میں تو سن‌کر میں چونک گیا کیونکہ یہ جے این یو کی تہذیب نہیں ہے۔ طالب علموں اورپروفیسروں نے جو بتایا ویسا تجربہ ہم نے پہلے کبھی نہیں کیا۔ مارنا-پیٹنا یہاں کی تہذیب نہیں ہے۔ باہر والوں نے یہ کیا ہے۔ پولیس کو ان کو فوراً پکڑنا چاہیے اورسخت کارروائی کرنی چاہیے۔

انہوں نے کہا،کسی یونیورسٹی میں اس طرح کی دہشت گردی صحیح نہیں ہے۔ پچھلے ایک-دو مہینے سے پولیس کیمپس میں ہی موجود ہے اور ہر کسی کی چیکنگ کر رہی ہے تو یہاں بڑا سوال ہے کہ اتنے سارے نقاب پوش لوگ اندر کیسے آ گئے۔ ‘انہوں نے کہا، ‘ ان کو اس کی جانچ کرا کر کارروائی کرنی چاہیے۔ وی سی اور انتظامیہ کو اس کے لئے ذمہ دار ٹھہرایا جانا چاہیے۔ ایسے نہیں چھوڑا جا سکتا۔ یہ تہذیب پھیل گئی تو ملک اور تعلیمی اداروں کا کیا ہوگا۔ میں نےکبھی نہیں سوچا تھا کہ جے این یو میں ایسا ہوگا۔ یہ ایک بہت ہی نئی تہذیب ہے جو کہ فسطائی ہے۔

انہوں نے کہا،ایسے اداروں کو بچانا ہر کسی کی ذمہ داری ہے، لیفٹ-رائٹ-سینٹر کرکے اسےتباہ نہیں کیا جا سکتا ہے۔ یہ صرف دھیان بھٹکانے کی سازش نہیں ہے بلکہ حکومت ہرکسی پر حملہ کروانے کی فیکٹری بن گئی ہے۔ حکومت پوری طرح سے اس کے لئے ذمہ دار ہےاور وزیر داخلہ کو اس کی ذمہ داری لینی چاہیے۔ ‘

جے این یو کے پی ایچ ڈی طالب علم پرتیک کوٹے نے بتایا، ‘جے این یو کے طلبہ نمائندوں کے بغیر پاس کرائے گئے ہاسٹل مینوال کے خلاف گزشتہ 28اکتوبر سے یہاں احتجاجی مظاہرہ چل رہا تھا۔ میں خود لوہِت ہاسٹل کا صدر ہوں، لیکن کسی بھی نمائندے کو نہیں بلایا گیا تھا۔ پچھلے دو مہینے سے ہمارا مظاہرہ پرامن طریقے سے چل رہا تھا۔ طلبہ اور اساتذہ مکمل  تعاون کر رہے تھے۔ ہماری ایچ آرڈی وزارت کے ساتھ بھی بات چل رہی تھی۔ اپنی مانگوں کے حوالے سے ہم کسی نتیجہ پرپہنچنے ہی والے تھے لیکن اسی بیچ اے بی وی پی کے ذریعے ہمارے احتجاجی مظاہرے کوختم کرنے کی کوشش کی جانے لگی۔ ‘

انہوں نے کہا، ‘1 جنوری سے رجسٹریشن شروع ہوا تھا لیکن ہم نے اس کا بائیکاٹ کیا تھا۔ زیادہ تر طلبا ہمارے ساتھ تھے لیکن اے بی وی پی کےذریعے ہماری مخالفت کی جا رہی تھی۔ کل کمیونی کیشن اینڈ سائنسز کی بلڈنگ میں اے بی وی پی کے طالب علموں نے ہمارے پر امن مظاہرہ پر حملہ کیا تھا۔ جے این یو  اساتذہ یونین جےاین یوٹی اے سے الگ آر ایس ایس-بی جے پی حمایت یافتہ اساتذہ کی تنظیم جےاین یوٹی ایف نے ہمارے اوپر حملہ کیا تھا۔

وہ کہتے ہیں، اس کے بعد آج دہلی یونیورسٹی،وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل کے لوگوں کو بلایا گیا اور حملہ کرایا گیا۔ یہاں سکیورٹی کمپنی پر بھی سوال اٹھ رہے ہیں۔ ہم طالب علموں سے 10بار پوچھ تاچھ کی جاتی ہے لیکن وہ بنا کسی چیکنگ کے اندر آ گئے۔ طلبا اور اساتذہ سبھی کو پیٹا گیا۔سابرمتی، نرمدا اور پیریار ہاسٹل میں گھس‌کر پٹائی کی گئی۔ لڑکیوں کے ہاسٹل میں بھی مارپیٹ کی گئی۔ ان غنڈو نے گیٹ پر یوگیندر یادو اور ڈی راجہ جیسے رہنماؤں کےساتھ ہاتھا پائی کی۔ وزارت بھی ان کی حمایت کر رہی ہے۔ ‘